حال ہی میں وزیراعظم پاکستان فرانس کے شہر
پیرس جا پہنچے اور وہاں منعقد ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں ایک پرچہ
پڑھ کر سنایا۔ سنا ہے کہ سیر سپاٹے کے شوقین وزیراعظم کو پیرس کی سیر سے
پہلے بتایا گیا کہ جناب آپ کی کابینہ میں ماحولیات کا وزیر ہی نہیں ۔
مشائداﷲ خان کو تو آپ سیاسی ماحول مزید آلودہ کرنے اور فوج کے ساتھ چھیڑ
چھار پر کب کا فارغ کر چکے ہیں اصول تو یہ تھا کہ آپ اپنے برادر خورد اور
ڈپٹی وزیراعظم جناب شہباز شریف اور وزیر دفاع خواجہ آصف کو بھی فارغ کرتے
چونکہ مشائد اﷲ خان نے توان دونوں کی دیکھا دیکھی محض دکھلاوے کے لیے بیان
دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے مواقع پر قربانی کے لیے مشائد اﷲ جیسے لوگ ہی
پارٹیوں میں رکھے جاتے ہیں جو مہمان لیڈروں کے لیے جیلوں ، جلسوں اور
استعفوں وغیر ہ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مشائد اﷲ صاحب کو جب جبری
ریٹائر کیا گیا تو موصوف نے ضرور سوچا ہوگا کہ کاش وہ کشمیری مہاجر یا پھر
ڈار ، خواجہ ، نائیک یا بٹ وغیرہ ہوتے تو انہیں اسطرح ناقابل استعمال قرار
نہ دیا جاتا۔
وزیراعظم صاحب نے پیرس جانے سے پلے ہر فن مولا اور ہر حکومت کے لیے قابل
قبول شخصیت جناب زاہد حامد کو ماحولیات کا فالتو قلمدان تھما کر پیرس
پہنچنے کا حکم صادر کیا اور پھر خود بھی وہاں تشریف لے گئے برکھادت نے لکھا
ہے کہ میاں صاحب پیرس ماحولیات کے لیے نہیں بلکہ مودی سے ملاقات کے لیے گئے
تھے جو کھٹمنڈومیں ہونے والی خفیہ ملاقات کے دوران طے ہو چکی تھی۔ اس کے
علاوہ افغان صدر اشرف غنی سے بھی بعد از ہزار منت وسماجت ملاقات ہو ئی جسکے
لیے میاں صاحب نے ایک پختون جرگہ کابل بھجوا یا اور پھر برطانوی وزیراعظم
کی کوششوں سے اشرف غنی جیسے صدر جو محض کابل کا ڈپٹی میئر ہے سے شرف ملاقات
نصیب ہوا۔ ماحولیات کی آڑ میں ان ملاقاتوں کا کیا مقصد تھا اور آخر اسکا
کیا نتیجہ نکلے گا یہ خدا ہی جانتا ہے مگر پاکستانی اینکر برادری نے اسے
اپنی اپنی مرضی اورمعاوضے کے مطابق رنگ دیے ہیں ۔ اینکروں کی مرضی اور
معاوضہ بھی صحافتی اور سیاسی آلودگی کا سبب ہے جس کا توڑ بھی ضروری ہے۔
میاں صاحب نے زاہد حامد کو ماحولیات کا خشک قلم کیوں تھمایا یہ بھی قابل
غور ہے۔ ویسے تو میاں صاحب کا طرز حکمرانی بھی قابل غور ہے مگر اُن کے تخت
طاؤ س کے اردگرد کا سیاسی ، معاشی اور اخلاقی ماحول بھی کچھ اچھا نہیں ۔ اس
ماحول کا ایک رکن میاں منشا نامی شخص بھی ہے جس کی ایک فیکٹری کے دھویں نے
گلاابوں اور خوشبوں کی بستی کلرکہار کو اسقدر آلودہ کر دیا ہے کہ وہاں کے
مکینوں میں پراسرار بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں ۔ میاں صاحب کو چاہئے کہ وہ میاں
منشا کو ماحولیات کا مستقل وزیر بنا دیں تاکہ وہ باقی شہروں اور قصبوں کو
گندگی اور کوڑا کرکٹ کا کالا دھواں دیکر غریب لوگوں کا خاتمہ کر دیں۔
ساہیوال اور دیگر شہروں میں جلد ہی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ چل
