مسلمان ملک میں حکومتی انتہاپسندی
(عابد محمود عزام, Karachi)
اس وقت انتہاپسندی کا عفریت مسلم دنیا کو
بری طرح اپنی لپیٹ میں جکڑے ہوئے ہے۔ انتہاپسندی کی انتہا دہشتگردی اور
خونریزی ہے۔ انتہاپسندی عدم برداشت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور عدم برداشت
کا سبب محرومی بنتی ہے۔ بہت سے مسلم دشمن عناصر مسلم معاشروں کو محرومیوں
سے دوچار کر کے انتہاپسندی کو فروغ دینا چاہتے ہیں، تا کہ مسلم ممالک کے
لوگ آپس میں ہی دست و گریباں رہیں اور بدامنی کا شکار ہو کر ترقی نہ کر
پائیں۔
اگرچہ انتہاپسندی صرف مذہب کے ساتھ خاص نہیں ہے، لیکن مذہبی انتہاپسندی
نمایاں اور زیادہ نقصان دہ ضرور ہے، اسی لیے مسلم معاشروں میں مذہبی
انتہاپسندی کو فروغ دینے کی زیادہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس کی تازہ مثال 99 فیصد مسلمان آبادی والا وسطی ایشیا کا اہم مسلمان ملک
تاجکستان ہے، جہاں حکومت نے داڑھی، حج اور خواتین کے حجاب کے خلاف اعلانیہ
اور غیر اعلانیہ جنگ برپا کر رکھی ہے۔ عرب ذرایع کے مطابق ایک سال کے عرصے
میں لگ بھگ 13 ہزار افراد کی داڑھیاں مونڈھ دی گئی ہیں۔ 1700 خواتین اور
لڑکیوں کو بے حجاب کیا گیا ہے، جب کہ 160 ایسی دکانیں بند کی گئی ہیں، جہاں
مسلمانوں کے روایتی ملبوسات فروخت ہوتے تھے۔ اس سے پہلے بچوں کے عربی نام
رکھنے پر بھی پابندی عاید کی جا چکی ہے۔ تاجکستان حکومت نے ہر شہری کا
بنیادی حق مذہبی آزادی کو سلب کر کے زبردستی مردوں کی داڑھیاں مونڈی ہیں
اور عورتوں کے حجاب نوچے ہیں، جس کے ردعمل میں ملک میں انتہاپسندی کا بڑھنا
ایک فطری امر ہے، کیونکہ جب کسی کو بلاوجہ دبایا جاتا ہے تو ردعمل میں تشدد
بڑھتا ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انسانی دماغ میں قدرتی طور پر ایک
نظام موجود ہوتا ہے جو اپنی انا کا دفاع کرتا ہے اور انا کی پامالی کی صورت
میں انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
تاجک حکومت کا شکوہ ہے کہ ملک میں اس لیے مذہبی پابندی عاید کی گئی ہے،
کیونکہ اگر مسلمانوں کو مذہبی عبادات پر عمل کرنے کی آزادی دی جائے تو
انتہاپسندی میں اضافہ ہو گا۔ تاجکستان حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ
انتہاپسندی مذہب پر عمل کرنے سے نہیں بڑھتی، بلکہ مذہب پر پابندی لگانے سے
بڑھتی ہے۔ اگر مذہبی عقیدوں کو دبایا جائے تو بغاوتیں جنم لیتی ہیں۔ مذہب
ہی ایک ایسی وابستگی ہے جس پر کوئی بھی انسان سمجھوتا نہیں کر سکتا۔ مذہب
کے لیے لوگ اپنا تن من دھن قربان کر دیتے ہیں، جس کے مظاہر ہم آئے روز
دیکھتے رہتے ہیں۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود بھی مذہبی روایات پر پابندی
عاید کر دینے سے ثابت ہوتا ہے کہ تاجکستان حکومت ”انتہاپسندی“ کے خاتمے کے
لیے انتہاپسندانہ اقدامات کرکے خود انتہاپسندی کو فروغ دے رہی ہے، جس کا
نقصان ملک کو ہوگا، جب کہ تاجکستان حکومت کی جانب سے اسلامی تعلیمات پر عمل
کو انتہاپسندی کی وجہ قرار دینا غلط فہمی پر مبنی ہے، کیونکہ اسلام دین اور
دنیا میں متوازن زندگی گزارنے کا پیغامبر ہے۔ اسلام امن کا پیغام دیتا ہے۔
اس مذہب میں ایک انسان سے لے کر جانور تک کے حقوق بہت واضح بیان کیے گئے
ہیں۔ اس قسم کی صفات کا حامل مذہب بھلا کس طرح انتہاپسندی کو فروغ دے سکتا
ہے؟ اسلام تو بلاوجہ پانی بہانے کی اجازت نہیں دیتا، کسی کا خون بہانے کی
اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ تاجکستان حکومت کا اسلامی تعلیمات پر انتہاپسندی کا
الزام لگانا سراسر غلط ہے۔ تاجکستان حکومت کی جانب سے اسلامی تعلیمات کے
خلاف کھولے گئے محاذ کے ضمن میں تجزیہ کاروں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ
تاجکستان حکومت کی جانب سے شعائر اسلام کے خلاف جارحانہ رویہ روا رکھے جانے
سے ملک کے اسلام پسندوں کی ایک بڑی تعداد باا?سانی عسکریت پسندوں کے ساتھ
مسلح جدوجہد میں شریک ہوسکتی ہے، کیونکہ دنیا بھر میں جہادی عناصر روز اول
