انسانوں کی طرح جانوروں میں بھی مختلف
بیماریاں پائی جاتی ہیں۔ جس طرح انسان میں نزلہ زکام کی بیماری عام ہے اسی
طرح جانوروں میں بھی یہ بیماری پائی جاتی ہے۔ ’’برڈفلو‘‘ کے بارے میں کئی
مرتبہ پڑھا اور سنا گیا ہے۔ یہ بیماری پرندوں میں پائی جاتی ہے لیکن آجکل
ایک نئی بیماری کے بارے میں بڑی تیزی سے خبریں سنی جا رہی ہیں جسے ’’سوائن
فلو‘‘ یعنی سور کا نزلہ کہا جاتا ہے۔
سوائن فلو کی موجودہ وباء خنزیروں میں موجود ایک وائرس کی وجہ سے آئی ہے۔
اس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس کا اب تک پتہ نہیں چلایا جا سکا لیکن سب سے پہلے
کب ہوئی یہ معلومات جین برونڈی کی کتاب فلو فائٹر کے مطالعہ سے معلوم ہوئیں
جس کے مطابق سوائن وائرس کا سب سے پہلے انکشاف 1918 میں ہواجسے اس وقت
سپینش فلو کا نام دیا گیااس فلو سے امریکہ میں پچاس ہزار سے زائد جبکہ دنیا
بھر میں بیس ملین ہلاکتیں ہوئیں یہ 1957تک ہسپانوی آبادی میں موجود رہا۔اس
کے علاوہ 1930میں اس کا انکشاف سانس کی خطرناک بیماری میں مبتلا سوروں میں
ہوا۔
سوائن فلو 'زکام سے مشابہہ متعددی مرض ہے مگر اس کا طریقہ کار مخفی ہے۔
ابھی تک یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ کھانسنے ، چھینکنے اور متاثرہ شخص کو
چھونے سے یہ مرض ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔خصوصا انسانی تنفس
سے دوسرے انسان کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت WHOکے مطابق میکسیکو میں ہلاکتوں کا سبب بننے والا وائرس
A/H1N1وائرس ہے۔ یہ وائرس انسان سے انسان کو منتقل ہوتا ہے اور انسانوں،
سوروں اور پرندوں کے فلو وائرس کے اجتماع سے سامنے آتا ہے۔ سوائن فلو وائرس
صرف اپریل2009سے تادم تحریر ساڑھے گیارہ ہزار سے زائدافراد کو نگل چکا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق سوائن فلو میں مبتلا ہونے کی اہم علامات میں اچانک
104درجے کا بخار شدیدزکام، کھانسی ،سردرد ،جوڑوں کا درداور بھوک کا ختم ہو
جانا ہیں۔اگر بروقت علاج نہ ہوسکے اور مدافعتی نظام ناکارہ ہوجائے تو مریض
نمونیا کا شکار ہو کر دم توڑ جاتا ہے۔چونکہ سوائن فلو کی بیماری واضح
علامات ظاہر نہیں کرتی اور عام معمولی فلو کے مریض کی طرح کی ہی علامات
سامنے آتی ہیں جس کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا انسانوں کی درست تعداد کا
اندازہ لگانا مشکل ہے۔سوائن فلو حاملہ عورت، کم عمر بچوں، موٹے افراد اور
سانس یا دل کی بیماری میں مبتلا مریضوں میں پھیلنے کا امکان زیادہ ہوتا
ہے۔اس جان لیوا بیماری میں مبتلا فرد کے چھینکنے اور کھانسنے سے کسی دوسرے
انسان کو بھی یہ وائرس منتقل ہوسکتا ہے-
اس بیماری سے بچاؤ کے لیے تدابیر پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بچا جاسکتا
ہے۔احتیاط علاج سے بہتر ہے لہذا درج ذیل احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لا کر
اس مرض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔کسی بھی قسم کی انفیکشن خصوصاً وائرل
انفیکشن کے تدارک اور داخلی مزاحمت و مدافعت بڑھانے کیلئے کسی بھی قسم کی
گوبھی،لہسن ،پیاز،ترش پھل، لیموں،مالٹا،سنگترہ ،ٹماٹر،ادرک ،کالی مرچ، زنک
والی غذائیں مثلاًگندم 'مچھلی اور گوشت وغیرہ کو اپنی روز مرہ خوراک میں
شامل کریں۔اپنے ہاتھوں کو باقاعدہ کسی صابن سے دھوئیں۔لیکویڈ سوپ کا
استعمال وائرس کو پھیلنے سے بچانے کا اچھا طریقہ ہے۔ اگر آپ ایسے علاقے میں
ہیں جہاں اس وباء کے پھیلنے کے امکانات ہیں یا ایسے لوگ ہیں جو حال ہی میں
بیرون ملک کا سفر کر کے لوٹے ہیں تو پھر احتیاطی تدابیرپر عمل کرنا مزید
ضروری ہے۔جہاں وباء پھیلی ہو وہاں پرڈسپوزایبل ماسک کا استعمال بھی فائدہ
مند ہے۔
چھینکتے یا کھانستے وقت کسی رومال یا ٹشو پیپر کو استعمال کریں اور استعمال
کے فورا بعد اسے ضائع کر دیں اور ہاتھوں کو فورا ً لیکویڈصابن سے دھو
لیں۔اگر آپ گھر سے باہر ہیں اور صابن سے ہاتھ نہیں دھو پائے ہیں تو اس
دوران خصوصا ًاور ویسے بھی اپنے منہ، آنکھوں اور ناک کو ہاتھ یا انگلیاں
لگانے سے پرہیز کریں کیونکہ ان جگہوں سے وائرس کے جسم میں داخلے کا امکان
زیادہ ہے-
پاکستان میں جدید وبائی امراض سے نپٹنے کیلئے کوئی موثرسسٹم موجود نہیں اور
اس سلسلے میں خالی بیانات داغے جا رہے ہیں جوانتہائی تشویش کا باعث ہے۔
وائرل ڈیزیزز کے حوالے سے صحت سے متعلقہ وفاقی اداروں کو ہنگامی بنیادوں
پرفوری وعملی اقدامات کرنے چاہئیں۔حکومت کے علاوہ ہماری تھوڑی سے توجہ اور
پرہیز سے اس وبائی مرض سے بچا جاسکتا ہے۔ |