پڑینگے توملک میں غربت کس حد تک کم ہو جائے گی۔ غریب لوگ دھویں اور دیگر
آلودہ ہواؤں اور غذاؤں کی وجہ سے بیمار ہونگے تو انہیں جعلی دواؤں ، جعلی
ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی کمی کی وجہ سے جلد ہی اذیت ناک زندگی سے چھٹکارا
مل جائے گا اسطرح میاں صاحب اور دیگر حکمران خاندانوں کے لیے مسائل کم
ہوجائینگے ۔ دو تین کروڑ غریب افراد سے ماحول اور معاشرہ پاک ہو گیا تو
میاں برداران اور زرادری صاحب کے لیے سیاسی ماحول ہموار ہو جائیگا ۔ پلاننگ
کمیشن کو چاہیے کہ وہ اسطرف زیادہ توجہ دے اور میاں منشا صاحب کے تجربات سے
فائدہ اُٹھائے جس طرح میاں صاحب نے مودی اور اشرف غنی سے ملاقات کا ماحول
بتایا ہے وہ اندرون ملک غریب مارارو غربت مٹاؤ پرواگرام پر بھی کام کر رہے
ہیں اس سلسلہ ماحولیات کا تازہ شاہکار چالیس ارب روپے کا اضافی ٹیکس ، یورو
بانڈ اور خزانے کی بندر بانٹ ہے جس پر عمران خان بھی متفق ہی لگتا ہے۔ اگر
ایسا نہ ہوتا تو پی ٹی آئی حکومت کی عوام کش پالیسیوں پر اعلیٰ عدالتوں میں
جاتی ، عوام کو متحرک کرتی اور اسمبلیوں میں آواز اُٹھاتی مگر ایسا کچھ
نہیں ہوا اور نہ ہی آئندہ اس کی توقع ہے۔
اینکر انہ اور صحافیانہ ماحول سے کچھ یوں لگتا ہے کہ سیاسی آلودگی نے وطن
عزیز کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور گندی سیاست نے شرافت ، حب
الوطنی اور معاشرتی ماحول کو اسقدر آلودہ کر دیا ہے جسکی تاریخ میں کوئی
مثال نہیں ملتی۔ معاشرے کے انتہائی کرپٹ ، بے حس اور قابل نفرت کردار
جمہوریت کی آڑ میں اقتدار پر قابض ہیں عوام کی بے بسی اورمصلحت کوشی بھی
حیران کن ہے کہ وہ ظالم اور دندرہ صفت لوگوں کو نہ صرف ووٹ دیکر کامیاب
کرتے ہیں بلکہ اُنکا ظلم وجبر بھی کما ل حوصلے او رہمت سے بر داشت کرتے ہیں
۔ جعلی دوائیں ، جعلی غذائیں ، جعلی ڈگریاں اور سندیں ، جعلی الیکشن ، جعلی
جمہوریت اور جعلی سلیکشن سے لیکر ہر طرح اور سطح پر لوٹ مار کرنے والے
مافیاکوعوام میں پذیرائی حاصل ہے۔ انتظامی ادارے مافیاکا حصہ ہیں اور مافیا
کے مسلط کردہ قوانین کو پوری ایماندرای سے عوام پر لاگو کرتے ہیں ۔ پولیس
اور پٹوار انہ نظام جبر کے نشان اور ظالمانہ نظام کی پہچان ہیں اور عدلیہ
عوام کی طرح بے بس ہے۔ انصاف کے لیے تفتیش اور شہادت تو لازمی قرار دی گئی
ہے مگر جھوٹی شہادت اور جعلی تفتیش کا کوئی حل موجود نہیں ۔ چرس کا ایک
سیگریٹ اور ہیرؤین کی ایک پڑیا یقینا جرم ہے اور ایسے ہزاروں لوگ جیلوں میں
بند چرس اور ہیرؤئن کا نشہ کرتے ہیں مگر اربوں روپے کی ایف ای ڈیرین بیچ کر
کھرب پتی بننے والوں کو جیل کے بجائے اعلیٰ عہدوں پر بٹھا دیا جاتا ہے ۔
وزارت خزانہ کا کام بھی انوکھا ہے ۔ یہ وزارت مال کمانے ، خزانہ لوٹنے ،
عوام پر نت نئے ٹیکس مسلط کر نے اور عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری سود پر
قرض لینے کا ادارہ بن چکا ہے مگر عوام خاموش ہے۔ بہت سال پہلے جب پٹرول سات
