سانحہ چارسدہ
(Anwar Graywal, BahawalPur)
پاکستانی قوم ابھی سانحہ پشاور کے
صدمے سے نہیں نکلی تھی، ابھی ایک ماہ چار روز قبل اپنے بچوں کی پہلی برسی
منائی جارہی تھی، ابھی اے پی ایس کے بچوں کے زخم بھی ہرے تھے، ابھی لوگوں
کے دلوں پر لگی چوٹ سے بھی ٹیسیں نکل رہی تھیں، کہ ایک اور سانحہ ہوگیا۔
چار دہشت گرد باچا خان یونیورسٹی کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر آئے اور
کینٹین اور ہاسٹل پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ ایک جانب سٹوڈنٹس پیپر میں
مصروف تھے، دوسری طرف خود باچا خان کی اٹھائیسویں برسی کے موقع پر تقریب کا
بندوبست تھا۔ یونیورسٹی میں تین ہزار طلبہ و طالبات اور چھ سو کے قریب
مہمان بھی موجود تھے، ایسے میں دہشت گردوں کا گھُس آنا بے حد خوفناک منظر
تھا۔ دہشت گردوں کے پاس جدید اسلحہ بھی تھا، اور ہینڈ بم بھی، اور وہ خود
کش جیکٹس سے بھی لیس تھے۔ اس ناگہانی آفت سے بھگدڑ مچ گئی، دیکھتے ہی
دیکھتے ہر طرف قوم کے نوجوان معماروں کا خون بکھر گیا، جنہوں نے اگلے سالوں
میں مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کرنا تھا، ملکی ترقی میں اپنا حصہ ملانا
تھا، اپنی حاصل کی گئی تعلیم سے معاشرے کو روشن کرنا تھا، وہ چراغ بجھا
دیئے گئے، وہ خواب بکھیر دیئے گئے۔
حملے کے موقع پر سب سے پہلے تو یونیورسٹی کے اندر موجود سکیورٹی نے اپنا
کردار ادا کیا، جن کی وجہ سے دہشت گردوں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس
کے بعد چار سدہ کی پولیس بھی نہایت ہی تیزی سے موقع پر پہنچ گئی، یوں دہشت
گردوں کو کھل کھیلنے کے موقع نہ مل سکا۔ اور فوجی جوانوں نے پشاور سے آنا
تھا، دھند بھی یقینا ہیلی کاپٹرز کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ تھی، مگر ہمارے
فوجی جوان بھی دھند کا سینہ چیرتے ہوئے چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پہنچ
گئے۔ کچھ ہی دیر میں چاروں دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا، مگر اس سے قبل
دہشت گردوں کے حملے میں ایک اسسٹنٹ پروفیسر سید حامد حسین، لائبریرین
افتخار ، سولہ طلبا اور دو طالبات جامِ شہادت نوش کرچکی تھیں۔ اس حملے کے
موقع پر ایک اور بھی اہم بات سامنے آئی کہ سکیورٹی گارڈز، پولیس اور فوج کے
بعد چارسدہ کے کئی لوگ بھی اسلحہ لے کر یونیورسٹی پہنچ گئے، دہشت گردوں سے
مقابلے کا یہ منظر نہایت حوصلہ افزا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قوم نے اب
دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سٹوڈنٹس نے بتایا کہ پروفیسر
حامد حسین نے بھی پستول کی مدد سے دہشت گردوں پر فائرنگ کی، جس سے سٹوڈنٹس
کو محفوظ مقامات پر پہنچنے میں مدد ملی، تاہم بعد میں پروفیسر صاحب بھی
شہید ہوکر اپنی زندگی کو امر کر گئے۔ دہشت گردی کی اس واردات سے قبل خیبر
حکومت ہائی الرٹ ہوچکی تھی، کیونکہ اس قسم کی دھمکیاں موجود تھیں، اسی الرٹ
کی بنا پر تمام سکول بند تھے۔ تمام سکیورٹی اداروں کے بروقت پہنچنے ، دہشت
گردوں کو مزاحمت کا سامنا ہونے اور تعلیمی اداروں کے بند ہونے سے قوم ایک
