باچا خان یونیورسٹی حملہ……ہمیں کرنا کیا ہوگا؟

دہشت گردوں نے چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی کو نشانہ بنایا،دہشتگرد یونیورسٹی انظامیہ اور حکومتی سطح پر اختیار کی گئی حفاظتی تدبیر کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ انکا ہدف پاکستان کے مستقبل اور روشنی کے چراغ بنے۔ دہشت گردوں کی بربریت و وحشت کا شکار بیس معصوم طالب علم استاد اور دیگر اہلکار بنے ، اسلام کے نام پر بدنماداغ،قاتل درندوں نے ماؤں کے جگرگوشوں ، بہنوں کے بھائیوں اور والدین کی امیدوں کو لہو میں نہلادیا ۔ ملک ایک بار پھر سوگوار ہوگیا۔دہشتگردوں کے حملہ کے وقت یونیورسٹی میں تین ہزار چھ سو طلبہ موجود تھے ۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق حملہ کے روز یونیورسٹی میں باچا خان کے حوالے سے امشاعرہ ہورہا تھا……چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی تحریک آزادی ہند کے عظیم راہنما خان عبدالغفار خان کے نام پر قائم کی گئی ہے ، خان عبدالغفار خان اپنے نام کی نسبت باچا خان کے لقب سے جانے پہنچانے جاتے تھے ۔

پاک فوج کے ترجمان جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بتایاکہ اس سازش بھارتیوں کی آشیرباد سے افغانستان میں تیار ہوئی ۔پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اپنی تمام مصروفیات کو پس پشت ڈال کر موقعہ پر پہنچے اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی خود نگرانی کرتے ہوئے ۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف بھی سکیورٹی اداروں سے رابطے میں رہے اور کارروائی کی خود نگرانی کرتے رہے ۔ یونیورسٹی کے سکیورٹی گارڈ اور پولیس نے پینتالیس منٹ تک چار انسانی روپ میں وحشی درندوں کو مذید تباہی مچانے سے روکے رکھا اور پینتالیس منٹ کے اندر اندر پشاور سے پاک فوج کے جوانوں نے پہنچ کر چاروں دہشتگردوں کو واصل جہنم کیا۔ دہشت گرد اور ان کی سرپرست قوتیں یہ سمجھتی ہیں کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرکے وہ شعور کی بیداری کی تحریک اور ضرب عضب اور دہشت گردی کی جنگ کو کچل دیں گی۔ یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ پوری پاکستانی قوم انکے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی کے شہید طلبا کی روشن کی ہوئی شمع روشن رہے گی۔

یونیورسٹی کے سکیورٹی گارڈز، پولیس اہلکاروں اور یونیورسٹی کے بہادر طلبہ و اساتذہ دیگر ملازمین کا پینتالیس منٹس سے زائد وقت تک پاک فوج کی کمک پہنچنے تک دہشت گردوں کو مصروف رکھنا، انکا مقابلہ کرکے انہیں مذید تباہی پھیلانے سے روکے رکھنا دہشت گردوں کو ایک واضع پیغام ہے کہ’’ تم ہمارے حوصلے، جذبے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کو متزلزل نہیں کرسکے۔ تم ہمیں شکست نہیں دینے میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘ یونیورسٹی کی کنٹین کے مالک سے لیکر عام سکیورٹی گارڈ اور طلبا دہشت گردوں کے عزائم اور منصوبوں، آرزؤں اور امیدوں کی تکمیل کی راہوں میں سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔انکے اس جذبے ،جرآت اور بہادری کی جتنی بھی تحسین کی جائے وہ کم ہے۔

حکومت چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، انہیں اس زعم سے باہر اانا چاہیے کہ ہم نے تعلیمی اداروں کی چاردیواری پر خاردار تاریں لگا کر دہشت گردوں کے تعلیمی اداروں میں داخل ہونے کے راستے مسدود کر دئیے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی کے واقعات اس خیال کو رد کرنے کے لیے کافی ہیں۔ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ پرائمری سکولوں سے لیکر کالجز اور یونیورسٹی کے طالب علموں اور اساتذہ و دیگر سٹاف کو اسلحہ کے استعمال کی تربیت دینا ہوگی ۔

دہشت گردی کے ہر واقعہ،سانحہ اور حادثہ کے بعد حکومت اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے ’’ سکیورٹی الرٹ، ہائی الرٹ اور ریڈ الرٹ جاری کرنے کے اعلانات میڈیا کی ازینت بنتے رہتے ہیں ،لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ ’’ الرٹ،ہائی الرٹ اور ریڈ الرٹ‘‘ کہاں چلے جاتے ہیں کہ دہشت گردوں کو اپنے جوہر دکھانے کے مواقع دستیاب ہو جاتے ہیں؟ ہمارے ذمہ داروں کو اس سقم کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ قوم کے بچے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں ناکہ قربانیاں دینے کے لیے والدین اپنے لخت جگروں، اپنی آنکھوں کی ٹھندک اور دل کے چین قربانیاں دینے کے وہاں بھیجتے ہیں۔

دہشتگردی کے اس واقعہ کی ماضی کے واقعات کی طرح شدید اور سخت الفاظ میں مذمت اور شہید طلبہ ،اساتذہ اور دیگر ملازمین کی قربانیوں اور پولیس و فوج کی کارروائیوں کی تعریف ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی لیکن اس مقام ہم سب کو سر جوڑ کر اپنے اعمال، حکومتی طرز عمل اور دہشتگردی کے خاتمے کی جنگ میں رہ جانے والی خامیوں ،کمزوریوں اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ ملک کے اندر اور باہر سے دہشتگردوں کے سہولت کاروں اور انکے سرپرستوں کو کچلنے میں کسی قسم کی رواداری اختیار کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ جس طرح بھارت اور افغانستان کے حکمران اپنے ممالک میں ہونے والے ہر واقعہ ہمارے (پاکستان کے) سر تھونپ دیتے ہیں ، اور ہم مولانا اظہر مسعود اور دیگر کو گرفتار کرکے انکے الزام کو تسلیم کر لیتے ہیں بالکل ایسے ہی ہمیں بھی انہیں دنیا کے سامنے عریاں کرنا ہوگا۔ دنیا کو بتانا ہوگا کہ خطے کے امن کے دشمنوں کے سرپرست و مربی بھارت اور افغانستان کے حکمران ہیں۔ دہشت گردوں کو مالی فنڈنگ،تربیت اور پاکستان کی سرزمین کو نشانہ بنانے کے لیے معاونت یہ فراہم کرتے ہیں۔ کسی دہشت گردوں کو زندہ گرفتار کرکے انہیں میڈیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا……ایسی حکمت عملی دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144525 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.