ہند۔اسرائیل تعلقات اور ۰۰۰
(Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid, India)
بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے
اور معاشی استحکام و خوشحالی کے لئے حکومتوں کے درمیان بات چیت کے مراحل
جاری ہیں ۔ گذشتہ دنوں ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان دہشت گردی کے خلاف
باہمی تعاون میں اضافے پر اتفاق کیا گیا ۔ ہندوستانی وزیر خارجہ محترمہ
سشما سوراج نے اسرائیلی قیادت سے ملاقات کی اور باہمی و علاقائی امور پر
وسیع تر تبادلہ خیال کیا دونوں ممالک نے مستقبل میں اطلاعات کے تبادلے سے
اتفاق کیا۔ ہندوستانی وزیر خارجہ 17اور 18؍ جنوری کو دو روزہ دورے پر
فلسطین اور اسرائیل پہنچیں ان کا بحیثیت وزیر خارجہ مغربی ایشیاء کا پہلا
دورہ تھا، جہاں پر انہوں نے پہلے روز فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کیں
او رفلسطینی قیادت کو بتایا کہ ساری ہندوستانی قیادت فلسطینی کاز کیلئے
پابند عہد ہے، اس موقع پرصدر محمود عباس نے ہندوستان کو دوست ہی نہیں بلکہ
بھائی قرار دیتے ہوئے فلسطینی کاز کیلئے ہندوستان کی تائید کی ستائش
کی۔سشما سوراج نے پرزور انداز میں کہا کہ فلسطین کے مسئلہ پر ہندوستان کا
موقف تبدیل نہیں ہوا ہے ۔ اسی روز شام وزیر خارجہ اسرائیل پہنچ گئیں جہاں
پر انہوں نے دوسرے دن صدر اسرائیل ریون ریولین اور وزیر اعظم اسرائیل
بنجامن نیتن یاہوسے ملاقات کی ،اس موقع پر سشما سوراج نے اسرائیل سے روابط
کو اولین ترجیح بتاتے ہوئے کئی ایک امو رپر اسرائیلی صدر اور وزیر اعظم سے
بات چیت کی۔ صدر اسرائیل نے باہمی معاشی روابط میں مزید بہتری کی ضرورت پر
زور دیتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک کو فری ٹریڈ اگریمنٹ (FTA)جلد از جلد
قطیعت دینا چاہیے۔ وزیر خارجہ ہند نے اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات
کو اعلیٰ ترین اہمیت دینے کی بات کہی۔ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان
بڑھتے ہوئے تعلقات اس بات کا مظہر ہے کہ دونوں ممالک اپنے روابط اور تعاون
میں سائنس اینڈ ٹکنالوجی و تعلیم،سائبر، دفاع اور زراعت کے شعبوں میں اضافہ
کررہے ہیں ۔ یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ گذشتہ سال اکٹوبر میں صدر جمہوریہ
ہند مسٹر پرنب مکرجی نے فلسطین اور اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ اب وزیر خارجہ
کے دورے کے بعد یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی
عنقریب اسرائیل کا دورہ کریں گے ۔ اس طرح دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ
تعلقات میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ اضافہ دیکھنا ہے کہ مستقبل میں کہیں
فلسطین کے ساتھ ہندوستانی تعلقات ماند نہ پڑ جائے۔ویسے آج کل دوست اور دشمن
