22 جنوری 2009 ء ،سوات کے علاقے مینگورہ
میں پیش امام سمیت دو افردا کو اغوا کے بعد بہیمانہ طریقے سے قتل اور سوات
کے ایک اسکول کو بھی تباہ کردیا گیا ۔ اس وقت اسکولوں کو تباہ کرنے کی
تعداد 187ہوگئی تھی، جبکہ 400سے زاید اسکولوں کو صرف سوات میں نقسان
پہنچایا گیا ۔پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں وسطی کرم کے علاقوں
منڈان اور کنڈالی بابا میں شدت پسندوں نے دو اسکولوں کو آگ لگا دی گئی
قبائلی انتظامیہ کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں کے دوران کرم ایجنسی میں 60سے
زائد سرکاری اسکولوں کو نقصان پہنچایا جاچکا ہے۔ اہم بات یہ تھی کہ اسکولوں
کو نظر آتش کرنیکا واقعہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردانہ حملے کے
دو ہفتوں بعد پیش آی۔ اس وقت کے افغانستان طالبان کے امیر کے ترجمان ذبیح
اﷲ مجاہد کا ایک بیان سامنے آیا تھا کہ طالبان ( افغانستان) تعلیم و تربیت
کی اہمیت کو جانتے ہیں اور وہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ علم کے
حصول کو ہی سمجھتے ہیں ،ملا عمر مرحوم نے اپنے پشتو بیان میں مزید کہا کہ
طالبان کبھی افغان عوام کیلئے بنائے گئے تعلیمی اداروں ، ہسپتالوں اور
عوامی مقامات کو بموں سے اڑانے کا تصور نہیں کرسکتے ہیں ایسا کرنے والوں کا
طالبان سے کوئی تعلق نہیں، بموں سے اڑانے والے افغانوں کے دشمن ہیں یا پھر
دشمنوں کے ایجنٹ ہیں جو طالبان کو بد نام اور افغانستان کو بد نام کررہے
ہیں۔ جبکہ 19نومبر2011کو تحریک طالبان کے ترجمان احسان اﷲ احسان کا بیان
سامنے آیا تھاکہ طالبان کبھی بھی لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں رہے اور
طالبان صرف سیکولر اور مغربی تعلیم کے مخالف ہیں میں ساری توجہ بقول ان کے
دنیاوی تعلیم پر دی جاتی ہے۔ اے پی ایس کا واقعہ ایک قیامت بن کر گذرا ،
پھر گذشتہ دنوں ایک اور مادر علمی باچا خان یونیورسٹی کو خون میں نہلا دیا
گیا ۔ اس سانحے کے تانے بانے پڑوسی مما لک سے جا ملتے ہیں ، لیکن بات صرف
خیبر پختونخوا اور افغانستان یا قبائلی علاقوں تک نہیں بلکہ کراچی میں بھی
ایسے عناصر موجود ہیں جو اپنے مقاصد کے لئے تعلیمی اداروں کے ساتھ کچھ بھی
کرنے کو تیا ر ہیں اور ان کے مذموم مقاصد کو روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔تعلیم
کی ضرورت سے کسی بھی قوم کو انکار نہیں لیکن دہشت گردی کیلئے تعلیمی اداروں
کا استعمال کرنا اب دو صورتوں میں کیا جا رہا ہے ، جس کی پہلی صورت یہ ہے
کہ ایسے نوجوانوں کی ذہن سازی کی جا رہی ہے جنھیں یا تو دولت کا لالچ دیا
گیا ہو یا پھر فرقہ واریت کا زہر اس کے دل و دماغ میں بھر دیا گیا ہو۔باچا
خان یونیورسٹی پر حملہ ایک چھوٹا حملہ نہیں تھا جس سے ہم صرف نظر کر جائیں
آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور با چا
خان یونیورسٹی میں ان طلبا کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جو دہشت گردی