روپے لیٹر ہوا تو عوام کی طرف سے کوئی رد عمل نہ آیا اسلام آباد میں بیٹھے
کسی بیرسٹرا نیس جیلانی نے حکومتی ظلم اور عوام کی بے بسی پر کالم لکھ ڈالا
مگر نہ حکومت کے کان پر جوں رینگی اور نہ ہی عوام نے اس انگریزی کالم پر
توجہ دی ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اُس حکومت میں بھی وہی لوگ تھے جو آج کی
حکومت میں ہیں تبدیلی صرف اتنی ہے کہ اُن میں سے جو کھا پی کر مر گئے اب
اُن کے بیٹے بیٹیاں اور پوتے نواسے اسمبلیوں میں ہیں ۔ بیرسٹر انیس جیلانی
نے لکھا کہ حکومتوں ، حکمرانوں اور سیاستدانوں نے عوام پر ہر طرح کا ظلم
کیا مگر پھر بھی کوئی احتجاج نہ ہوا۔ عوام ظلم سہہ سہہ کر پتھر ہو گئے اور
انہی ظالموں کو مسیحا سمجھ کر پوجتے رہے ۔ اسمبلی کا اجلاس بلا یا گیا اور
بل پاس ہوا کہ ملک کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک ہر چونگی ، ہر نا کے
، ہر بس کے اڈے ، ریلوے اسٹیشن اور ایئر پورٹ پر اُترنے اور چڑھنے والے
مسافروں کو پیٹھ پر دو دو کوڑے لگائے جائیں بل پاس ہوتے ہیں ہی پولیس حرکت
میں آگئی اور کوڑہ مار پالیسی پر عمل در آمدشروع ہو گیا۔ سال گزر گیا ، لوگ
کوڑے کھاتے رہے ، ظلم برداشت کرتے رہے ۔ کوہلے اور پیٹھیں سہلاتے رہے مگر
صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا ۔ وزیرخزانہ نے بجٹ سے پہلے حاکم اعلیٰ
کو مشورہ دیا کہ وہ کسی جگہ ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر جائیں اور کوڑہ مار
کارروائی کا ملاحظہ کرنے کے بعد عوامی رائے معلوم کریں تاکہ آنے والے بجٹ
میں انہیں مزید رگڑا دیا جائے۔
صاحب عالم نے اپنا وزیر خزانہ ، وزیر داخلہ ، وزیر تجارت اور وزیر دفاع
ساتھ لیا اور ایک پل پر لگے ناکے پر جا پہنچے ۔ لوگ گاڑیوں سے اتر کر کو ڑے
کھا رہے تھے ، درد سے بلبلا رہے تھے۔ زخم سہلارہے تھے مگر احتجاج نہ کرتے
تھے۔ صاحب عالم فوٹو گرافروں صحافیوں اور مشیروں کے جھرمٹ میں آگے بڑھے اور
میگا فون پر عوام سے خطاب کیا، اپنی حکومت کے کارنامہ بیان کیے ، مستقبل کے
پروگراموں کا ذکر کیا اور آخر میں پوچھا کہ میں آپ کی مزید کیا خدمت کر
سکتا ہوں۔
لوگوں نے کہا ہم آپ کے مشکور ہیں کہ دکھ کی اس گھڑی میں آپ نے ہمارا احساس
کیا اور اتنے دور ہمیں دیکھنے اور ملنے آئے اور ہمار ا حال احوال پوچھا آپ
واقعی عوام کا دکھ درد سمجھنے والے عوام کے ہر دلعزیز لیڈر ہیں ۔ بس اتنا
کریں کہ جہاں جہاں آپ نے کوڑہ مار اسکا ڈ تعینات کیے ہیں وہاں اُن کی نفری
بڑھا دیں تا کہ وہ جلد جلد ی کوڑ ے مار کر ہمیں فارغ کر دیا کریں ہم لوگوں
نے دور جاناہوتا ہے ۔ اکثر مسافروں کورات کے اندھیرے میں سفر کرنا پڑ جاتا
ہے ۔ راتوں میں چور ڈاکو اور درندنے بھی نقصان کرتے ہیں جسکی وجہ سے مشکلات
ہیں ۔ حاکم اعلیٰ یہ سنکر پریشان ہو گیا یہ کس قسم کی مخلوق ہے جسے غربت ،
افلاس ، بھوک بیماری تو درکنار عزت وذلت کا بھی احساس نہیں ۔ وزیر خزانہ نے
صاحب عالم کے کان میں کہاحضور ایسی مخلوق ہر حاکم کو میسر نہیں ہوتی جو
