دل توچاہ رہا تھا کہ پشاور میں باب خیبر کا
افتتاح اور خیبرپختونخوا حکومت کی ایک ارب درختوں کی سونامی اسکیم پر کچھ
لکھا جائے لیکن چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی میں پیش آنے والے الم ناک
سانحے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں رہا۔ ٹی وی چینلزپر رقت انگیز مناظر، ماؤں
بہنوں کی چیخ پکار نے ایک بار پھر سانحہ آرمی پبلک اسکول کی یاد تازہ کر دی
ہے۔ خدا خدا کرکے ملک میں امن کی ہوائیں چلناشروع ہوئی تھیں، دہشت گرد پسپا
ہورہے تھے، بیرون ملک مقیم پاکستانی وطن لوٹنے لگے تھے، خیبرپختونخوا میں
سیاحت کے شعبے کو نئی زندگی ملنے لگی تھی، لیکن نئے سال کے آغاز پر دہشت
گردی کی اس لہر نے پھر ہمیں پیچھے دھکیل دیا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے
دو ہزار سولہ کو دہشت گردی کے خاتمے کا سال قرار دیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کے
جوان مسلسل اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اس پاک دھرتی سے دہشت گردی کا
ناسور ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں لیکن گزشتہ پندرہ برسوں سے جاری جنگ ہے کہ
ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے
کہ ہم نے ساری ذمہ داری فورسزکے کاندھوں پر ڈال دی ہے ۔ آج کم از کم مجھ
جیسے ادنیٰ طالبعلم کے ذہن میں بھی یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ تنہا سیکیورٹی
ادارے ان دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، ریاست کے دیگر اداروں کو اب
ذمہ داری نبھانا ہوگی۔
بلاشبہ آپریشن ضرب عضب کے باعث دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ ہوئے ہیں۔ شورش
زدہ علاقوں میں آئی ڈی پیز کی بڑی تعداد لوٹی ہے لیکن کیا ان کی فکری تربیت
گاہیں بھی تباہ ہوئی ہیں، جہاں تعلیم کے نام پر معصوم ذہنوں کو پراگندا کیا
جاتا ہے، جہاں انہیں اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ جاؤ اوربے گناہ لوگوں
کو قتل کرکے جنت کماؤ۔ بیس نقاط پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان میں تفصیل سے اس
معاملے پر بات کی گئی ہے لیکن انتہائی افسوس ہوتا ہے جب ہم یہ سنتے ہیں کہ
حکومت ان نقاط پراُس انداز میں عمل درآمد نہیں کررہی ہے جس طرح کیا جانا
چاہیے تھا۔ دہشت گرد وقت کے ساتھ اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے لگے ہیں۔ ان کی
ناپاک سوچ اور فکر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کا عملی
مظاہرہ اُس وقت دیکھنے میں آیا جب سانحہ صفورہ اور اس جیسے دیگر واقعات میں
اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا۔ یعنی اب کوئی یہ نہیں
کہہ سکتا ہے کہ دہشت گرد سادہ لوح افراد کو استعمال کر رہے ہیں، اچھے خاصے
پڑھے لکھے لوگ بھی اس فکر سے محفوظ نہیں۔
یہ امر خود میرے لیے بڑی حیرت کا باعث ہے، کیوں کہ کوئی بھی پڑھا لکھا شخص
جس نے تھوڑا بہت بھی دین کا مطالعہ کیا ہو وہ دہشت گرد حملے تو کُجا، زبان
سے بھی کسی کو تکلیف پہنچانے کا روادار نہیں ہوسکتا۔ جس دین اسلام کا مادہ
ہی ''سلامتی'' ہو، جہاں آغاز میں ہی یہ بات ذہن نشین کرا دی جائے
کہ''مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔''، جہاں
ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ٹھہرتا ہو، وہاں کوئی قتل جیسا گھناؤنا
جرم کیسے کرسکتا ہے؟۔ دین متین کے مختصر سے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر
پہنچا ہوں کہ اسلام کی مثال ''تپتے ریگستان میں اُس کنویں کی سی ہے جو بلا
رنگ و نسل اور زبان و مذہب کی تفریق کے، ہرشخص کی پیاس بجھاتا ہے۔ وہاں
چرند پرند، وحشی درندے بھی آجائیں تو اپنی پیاس بجھائے بغیر واپس نہیں
لوٹتے۔'' نبی رحمت ﷺ کی سینکڑوں احادیث مبارکہ دہشت گردی کی مذمت کرتی ہیں
۔ مغربی دنیا قرآن پاک کامطالعہ کرکے اپنے سینے اسلام کے نور سے منور کر
رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ ساری تعلیمات دہشت گردوں تک کیوں نہیں پہنچ پاتیں۔
اس کی بنیادی وجہ غربت اور ناخواندگی تو ہے ہی، لیکن اس بات کو بھی نظر
انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جن لوگوں نے ''امر بالمعروف ونہی عن المنکر''کا
بیڑا اُٹھا یا تھا، وہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوگئے۔
انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ علماء کرام نے تحقیق چھوڑ دی ہے۔
جمعہ اور عیدین کے خطابات اب بارہ تقریروں تک محدود ہو چکے ہیں۔ مسلکی
اختلافات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ ایک مسلک کے پاس دوسرے مسلک کے خلاف
فتوؤں کے انبار ہیں لیکن اگر کہیں کمی ہے تو دہشت گردوں کے خلاف فتووں کی۔
مجھے حکمرانوں سے کوئی گلہ نہیں۔ کیوں کہ جو سیاستدان کروڑوں روپے لگا کر
اقتدار میں آتا ہے، اُس کی پہلی ترجیح اُس رقم کو سود سمیت واپس حاصل کرنا
ہی ہوسکتا ہے، نہ کہ عوام کی خدمت۔ ڈاکٹر تاجر ، انجینئر، صحافی حتی کے
اسٹاف نرس تک ، ہر ایک اسی کوشش میں ہے کہ کوئی سبب بن جائے اور وہ دیار
غیر میں جاکر سکون سے اپنی زندگی گزارسکے۔ ایسے میں پاک فوج اور دیگر
سیکیورٹی اداروں کی پشت پر کون کھڑا ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا نصاب امن نافذ کیا جائے جس میں دین اسلام کا
مکمل خاکہ پیش کیا گیا ہو، نبی رحمت ﷺ کا اخلاق حسنہ، پڑوسیوں ، رشتے
داروں، بچوں،اہل علاقہ، غیرمسلموں حتیٰ کے جانوروں کے ساتھ بھی حُسن سلوک
کے تذکرے موجود ہوں۔ یہ نصاب ابتدائی برسوں میں طالبعلم کے ذہن میں اس طرح
راسخ کردیا جائے، کہ کوئی دہشت گرد خواہش کے باوجود کسی ذہن کو اپنی غلیظ
فکر سے پراگندا نہ کر سکے۔ اب ضرب عضب کے ساتھ ضرب فکر اور ضرب علم بھی
لڑنا ہوگی۔ جہاں تک خیبرپختونخوا حکومت اور وہاں کے سیکیورٹی اداروں کا
تعلق ہے، بلاشبہ اُنہوں نے قربانیاں دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ صوبے
میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے ، اگر کہیں کمی ہے تو ان دہشت
گردوں کی فکری تربیت گاہوں کو تباہ کرنے کی۔ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے
کے بجائے اگر یہی توانائیاں ہم اپنے گھر کو ٹھیک کرنے میں لگادیں تو ضرور
ایک نہ ایک دن کامیابی ہمارے قدم چومے گی اور یہ ملک ایک بار پھر امن کا
گہوارا بن جائے گا۔ |