سیکورٹی پلان تبدیل کیا جائے

 سانحہ چار سدہ پر بھارتی وزیراعظم مودی کا مذمتی بیان آتے ہی نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو مشترکہ خطرہ لاحق ہے ۔نواز شریف کا یہ بیان پڑھ کے دوبئی میں مقیم ایک پاکستانی نے کہا کہ نواز شریف بھارتی ایجنٹ ہیں۔ میں نے کہا آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں اس نے کہا بھارت میں اگر کسی کو چھینک بھی آجائے تو اسی وقت نہ صرف الزام پاکستان کے سر تھوپ دیاجاتا بلکہ مجرموں کو بھارت کے حوالے کرنے پر بھی اصرار کیا جاتاہے ۔ پٹھانکوٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا تو پاکستان کی جانب سے انتہائی معذرت خواہانہ رویے اور نامزد ملزموں کی پکڑ دھکڑ کے باوجود بھارتی وزیر دفاع نے کہا دنیا دیکھے گی کہ ہم پاکستان کو اس کا کیا جواب دیتے ہیں ۔ ابھی چند دن ہی نہیں گزرے کہ باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے بیس نوجوانوں کو شہید کردیا ۔ سیکورٹی ہائی الرٹ ہونے کے باوجود دہشت گردوں مسلح ہوکر خود کش جیکٹیں پہن کر چار سدہ کیسے پہنچے اور یونیورسٹی میں کیسے داخل ہوئے یہ سوال ہر ذہن میں پیدا ہورہا ہے ۔ فوج کے ترجمان کے مطابق مجرموں کا افغانستان میں موبائل سم کے ذریعے رابطہ تھا لیکن کسی نے یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ یہ حملہ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کروایا تھا ۔ اگربھارتی خفیہ ایجنسی را قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں تخریب کاری کے لیے اپنے ایجنٹ بھجواسکتی ہے تو یہ یقین کیوں نہیں کیا جاسکتا کہ بھارتی وزیر دفاع کے حکم پر را نے یہ جوابی کارروائی کرکے ثابت کیا ہے کہ ہم پاکستان کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ایسا سانحہ بھارت یا افغانستان میں ہوتا تو اب تک الزام پاکستان پر لگ چکاہوتااور پاکستانی سب کے سامنے بکری بنے کھڑے ہوتے ۔ گورنر مہتاب خاں عباسی فرماتے ہیں کہ یونیورسٹی میں 54 پولیس اہلکار تعینات تھے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر پانچ سو پولیس والے بھی وہاں تعینات ہوتے تو کیا وہ اس حملے کوروک سکتے تھے ۔؟ اس وقت ہماری آدھی فوج اور ساری پولیس سیکورٹی ڈیوٹی پر ہے ۔پھربھی دہشت گردوں کی نقل و حمل اور وارداتوں کو روکاجاسکا ۔ ہر چھوٹے بڑے سرکاری ادارے حتی کہ تھانوں کے باہر بھی حفاظتی حصار قائم کرکے پولیس چوکیاں بنا دی گئی ہیں۔وہاں تعینات اہلکار یا تو نیند سے اونگھتے یا موبائل پر چیٹنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ہر سرکاری افسر کے گھر اور دفتر کے علاوہ ساتھ ساتھ حفاظتی گارڈ الگ دوڑتے ہیں اگر اس ملک میں دس ہزار سول ٗ فوجی اور پولیس افسر موجود ہیں تو ایک لاکھ سیکورٹی اہلکار ان کی حفاظت پر مامور ہیں جبکہ ملک بھر کی فوجی چھاؤنیوں کے تمام راستوں میں رات دن سخت ترین سردی کے باوجود سیکورٹی کی ڈیوٹی دینے والوں کی تعداد کا شمار ہی نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگرکمین گاہ سے نکلنے سے پہلے ہی سانپ کا سر کچل دیا جائے تو اس کے ڈسنے کاامکان ختم کیا جاسکتا ہے ۔ جب قوم کی حفاظت کرنے والے خود حفاظتی حصار میں قید ہوجاتے ہیں تو تخریب کاروں اور دہشت گردوں کو کون روکے گا۔ سانحہ چار سدہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ ہر واقعے کے بعد وزیر اعظم سمیت تمام وزراء اور سیکورٹی اہلکار مذمتی بیانات کے ساتھ ساتھ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ہم اس خون کا حساب لیں گے۔ ایسا کہنے والوں نے کبھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکا کہ خود تو تم قیدیوں کی طرح پولیس اور فوج کے لاؤ لشکر کے ساتھ چلتے پھرتے ہو تمہارے گھروں دفتروں سے ایک ایک میل دور تک علاقے کو عام آدمی کے لیے بند کررکھا ہے تو تم دہشت گردوں کے خلاف جنگ کیسے لڑو گے مزا تو تب ہے کہ تم بھی عوام کی طرح اپنے ملک میں گھومو پھرو اور عوام کو احساس دلاؤ کہ حکمران بھی تمہارے ساتھ ہیں لیکن تم تو اپنی جانوں کی حفاظت پر غریب پاکستانی قوم کے اربوں روپے خرچ کررہے ہو۔ آدھی فوج اور پوری پولیس کو اپنی حفاظت کے لیے تعینات کررکھاہے تم دہشت گردوں کے خلاف کیسے لڑ سکتے ہو ۔ فوج کے افسر اور جوان قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے شہید ہورہے ہیں ان کی نماز جنازہ میں بھی شرکت کرنے کے لیے بھی تمہارے پاس فرصت نہیں ہے ۔ کیا یہی دہشت گردی کے خلاف تمہاری جنگ ہے ۔ ایک مسلم سپہ سالار کا قول ہے کہ جن حکمرانوں کو اپنی جان کی حفاظت کی فکر ہو وہ قوم کی حفاظت نہیں کرسکتے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پولیس اہلکار تو ویسے ہی بزدل اور ناکارہ ہوچکی ہے دہشت گردوں کا نام سنتے ہی وہ بندوق چھوڑ کر بھاگ جانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن فوج کے افسر اور جوان تو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خون کے آخری قطرے تک لڑتے ہیں لیکن حکمران کیا قدر کرتے ہوئے فوج کے ایسے جانبازوں کی ۔ یہ تو مہربانی ہے کہ دہشت گر د ایک سانحے کے بعد اگلا سانحہ برپا کرنے کے لیے تین چار ماہ کا وقفہ دے دیتے ہیں لیکن یہ بات ہم سب کو تسلیم کر لینی چاہیئے کہ جب تک دہشت گرد وں کی نقل و حرکت نہیں رک سکتی۔ اس وقت تک دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی ۔ پاکستان میں بیس ہزار سے زائد تعلیمی ادارے ہیں کیا سب کو فوجی چھاؤنیاں بنایاجاسکتا ہے سرکاری اور حکومتی اداروں کا شمار ہی ممکن نہیں ہے ۔ میری اس بات کا جواب کون دے گا کہ دہشت گرد اگر افغانی تھے تووہ کیسے اسلحے سمیت پاکستان میں اور کیسے دور دراز علاقے چارسدہ پہنچے ۔ کیا راستے میں تعینات کسی ایجنسی یا اہلکار نے انہیں کیوں نہیں روکا ۔ کہاجاتا ہے کہ انٹیلی جنیس ایجنسیوں نے ایک ہفتہ پہلے وارننگ دے دی تھی کہ دہشت گردی کی بڑی واردات ہوسکتی ہے جو ایجنسیاں اطلاع دے سکتی ہیں وہ خود کاروائی کیوں نہیں کرتی۔کیا وہ اس بات کا انتظار کرتی ہیں کہ سانحہ رونماہوجائے تب اس کا کریڈٹ حاصل کرسکیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر دہشت گردوں پر قابو پانا ہے تو ہمیں اپنا سیکورٹی پلان یکسر تبدیل کرنا ہوگا ۔بہتر ہوگا کہ کم ازکم فوج اپنے بہادر اور جرات مند ایک بٹالین جوانوں کو صرف شہروں میں داخلے اور خارجی راستوں پر تعینات کرکے دہشت گردوں کی نقل و حمل ہر ممکن روکیں اگر ایسا ہوگیا تو واردات سے پہلے ہی دہشت گرد وں کا قلع قمع کیاجاسکے وگرنہ اسی طرح ملک کے تعلیمی ادارے اور سرکاری املاک دہشت گردی کا شکار ہوتی رہیں گی ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784610 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.