انسانوں کی پرستش کرتی ہو اور اُسے اپنی عزت نفس کا بھی خیال نہ ہو۔
دیکھا جائے تو آج پاکستان کا ماحول کچھ ایسا ہی ہے ۔ ایک طرف حکمران طبقہ
اور اشرافیہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور دوسری طرف اینکر باز صحافی
اور قلمبر دار دانشور ایک ایسے آئین اور قانون کی تابعداری کا درس دے رہے
ہیں جو حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اُن کے ہم خیالوں کی حفاظت کے لیے بنایا
گیا ہے۔ پتہ نہیں آئین کے کس خفیہ خانے میں منی لانڈرنگ ، سمگلنگ ، کرپشن ،
سیاسی ، بلیک میلنگ اور حکمران طبقے کو عوام پر مرضی مسلط کرنے کا طریقہ
لکھا ہے۔ صحافیوں ، اینکروں اور دانشوروں کی ایک جماعت کا فرمان ہے کہ
حکومت جو کچھ کر رہی ہے اُس کرنے دیا جائے اور پانچ سال تک انتظار کیا
جائے۔ عوام سب سے بڑے جج اور عوامی عدالت سب سے بڑی منصف ہے۔ اگر عوام
چائینگے تو پانچ سال بعد موجود ہ حکومت اور حکمرانوں کو مسترد کر کے نئے
حکمران لے آئینگے ۔
عقلمندوں سے کوئی پوچھے کہ نئے حکمرانوں کہاں سے آئینگے؟ میاں برادران
جائینگے تو زرداری صاحبان آجائینگے ۔ موجودہ ترمیم شدہ آئین اور قانون کے
تحت عام آدمی معاشی ، سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے اسقدر کمزور ہے کہ وہ
حکمران خاندانوں ، ان کی ذاتی سیاسی جماعتوں اور اُن کے پھیلائے ہوئے
ہتھکنڈوں کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتا ۔ این ۔آر ۔ او اور چارٹر آف ڈیمو
کریسی کے تحت سیاسی جماعتیں ٹریڈ کارپوریشن میں بد ل چکی ہیں اور ان کے
مالکان کو آئین میں ترمیم کرنے کے بعد حق حاصل ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے جج
صاحبان سے لیکر نائب قاصدر کی تعیناتی اپنی مرضی سے کریں ۔ موجودہ اور
سابقہ پی آئی اے کے چیئرمین سے لیکر نادرہ، احتساب بیور اور دیگر اداروں کے
سربراہان کی سلیکشن اور تعیناتی ذاتی پسند اور ذاتی مفادات کے تحفظ کو
ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ اداروں کے سربراہ اپنے اداروں اور ملک کے
مفادات پر ذاتی مفادات اور حکمران طبقے کے احسانات کو ترجیح دیکر لوٹ کھسوٹ
کا بازار گرم کرتے ہیں تو عوام اور عدلیہ اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔
نہ عوام میں احتجاج کی سکت ہے اور نہ ہی عدلیہ کوئی دلیرانہ فیصلہ کرنے کی
ہمت ہے۔ عدلیہ عوام کی طرف اور عوام عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ پہلے کون
کرے سابق چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری نے عتیقہ اوڈھو کی تین بوتلوں پر از
خود نوٹس لیا مگر پارلیمنٹ لاجز سے نکلنے والی تین ہزار بوتلوں پر کسی نے
نوٹس نہ لیا۔ جناب اسحاق ڈار کا فرمان ہے کہ انہیں حضرت داتا گنج بخش ؒ نے
ڈیپوٹیشن پراسلام آباد بھیجا ہے اور میاں صاحب کا بیان ہے کہ پاکستانی عوام
نے انہیں مودی سرکارسے دوستانہ تعلقات بحال کرنے کا مینڈینٹ دیا ہے۔ عدالت
اور عوام کا فرض ہے کہ وہ ان دونوں بیانات کی تحقیق کریں اور میاں صاحب اور
