ڈینگی فیور

ڈینگی مچھر اور فیور کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ کتنا خطرناک اور جان لیوا ہے ،ڈینگی مچھر عالمی سطح پر ایشیاء اور پیسیفک کے ٹروپیکل علاقے میں پایا جاتا ہے اور زیادہ تر لاطینی امریکا ،وسطی افریقا ، جنوب مشرقی ایشیاء، کیلیڈونیا اور ہوائی کے باشندے اس میں مبتلا ہو کر موت کا شکار ہوتے ہیں،دنیا بھر میں تقریباً نصف سے زائد افراد ٹروپیکل خطوں میں رہائش پذیر ہیں ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق سالانہ پچاس سے سو میلین افراد ڈینگی بخار میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں پانچ لاکھ شدید بیمار اور بائیس ہزار افراد موت کا شکار ہوتے ہیں خاص طور پر ایشیاء کے کئی ممالک میں نوے فیصد افراد جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں سنگین بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ادارے کے مطابق سال دوہزار سے دوہزار چودہ تک اس بخار میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے اس موذی مچھر سے متاثر ہونے والے ممالک میں لاؤس اور فلپائن سرفہرست ہیں ۔تفصیلی رپورٹ کے مطابق ڈینگی بخار کے خلاف برازیل نے جنگ کا اعلان کیا ہے اور اس خطرناک مچھر میں پائے اور پھیل جانے والے زہریلے وائرس کو نیست و نابود کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے برازیل نے ایک نئی ویکسین کا استعمال شروع کیا ہے جسے ڈینگ ویکسیا کہا جاتا ہے یہ ویکسین اس سال اپریل میں دنیا بھر میں متعارف کروائی جائے گی۔فرانسیسی دوا ساز کمپنی سنوفی پاسچر کیلئے مسرت آمیز اور فیصلہ کن گھڑی ہے کیونکہ برازیل کے ادارہ صحت سے منسلک ایجنسی این ویسا نے فرانس کی تیار کردہ ویکسین کو فروخت کرنے کا اجازت نامہ جاری کر دیا ہے ،ڈینگی وائرس کے خلاف پہلی اور تازہ ترین دوا ڈینگ ویکسیا دنیا بھر میں تین ماہ کے اندر دستیاب ہوگی،اس سے قبل گزشتہ سال دسمبر کے اوائل میں دوا کو فروخت کرنے کا اجازت نامہ سب سے پہلے میکسیکو اور فلپائن کو جاری کیا گیا تھا۔حالیہ برسوں میں ڈینگی فیور ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے اور برازیل میں پھیل جانے سے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ اسی سال موسم گرما میں اولمپک گیمز کا افتتاح ہو گا اور دنیا بھر کی ٹیموں کے علاوہ کھیلوں کے شائقین اور سیاح ریو ڈی جینیرو میں جمع ہونگے لاکھوں سیاحوں اور دیگر افراد کی سیفٹی برازیل کیلئے اہم مسئلہ بن چکا ہے کیونکہ گزشتہ برس ڈینگی بخار میں مبتلا ہو کر آٹھ سو سے زائد افراد موت کا شکار ہو چکے ہیں اور اسی سال حکام نے ڈیڑھ میلین سے زائد ڈینگی کیسسز میں مبتلا ہونے کی رپورٹ شائع کی تھی جو کہ نہایت افسوس ناک بات ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں کوئی ایسا مچھر نہیں جو ڈینگی سے زیادہ خطرناک ہویا اس کا وائرس تیزی سے پھیلتا ہے، ادارے کے مطابق دنیا بھرمیں ہر سال تقریباً تین سو نوے میلین ڈینگی وائرس انفیکشن کے کیس سامنے آتے ہیں جن میں سے چھیانوے میلین شدید خطرناک قرار دئے جاتے ہیں اور ان کا علاج لازمی ہوتا ہے،ڈینگی وائرس چار مختلف کیٹاگریز میں پایا جاتا اور ہر خطے میں ایک نئے انداز سے وائرس کا اٹیک ہوتا ہے ان مختلف اقسام و اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً چالیس فیصد افراد خطرات میں گھری زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ وائرس کے اٹیک سے سنگین فلو ہونے کے سبب خون کا اخراج ہوتا ہے جسکا کوئی علاج نہیں۔فرانسیسی دوا ساز کمپنی سنوفی کے مطابق کئی سالہ تحقیق کے نتائج ظاہر ہو چکے ہیں ،کمپنی کا کہنا ہے نو سال سے پینتالیس سالہ افراد کو انجیکشن لگانا لازمی ہے تاکہ ڈینگی وائرس سے بچاؤ ہو،برازیل میں فی الحال ڈینگی کی روک تھا م اور علاج پر سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالرز کے اخراجات آ رہے ہیں یعنی اعدادو شمار کے مطابق فی کیس چار سو اڑتالیس ڈالر استعمال ہوتے ہیں ،سنوفی کے مطابق دنیا بھر کے پندرہ ممالک میں فوری طور پر چالیس ہزار سیمپل بھیج دئے ہیں اور تجربات کئے جارہے ہیں۔سنوفی نے اپنی تیار کردہ ویکسین کو یورپ میں بھی متعارف کروانے کیلئے ای یو کمیشن میں درخواست دی ہے اور عالمی ادارہ صحت اسی سال اپریل میں منعقد ہونے والے اجلاس میں مشوروں کے بعد اجازت نامہ جاری کریں گے۔ڈینگی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بڑے پیمانے پر جنوبی امریکا اور ایشیائی خطوں میں ڈینگی کے پھیلنے کی وجوہات موسمی تبدیلی اور ال نینو بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سال موسم کئی خطوں میں خطرناک حد تک بگڑ سکتا ہے جس سے شدت آمیز اور طوفانی طرز کے سیلاب اور ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر زلزلے آنے کے امکانات بھی ہیں اور اسی وجہ سے مرطوب آب و ہوا سے زمینی عمل میں تبدیلیاں پیدا ہونے سے مچھروں کی بہتات ہو سکتی ہے جن میں ڈینگی سر فہرست ہے ،طویل تجزیہ کاری کے بعد یہ نتیجہ ظاہر کیا گیا کہ جنوب مشرقی ایشیاء کے آٹھ ممالک میں ڈینگی کیسسز میں مزید اضافہ ہو گا جس سے کئی اموات کا خدشہ ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 245998 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.