سے اسلام پسندوں کو یہ کہہ کر برانگیختہ کرتے آئے ہیںکہ طاقت حاصل کیے بغیر
اسلام پسندوں کو دنیا میں کوئی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر سکتا، اس کے لیے
اسلحہ اٹھانا چاہیے، لیکن عالم اسلام کی پرامن اکثریت مسلح جدوجہد سے دامن
بچاتی رہی ہے، کیونکہ ان کا موقف ہے کہ جب پرامن راستہ موجود ہے تو مسلح
جدوجہد اور تشدد کا راستہ کیوں اختیار کریں؟ لیکن تاجکستان حکومت نے لوگوں
کی مذہبی آزادی سلب کر کے عسکریت پسندوں کو اپنی بات درست ثابت کرنے کا
موقع فراہم کیا ہے۔
تاجکستان حکومت کے جارحانہ رویے کی وجہ سے وہاں کے پرامن لوگ بھی عسکریت
پسندوں کے بہکاوے میں آکر عسکریت پسندی کی طرف مائل ہوسکتے ہیں۔ اگر
تاجکستان ایسے پرامن ملک میں بھی لوگ پرامن راستہ چھوڑ کر عسکریت پسندی کی
جانب مائل ہوجاتے ہیں تو یہ انتہائی خسارے کی بات ہے، کیونکہ پہلے ہی
تقریباً تمام اسلامی ممالک کو مسلح جدوجہد کا سامنا ہے اور ان کی تعداد
کافی زیادہ ہے۔ اگر ان میں مزید اضافہ ہوجائے تو کس قدر بڑی قیامت برپا
کریں گے۔ اب تاجکستان حکومت اپنے ملک میں اسلام پسندوں کی مذہبی آزادی چھین
کر گویا تاجکستان کے اسلام پسندوں کو جہادیوں کے حوالے کرنا چاہتی ہے، اب
وہ اسلام پسندوں سے کوئی بھی قدم اٹھوا سکتے ہیں۔ پوری دنیا سے پہلے داعش
اور القاعدہ کا مقابلہ کرنا مشکل ہے اور اگر تاجکستان حکومت کے اقدامات کی
وجہ سے ملک میں بھی کوئی نئی داعش جنم لے لیتی ہے تو اس کا ذمے دار کون
ہوگا؟ اس قسم کے ظالمانہ اقدامات کی وجہ سے تاجکستان حکومت پر نہ صرف تنقید
ہونی چاہیے، بلکہ اس پر دباو ¿ بڑھایا جانا چاہیے کہ وہ مذہب کے معاملے میں
ایسی زور زبردستی نہ کرے، کیونکہ اس سے انتہائی پسندی میں اضافہ ہوگا اور
اس کے اثرات دیگر ممالک پر بھی پڑیں گے۔ مسلم ممالک میں پہلے سے ہی
انتہاپسندی بہت زیادہ ہے، ان غیر منصفانہ و ظالمانہ اقدامات سے انتہاپسندی
کو فروغ دینا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ تاجکستان ایک اسلامی ملک ہے، جس کا
تقاضا یہ ہے کہ وہاں مسلمانوں کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے انھیں ملک میں
مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو، لیکن افسوس مسلم ملک کے اندر ہی مسلمانوں کی یہ
حالت ہے کہ انھیں آزادی سے اپنی عبادات ادا کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے۔
یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایک طرف تو مسلمان ملکوں میں داڑھی کی
دشمنی میں تمام تر قانونی اور اخلاقی تقاضوں کو پامال کیا جارہا ہے تو
دوسری طرف غیر مسلموں کے ہاتھوں داڑھی کی افادیت ثابت ہورہی ہے۔ گزشتہ دنوں
آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق جدید سائنسی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ داڑھی
والوں کے چہرے پر بے ریش افراد کے مقابلے میں جراثیم کی مقدار بہت کم ہوتی
ہے۔ اس سے پہلے سائنس متعدد تحقیقات میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ داڑھی مختلف
قسم کے متعدد جلدی امراض کے لیے رکاوٹ ہے۔ 1994ءسے تاجکستان پر حاکم صدر
امام علی رحمن جو مذہب کو خارجی شے قرار دیتے ہیں، مذہب، اعتقادات، عبادات
اور مذہب پر مبنی رسومات کی حوصلہ شکنی اور لامذہبیت کے فروغ کے لیے سرگرم
اور ملک میں لادینیت کے فروغ اور عوام کے ان عقائد، رسوم و رواج کی حوصلہ
شکنی کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
گزشتہ ستمبر میں تاجکستان کی سپریم کورٹ نے ملک کی واحد رجسٹرڈ اسلام پسند
جماعت ”اسلامی نشاة ثانیہ پارٹی تاجکستان“ پر پابندی عاید کی تھی۔ یہ ملک
دہائیوں تک سوویت یونین کے قبضے میں رہا ہے، لیکن ”اب اتنے مانوس صیاد سے
ہوگئے، اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے“ والا معاملہ لگتا ہے، اسی لیے آزاد
ہونے کے باوجود ابھی تک آزاد نہیں ہوا اور اپنے مسلمان باشندوں پر روز نت
نئی مذہبی پابندیاں عاید کی جارہی ہیں۔
|
|