بہت بڑے سانحے سے محفوظ رہی۔ یونیورسٹی میں چونکہ ہزاروں طلبہ و طالبات اور
سیکڑوں مہمان تھے، اﷲ کے فضل سے وہ محفوظ رہے۔
جنرل راحیل شریف بھی اس اندوہناک واقع کے بعد باچا خان یونیورسٹی پہنچ گئے،
انہوں نے موقع پر صورت حال کا جائزہ لیا اور زخمیوں کی عیادت کی، اپنے
جوانوں کا حوصلہ بڑھایا اور اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ رواں سال دہشت
گردی کے خاتمے کا سال ہوگا۔ جنرل راحیل شریف کے موقع پر پہنچنے سے ماحول
میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جاتی ہے، ان کی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے
ذاتی دلچسپی کا بھی اندازہ ہوتا ہے، اور شہدا کے لواحقین بھی اس اقدام کو
تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سانحہ کے بعد پاک فوج کے ترجمان عاصم سلیم
باجوہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گردوں کے پاس جو موبائل
فون تھے، ان میں افغان سمیں استعمال ہورہی تھیں، اس لئے یہ بات یقین سے کہی
جاسکتی ہے کہ دہشت گردوں کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔ انہوں نے
بتایا کہ دہشت گردوں کو مسلسل موبائل کے ذریعے ہدایات دی جارہی تھیں، حتیٰ
کہ ان کے ہلاک ہونے کے بعد بھی ایک فون بجتا رہا، ان کا ڈیٹا اکٹھا کیا
جارہا ہے، اصل دشمن تک پہنچ گئے ہیں، بہت جلد صورت حال واضح ہو جائے گی۔
پاکستان کئی سالوں سے دہشت گردی کے عذاب میں مبتلا ہے، ہزاروں بے گناہ شہری
اور فورسز کے سیکڑوں جوان جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں، بے شمار گھر اجڑ گئے
اور بہت سوں کے گھروں میں تاریکی اور مایوسی نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ مارنے
والے کو یہ نہیں معلوم کہ وہ ان بے گناہوں کو کیوں مار رہا ہے اور مرنے
والے نہیں جانتے کہ ان کا قصور کیا تھا۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کو
روکنے کے لئے وفاقی حکومت اور پاک فوج نے تمام سیاسی و دینی جماعتوں کو ایک
پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے ہم آہنگ کیا تھا، تمام لوگوں نے مل کر دہشت گردی
کے خاتمے کے لئے حکومت اور فوج کو مینڈیٹ دیا تھا، جس کے نتیجے میں گزشتہ
سے پیوستہ سال کے آخری دنوں میں نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا، اسی
کے تحت وزیرستان میں آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ کا آغاز کیا گیا تھا۔ اگرچہ گزشتہ
سال بھی دہشت گردی کے بہت سے واقعات رونما ہوئے، مگر پہلے سے واضح کمی
محسوس کی گئی۔ جب کمی کو دیکھتے ہیں تو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی
میں کمی ضرور ہوئی ہے، مگر اب جتنے واقعات رونما ہورہے ہیں، یہ بازاروں یا
مساجد میں نہیں ہورہے ، بلکہ ان میں فورسز یا تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ بنایا
جارہا ہے، گزشتہ چار چھ واقعا ت کو دیکھیں تو سب کے سب کسی اہم ٹارگٹ کو مد
نظر رکھ کر کئے گئے ہیں۔
یہ ظلم کون کر رہا ہے، اس کے پیچھے کون سے مضبوط اور منظم ہاتھ ہیں، پاک
فوج کے ترجمان کے مطابق دہشت گردی کے اس تازہ واقعہ میں ہم مکمل طور پر اصل