ممالک کی تمیز کرنا مشکل ہوچکا ہے کیونکہ اقتدار کے حصول اور اس پربراجمان
رہنے کے لئے دشمن سمجھے جانے والوں کے ساتھ حکمراں جو رویہ اختیار کررہے
ہیں اس سے عام عوام حیران و پریشان نظر آتی ہے جس کا مشاہدہ گذشتہ چند
برسوں سے عوام کررہے ہیں۔سشما سوراج کے دورہ اسرائیل کے موقع پر جس بات پر
خصوصی اہمیت دی گئی وہ ہے کہ دونوں ممالک کے اطراف کے علاقے جس نازک حالات
سے گزر رہے ہیں اور اس سے جو دہشت گردی کے خطرات اضافہ ہورہا ہے جو شدید
تشویش کا باعث ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے دونوں ممالک کے مابین باہمی تعاون
میں اضافہ کو اہمیت دی ہے۔
1947ء میں فلسطین کی تقسیم کی مخالفت کی گئی اور 1949ء میں اقوام متحدہ میں
اسرائیل کے داخلے کے خلاف ہندوستان نے ووٹ دیا۔1950میں پنڈت جواہر لعل
نہرونے اسرائیل کو مملکت کی حیثیت سے تسلیم کیا۔ 1950سے 1990ء تک دونوں
ممالک کے درمیان رسمی تعلقات تھے۔ 1992ء میں نرسمہاراؤ کے دورِ اقتدار میں
رسمی تعلقات میں اضافہ ہوتا گیا اور دونوں ممالک نے اپنے اپنے مفادات کے
پیشِ نظر تعلقات کو مستحکم کرنا شروع کیا۔1997ء میں یہودی مملکت کے صدر کی
حیثیت سے اسحاق رابین نے ہندوستان کا دورہ کرتے ہوئے صدر جمہوریہ ہند شنکر
دیال شرما، نائب صدر کے آر نارنین اور وزیر اعظم دیوی گوڑا سے ملاقات کی
اور اس طرح ہندوستان کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ مستحکم ہوتے گئے ، اسرائیل
کے ساتھ دفاعی تعلقات میں بھی پیشرفت ہوئی۔ 1950سے 1990تک ہندوتوا جماعتوں
نے ہند ۔ اسرائیل تعلقات کیلئے زو ر دیا۔وزیر اعظم مراجی دیسائی نے بھی
خفیہ طور پر اسرائیل کا دورہ کیا تھا جس پر ملک بھر میں ہنگامہ ہوا
تھا۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور حکومت میں ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان
سفارتی تعلقات مزید مستحکم ہوئے ۔ اسرائیل ایک چھوٹا ملک ہونے کے
باوجودسائنس و ٹکنالوجی کے لحاظ سے اسے اہمیت حاصل ہے ، اسکے علاوہ زراعت
کے شعبہ میں اسرائیل کو بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنانے کا وسیع تر تجربہ
حاصل ہے ، دفاعی صلاحیتوں میں اسرائیل کافی اہمیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ
ہندوستان اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرتے ہوئے باہمی تعاون میں
اضافہ کو اہمیت دے رہا ہے۔ چونکہ اسرائیل مسلم دشمن ملک ہے اس لئے اگر
ہندوستان کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ خوشگوار ہوتے ہیں تو مستقبل میں
ہندوستانی مسلمانوں پر یہاں کے تعصب پرست سیاستداں اور عہدیداروں کے ذہن
مسلم دشمنی میں اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں ۔
ایران کی نئی زندگی۔!
ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے پر عملدرآمد نے ایران پر
عائد عالمی پابندیاں برخواست کرتے ہوئے ایران کی ترقی کے لئے راہیں فراہم
کیں ہیں، ایران پر سے پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد اقوام متحدہ کے سکریٹری
جنرل بانکی مون سے لے کر کئی ممالک کی جانب سے خیر مقدم کیا جارہا ہے اور
ایران نے جو معاہدہ کی بنیاد پر وعدہ کیا ہے اسے نبھانے کیلئے امید ظاہر کی
جارہی ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے ایران پر سے عالمی پابندی کے خاتمے کے
اعلان کے بعد قوم کو مبارکبادپیش کرتے ہوئے کہا کہ’’ ایرانی قوم کے صبر کو
سلام پیش کرتا ہوں ‘‘۔ایران پر عالمی پابندیاں ہٹائے جانے کے چند گھنٹوں
بعد صدر حسن روحانی نے کہا کہ ایران نے دنیا کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے باب
کا آغاز کیا ہے۔ حسن روحانی نے کہا کہ اس معاہدے سے کسی ملک کو کوئی نقصان
نہیں پہنچا ہے۔ٹوئٹر پر صدر روحانی نے لکھاکہ اس عنایت کیلئے میں خدا کا
شکرگزار ہوں اور ایران کی عظمت اور اس کے صبر کے آگے سر نگوں ہوں۔ اقوام
متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان
جوہری معاہدے پر عملدرآمد کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک اہم سنگ میل قرار
دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس سے خطے میں امن اور استحکام میں اضافہ ہو
گا۔ سیکرٹری جنرل کے ترجمان کی جانب سے جاری ایک بیان میں بانکی مون نے کہا
کہ فریقین نے جوہری معاہدے کے حوالے سے اپنے اپنے وعدوں کو پورا کیا۔عالمی
ادارے کے سربراہ کا بیان اس رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے
کہ ایران نے جوہری تنازعہ کے حل کیلئے طے پانے والے جوہری معاہدے کی روشنی
میں تمام ضروری اقدامات مکمل کرلئے ہیں۔ یہ رپورٹ جوہری معائنہ کاروں کی
تصدیق کے بعد جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز
اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی ۔ بان کی مون نے اپنے بیان
میں فریقین کے عزم کی تعریف کرتے ہوئے امید ظاہرکی کہ فریقین آئندہ برسوں
میں بھی جائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن پرعملدرآمد جاری رکھیں گے ۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ اس کامیابی سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ عالمی
تنازعات کو بات چیت اور سفارتکاری کے ذریعہ بہتر انداز میں حل کیا جاسکتا
ہے۔ انہوں نے امید ظاہرکی کہ اس معاہدے سے علاقائی امن ، سیکیورٹی اور
استحکام کیلئے علاقائی اورعالمی تعاون میں اضافہ ہوگا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل ایران پر نظر رکھے گا
کہ وہ عالمی طاقتوں سے کیے گئے معاہدے سے انحراف تو نہیں کررہا اور وہ ہر
قسم کے خطرے سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں۔اسرائیلی کابینہ کے ارکان سے خطاب میں
نیتن یاہو نے کہاکہ اگر اسرائیل کوششیں کرکے ایران پر پابندیاں عائد نہ
کراتا تو ایران بہت پہلے ہی ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہوتا اسرائیل ایران کو
کسی صورت جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دے گا۔عالمی طاقتوں سے معاہدے کے بعد
ایران کی جارحیت میں اضافہ ہوگا مگر اسرائیل ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کیلئے
تیار ہے اگر ایران معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو عالمی طاقتوں کو مزید سخت
پابندیاں لگانی چاہئیں ۔ امریکی صدر براک اوباما نے بھی ایران کے ساتھ طے
شدہ جوہری معاہدے کے مکمل نفاذ کو سراہا ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ وہ اب
بھی اسرائیل اور خطے کے دوسرے ممالک کے لیے ایران کی دھمکی کے سخت خلاف
ہیں۔صدر اوباما نے وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ عالمی