کے سانحات دیکھ دیکھ کر خون کے آنسو روتی رہی ہے اور ان کا عزم یہ رہا کہ
وہ معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کریں گے ۔ لیکن یہاں ہم ملک دشمن عناصر
کی سازشوں اور دہمکیوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔یقینی طور پر بھارت انتہا
پسند حکومت جس طرح پاکستان کے داخلی معاملات میں بلوچستان سے لیکر کراچی ،
سندھ اور خیبر پختونخوا میں اور خاص طور پر قبائلی علاقے جات میں اپنی
مذموم سازشیں کر رہی ہے یہ اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن تعلیم کے
اداروں پر دہشت گردیاں قابل مذمت ہیں۔سانحہ باچا خان یونیورسٹی میں ایسے
ناقابل تردید ثبوت حساس اداروں کو مل چکے ہیں جس بنا پر وزیر اعظم میاں
نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے افغان حکومت کو واضح
شواہد کے ساتھ باور کرایا کہ سانحہ باچا خان یونیورسٹی کیلئے افغان سرز مین
استعمال کی گئی۔افغانستان سے تعاون مانگا گیا ہے لیکن ماضی میں ہم دیکھ چکے
ہیں کہ مولانا فضل اﷲ سے لیکر جنوبی و شمالی وزیرستان ، خبیر ون اور ٹو میں
پاکستانی فوج کی جانب سے آپریشن میں افغانستان نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا
، افغانستان الٹا پاکستان پر ہی الزام تراشیاں کرتا نظر آیا۔بھارت نے ہمیشہ
نازک مواقع سے فائدہ اٹھانے کی روایت جاری رکھی ہے پاکستان کی جانب سے
ہمیشہ کی طرح ہر قسم کے تعاون کے باوجود بھارت کا لب و لہجہ تبدیل نہیں ہوا
اور اس نے ممبئی حملوں کے بعد پٹھان کوٹ حملے میں بھی پاکستان کو عالمی
برادری میں تنہا کرنے کی کوششوں کو جاری رکھا ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ
باقاعدہ جنگ کی دہمکی دے ڈالی ، اس سے قبل بھی بھارتی انتہا پسند وزرا ء کی
جانب سے متشدد اور اشتعال انگیز بیانات خطے میں صورتحاک کو کشیدہ بناتے رہے
ہیں لیکن بارک اوبامہ کی جانب سے پاکستان کو کئی دہائیوں تک دہشت گردی کے
عفریت سے باہر نہ نکلنے کے خطاب نے بھارت اور پاکستان دشمن عناصر کیلئے
موقع فراہم کردیا ، یہاں ہم اس بات کو بھی نہیں بھول سکتے کہ ایک عالمی
سازش کے تحت اقتصادی راہدری کو متنازعہ بنانے کیلئے جہاں ہماری سیاسی
اپوزیشن جماعتوں نے زور لگایا ہوا ہے وہاں عسکری ونگ ، کوئٹہ ، پشاور اور
دہشت گردی کے باچا خان یونیورسٹی جیسے واقعات کے ذریعے پاکستان میں معاشی
ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرکے صوبائیت کو ہوا دے رہا ہے۔ہمیں اس بات
کو سمجھنا ہوگا کہ ماضی کی خارجہ پالیسیوں کے سبب پاکستان کے دوست کم
اوردشمن زیادہ ہیں، خاص طور پر عرب، ایران تنازعے کے بعد پاکستان نے جب
ثالثی کا راستہ اختیار کیا تو یقینی طور ایسی قوتیں خوش نظر نہیں آئیں گی
جو اسلامی دنیا میں جنگ عظیم دیکھنا چاہتی ہیں اور مسلم امہ کو باہمی اتفاق
و اتحاد کے ساتھ فرقہ واریت ، لسانیت اور صوبائیت سے بالاتر ہوکر مقابلہ
کرنا ہوگا۔ |