دشمن تک پہنچ گئے ہیں، ظاہر ہے ابھی بہت سی باتیں فوری طور پر منظر عام پر
نہیں لائی جاسکتیں، مگر اتنا تو عام آدمی بھی جانتا ہے، کہ چند ماہ قبل جب
بھارتی شہر پٹھانکوٹ کے ائیر بیس پر دہشت گردی کے حملے میں چند بھارتی فوجی
مارے گئے تو اس کے بعد سے بھارتی وزیر دفاع نے جتنے بھی بیانات دیئے ہیں،
اورمسلسل جس انداز میں گفتگو کی ہے ، اس سے عام آدمی بھی اندازہ لگا سکتا
ہے کہ بھارت کے اس سلسلہ میں کیا عزائم ہیں۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر
نے مختلف تقریبات اور میڈیا بریفنگ وغیرہ میں کہا کہ جب تک دشمن کو تکلیف
نہیں دیں گے اس وقت تک وہ ہماری تکلیف کو نہیں سمجھے گا۔ یہ بھی کہا کہ اب
ہم بتائیں گے کہ ہم نے کب ، کہاں اور کیا کرنا ہے؟ انہوں نے صاف الفاظ میں
دہشت گردوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کی بات کی۔ اور یہ بھی کہا کہ
دیش کی محبت میں ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں، اس معاملہ میں سب کچھ جائزہے۔
بھارتی وزیر دفاع نے تو پاکستان دشمنی کے لئے جو کچھ ہو سکتا تھا کہا اور
کیا، مگر صدمے کی بات تو یہ ہے کہ استعمال تو ہمارے لوگ ہی ہورہے ہیں، اور
ستم بالائے ستم یہ کہ دہشت گردی کے ایسے واقعات کو بھی اسلام کے ساتھ جوڑ
دیا جاتا ہے، ایسی شرمناک اور غیر اسلامی حرکت کوئی مسلمان بھی کرسکتا ہے،
دل یہ بات ماننے کو تیار نہیں، اگر واقعی وہی لوگ کر رہے ہیں جو ایسے
واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے میں دیر نہیں لگاتے، اور بعض اوقات ایک سے
زیادہ گروہ ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں، مگر کوئی مسلمان کسی بے گناہ مسلمان
کو قتل کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
پاک آرمی اور حکومت کے دیگر ادارے یقینا اس سانحے میں ملوث دہشت گردوں تک
پہنچنے کی پوری کوشش کریں گے، جبکہ اس مرتبہ ثبوت پہلے سے زیادہ واضح ہیں،
انہی کی روشنی میں وہ خفیہ ہاتھوں تک بھی پہنچ جائیں گے، مگر قوم پریشان اس
لئے بھی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری توانائیاں صرف کرنے کے باوجود آخر
کیا وجہ ہے کہ اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، اس پر حکومت کو تمام
متعلقہ اداروں اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مل کر از سرِ نو جائزہ لینے کی
ضرورت ہے۔اصل ٹارگٹ دہشت گردوں کا خاتمہ ہے، ورنہ تعلیمی اداروں کی سکیورٹی
بڑھانا یا انہیں محفوظ بنا لینا ممکن ہی نہیں، کیونکہ ملک بھر میں لاکھوں
سکول ہیں، اور یونیورسٹیوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے پاس وسیع رقبہ ہے، جس
کی چار دیواری بھی مسئلہ ہے، اور اس پر سکیورٹی کا بندوبست بھی ممکن نہیں۔
اس وقت پوری قوم دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت اور پاک فوج کے ساتھ ہے،
شہدائے سانحہ چارسدہ کے غم میں برابر کی شریک ہے، اور اپنے ملک کی حفاظت کے
لئے دعا گو بھی ہے اور فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے لئے تیار بھی۔ اﷲ
تعالیٰ اپنے پاک وطن کی حفاظت فرمائے، آمین۔
|
|