طاقتوں نے ایران کے جوہری بم حاصل کرنے کے ہر راستے کو بند کردیا ہے اور
قیدیوں کے تبادلے سے ظاہر ہو گیا ہے کہ سفارت کاری سے کیا کچھ ممکن
ہے۔انھوں نے ایران پر سے عائد عالمی پابندیاں ہٹائے جانے کوایک اچھے دن سے
تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھ رہے کہ مضبوط امریکی سفارت کاری سے کیا کچھ
ممکن ہوا ہے۔یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ جب ہم مضبوطی اور عقل ودانش کے
ساتھ آگے بڑھیں تو کیا کچھ حاصل کرسکتے ہیں ۔صدر اوباما کا کہنا تھا کہ
امریکہ کے اب بھی ایران کے ساتھ شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور وہ اس کے
بیلسٹک میزائل پروگرام پر پابندیوں کے نفاذ کا سلسلہ جاری رکھے گا ۔انھوں
نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ ایران باقی دنیا کے ساتھ اب زیادہ تعاون کا
معاملہ کرے گا ۔درایں اثنا امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ امریکہ
ایران کو قرضے کی مد میں چالیس کروڑ ڈالرز اور انقلاب کے وقت سے اب تک واجب
الادا سود کی مد میں ایک ارب تیس کروڑ ڈالرز ادا کرے گا۔یہ رقم ان اربوں
ڈالرز کے علاوہ ہے جو ایران کو جوہری معاہدے پر مکمل درآمد کی صورت میں
غیرملکی اثاثے غیرمنجمد ہونے کے بعد ملنے والے ہیں۔امریکہ ایک بین الاقوامی
ٹرائبیونل کے فیصلے کے تحت ایران کو یہ رقم دینے کا پابند ہے۔
جوہری پروگرام سے متعلق عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کی رپورٹ کا برطانیہ
اور فرانس نے خیر مقدم کیا ہے ۔برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ نے اپنے ایک
بیان میں کہا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کئی سالوں کے صبر ، مسلسل
سفارت کاری اور پیچیدہ تکنیکی اقدامات کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے اور اس
معاہدے کے لیے برطانیہ نے اہم کردار ادا کیا، ایران جوہری معاہدے سے مشرق
وسطیٰ سمیت پوری دنیا محفوط ہو گئی ہے۔انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ ایران
پر عائد پابندیاں اٹھنے سے برطانوی کاروباری افراد بھی پیدا ہونے والے
مواقعوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔فرانس نے بھی ایران جوہری معاہدے پر عالمی
ایجنسی کی رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم فرانسیسی وزیر خارجہ لارینٹ فیبس
کے مطابق فرانس ایران کی جانب سے عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے پر سختی سے
عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے اس پر کڑی نظر رکھے گا، انہوں نے کہا کہ
جوہری پھیلاؤ کو روکنے کی جانب یہ معاہدہ ایک اہم قدم ہے ۔امریکہ کے بعد
یورپی کونسل نے بھی ایران کے خلاف عائد پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا
ہے۔ایرانی میڈیا کے مطابق مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد شروع ہونے
کے بعد یورپی کونسل نے بھی ایران پر عائد تمام پابندیاں اٹھا لی ہیں۔قبل
ازیں گزشتہ سال جنوری کو چین، فرانس، جرمنی، روس، برطانیہ اور امریکہ کے
علاوہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ نے مشترکہ جامع ایکشن پلان پر
دستخط کئے۔ جس کا مقصد اس بات کی ضمانت دینا تھا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام
پرامن ہے۔ گزشتہ اکتوبر کو یورپی کونسل نے ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے
سے متعلق قانونی اقدامات کی منظوری دی لیکن ساتھ ہی یہ شرط عائد کی کہ آئی
اے ای اے اس بات کی تائید کرے کہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان میں کیے
گئے اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے۔ یورپی یونین نے ایران پر عائد بعض پابندیوں
کو ملتوی کر دیا تھا اور اب مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد شروع ہونے
کے بعد تمام پابندیاں ختم ہوگئیں۔
تیل کی پیداوار میں اضافہ سے کہیں۰۰۰!