ڈار صاحب کو عدالت میں طلب کر کے اس کی وضاحت چاہئیں ۔ داتا صاحب کی گواہ
اُن کی کشف المجوب اور میاں صاحب کے بیان کی گواہ آئین کی کتاب ہے۔ اگر
عدالت چاہیے تو ان دوگواہیوں کی روشنی اور سچائی کو مد نظر رکھتے ہوئے میاں
صاحب اور ڈار صاحب کو نا اہل قرار دے سکتی ہے۔
مگر ایسا معاشرہ اور ماحول کہاں سے لایا جائے جو صاف شفاف اور آلودگی سے
پاک ہو۔ عوام ٹیلیویژن سکرنیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شائد ٹی وی سکرین سے
کوئی فرشتہ صفت انسان نکل کر معاشرتی ماحول اور سیاسی آلودگی کو اپنی کرامت
سے پاک کروائے اور عدلیہ عوام کی طرف دیکھ رہی ہے کہ شائد عوام کسی بے لوث
اور محب وطن شخص کا چناؤ کریں جو آئین کو عوام کی امنگوں کے مطابق ڈھال دے
اور سب انسانوں کے لیے یکساں قوانین کا نفاذ کرے ۔ سیاستدانوں ، حکمرانوں
اور مافیا لیڈروں کو پتہ ہے کہ عوام اور عدلیہ خواہشات اور کرامات کے خواب
دیکھ رہی ہیں جبکہ حقیقت اور عمل کی گاڑی کا سیٹرنگ اُن کے اپنے ہاتھ میں
ہے۔
وہ عوام کی نفسیا ت سمجھ چکے ہیں اور عدلیہ پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا
اختیار رکھتے ہیں ابن خلدون کسی قوم کے زوال کی تین نشانیاں بتلاتا ہے اول
ضعف اشراف دوئم سپاہ کاتشدد اور سوئم عیش پسندی پاکستانی سیاسی معاشی اور
معاشرتی ماحول کا جائز ہ لیں اشرافیہ تو دولیتوں ، کرپٹ مافیا لوٹ کھسوٹ
کرنیوالوں ، سمگلروں اور قانون شکنوں پر مشتمل ہے اور یہی لوگ صاحب اقتدار
ہیں ۔ سپاہ کی جگہ وزرات خزانہ اور وزارت داخلہ نے لی ہے اور عوام کش
پالیسیوں پر گامزن ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ ابن خلدون نے تیسرا
انڈیکیٹر عیش پسندی بیان کیا ہے جو ظاہر ہے کہ ایک آلودہ سیاسی ماحول اور
معاشرے میں اشرافیہ اور اُس کے ماتحت اداروں اور اشخاص کا ہی حق بنتا ہے ۔
حکمرانوں اور اشرافیہ کی عیاشیوں کا کسے پتہ نہیں مگر کسی کوبھی ہمت نہیں
کہ وہ آگے بڑھ کر اس برائی کا سامنا کرے۔
میکا ولی کا قول ہے کہ حکمران ایسا ہونا چاہیے جس سے عوام محبت بھی کریں
اور خوف زدہ بھی ر ہیں ۔ وہ اپنے قول کی تفصیل میں لکھتا ہے کہ امیر کی
طبیعت میں شیر اور لومڑی دونوں کی خصوصیات ہونی چاہیے ۔ موقع ملے تو شیر کی
طرح حملہ کرے اور لومڑی کیطرح مکر وفریب سے کام لیکر اپنا دامن بھی بچا لے
میاں برادران کا انتخابی نشان شیر اور زرداری صاحب کا تیر خوف کی نشانیاں
ہیں ۔ اینٹ سے اینٹ بجا نا شیرانہ دھمکی ہے اور دبئی میں بیٹھ کر احتساب
عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لینا یقینا چالاکی ہے۔ آیان علی کی جیت لومڑی
کی کامیاب چال ہے۔ جسے شیر کی اشیرباد حاصل ہے۔ ڈاکٹر عاصم کا مقدمہ یقینا
شیر اور تیرکی فتح ثابت ہوگا۔ کراچی آپریشن بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو
جائیگا اور پنجاب کے شیر اور لومڑیاں عوام کے سینوں پر پنجے گاڑنے میں
کامیاب ہونگے عدالتیں یونہی کام کرتی رہیں گی اور ظلم و جبر کے سیاہ بادل
یوں ہی چھائے رہیں گے۔ |