ایران نے کہا ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے کے بعد تیل کی پیداوار
میں اضافہ کیا جائے گا۔ ایرانی خبررساں ایجنسی کے مطابق تیل پیدا اور برآمد
کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کیلئے ایران کے نمائندہ مہدی اصالی نے اپنے
ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایران نے پابندیوں کے خاتمے کے بعد تیل کی
پیداوار میں اضافے کے منصوبے میں کوئی ردبدل نہیں کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ
پابندیوں کے خاتمے کے بعد پہلے مرحلے میں ایران تیل کی یومیہ پیداوار میں
5لاکھ بیرل کاا ضافہ کرے گا۔ بعدازاں مزید 5لاکھ بیرل کا اضافہ کیا جائیگا۔
انہوں نے کہا کہ پابندیوں کے نتیجہ میں ایران اپنی تیل کی مارکیٹ سے شدید
طور پر متاثر ہوا تھا اور مارکیٹ میں اپنے حصے کے حصول کیلئے وہ اقدامات
جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کا دیگر اوپیک ممالک سے تیل کی قیمتوں
پر کوئی تنازعہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس تنارعے میں فریق بنے گا ۔واضح رہے
کہ سعودی عرب اور دیگر کئی اوپیک ممالک تیل کی پیداوار میں اضافے کے خلاف
ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس وقت اوپیک ممالک طلب سے زیادہ تیل پیدا کر رہے ہیں
جس سے قیمتیں متاثر ہو رہی ہیں اور ان دنوں خام تیل فی بیارل کی قیمت
28ڈالر سے بھی گر چکی ہے اگرایران یومیہ پیداوار میں مزید اضافہ کرے گا تو
ان قیمتوں میں مزید گراوٹ کا اندیشہ ہے۔ گذشتہ دنوں تہران میں سعودی عرب کے
سفارت خانے کو شدید نقصان پہنچانے جانے اور نذر آتش کئے جانے کے بعد ایران
سے سعودی عرب اور کئی عرب ممالک سفارتی تعلقات منقطع کرلئے ہیں اب دیکھنا
ہے کہ مستقبل میں ان ممالک کا ایران کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ رہتا ہے جبکہ
عالمی سطح پر ایران کو ترقی کے مواقع حاصل ہیں۔پاکستانی وزیر اعظم میاں
نواز شریف اور فوجی سربراہ کا دورہ سعودی عرب اور ایران مستقبل قریب میں
کتنا کامیاب ہوگا اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا ل
متحدہ عرب امارات کی پالیسی میں ایک نیا موڑ
متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد آل
مکتوم نے کہاہے کہ ان کا ملک بتدریج تیل پر انحصار ختم کرنے کی پالیسی
پرعمل پیرا ہے اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ہم تیل کے آخری بیرل کی برآمد
کا جشن منائیں گے۔عرب ٹی وی کے مطابق سماجی میل جول کی ویب سائیٹ ’’ٹویٹر‘‘
پر جاری ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ ان کا ملک تیل پرانحصار بتدریج کم
کرنے کی پالیسی کے لیے پرعزم ہے اور جلد ہی ہم تیل کی برآمد ختم کرنے کا
جشن منائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم تیل کے متبادل توانائی کے ذرائع پرکام
کررہے ہیں۔ حاکم دبئی کا کہنا تھا کہ آنے والی نسلوں کے لیے بہترین معیشت
کی خاطر متبادل توانائی کے ایک جامع قومی پلان جلد ترتیب دیں گے تاکہ مضبوط
معیشت کو ایک نئے انداز میں آگے بڑھایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ متحدہ امارات
نے معیشت کے لیے 70 فیصد تیل پرانحصار کم کردیا ہے۔ ہمارا ہدف ایک ایسی
معیشت کی داغ بیل ڈالناہے جس کا تیل پرانحصار نہ ہو۔ اس سلسلے میں ہم نئے
اقتصادی شعبوں کا اضافہ کررہے ہیں۔ موجودہ معاشی سیکٹرز کو جدید تقاضوں سے
ہم آہنگ کریں گے اور ایک ایسی نئی نسل تیار کریں گے جو متوازن اور دیر پا
قومی معیشت کو آگے بڑھا سکے۔اگر متحدہ عرب امارات واقعی تیل پر انحصار ختم
کرتا ہے تو دوسرے ممالک بھی موجودہ تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کو دیکھتے ہوئے
اہم فیصلے لے سکتے ہیں ، دیکھنا ہیکہ عرب امارات کی یہ پالیسی کس قسم کے
بدلاؤ کے ساتھ ترقی کی راہیں تلاش کرتی ہیں۰۰۰ |
|