انتظار حسین -- وہ میرے غائبانہ استاد محترم تھے

آہ! انتظار حسین اب ہم میں نہ رہے

محترم انتظار حسین آپ سب کے لئے کیا تھے --- مجھے علم نہیں -

لیکن میرے تو وہ غائبانہ محترم استاد تھے اور رہیں گے -

ان کے کالم “لاہور نامہ “ کی چھتری تلے جا کر میں اپنی اردو صحیح کرتا تھا -ان کا انداز سیکھتا تھا - اردو کے کلاسیکل انداز سے کیسے مزاح کا اسلوب تشکیل دیا جائے سے آگاہی حاصل کرتا تھا -

میرے پاس ان کے دو سو تین سو کالم تراشوں کی صورت میں تھے - بیس تیس صفحات جو میں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں ایسے ہیں جن میں انکے کالم کے فقرے نوٹ کئے ہوئے ہیں - انتظار حسین کے یہ فقرے جو میں نے نوٹ کئے ہیں پاکستان کی ایک تاریخ بھی ایک شگفتہ انداز میں سناتے ہیں -

سال 1974 --لاہور - ١نجینئرنگ کا آخری پیپر دے دیا --پریکٹیکل بھی سارے ہوگئے - پراجیکٹ کا دلدر بھی ختم ہو چکا تھا - سو ساری موٹی موٹی کتابیں -- مختلف مضامیں کے نوٹس -- پراجیکٹ یعنی تھیسس جو آگے شروع کے ایام میں انٹرویو میں کام آنا تھا اور دیگر سامان سب ایک بکسے میں بند کیا- ہوسٹل سے کوئٹہ کے لئے روانگی کا وقت ہے - صندوق کو تالا لگانے سے قبل دوبارہ سامان کا جائزہ لیا - یہ جائزہ انتظار حسین کے روزنامہ “مشرق“ لاہور میں چھپے ہوئے کالموں کے تراشوں کے لئے تھا جو میں انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران جمع کرتا رہا تھا - انجینئرنگ کی کتب نے مستقبل کے کیریئر اور نوکری میں میری مدد کر نی تھی اور ان کالموں کے تراشوں سے اپنے لکھنے لکھانے کے شوق کی تکمیل کر نی تھی - یہ تھا میرا اثاثہ - ان دونوں قسم کے اثاثوں نے میرا خوب ساتھ دیا -

سال 2010 - نوکری سے ریٹئر منٹ - پروفیشن کی کتابیں جن میں تین گنا اضافہ ہو چکا تھا سے الوداعی ملاقات کی اور بذریعہ فیس بک مختلف لائبریریوں ‘ کارخانوں میں کام کر نے والے انجینئرز کے حوالے کیں
لیکن انتظار حسین کے کالم اب بھی نوٹس کی صورت میں محفوظ ہیں
سال 2016- ان کالموں کے خالق اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے

بہاریں آئیں گی لیکن سخن واران ادب
کبھی نہ آئے گا اب انتظار کا موسم ------- اطہر عباسی

ان کے کئی انٹرویو جو انہوں نے ٹی وی پر دئے تھے میں نے نوٹ کر لیتا تھا کہ اس میں وہ پاکستان ہندوستان کے اقدار کے اندر جو بدلاؤ آرہے ہیں کا تفصیلی تجزیہ کرتے اور نئی نسل کو اس کی روشنی میں زندگی گذارنے کے اصولوں پر چلنے کے لئے رہنمائی کرتے تھے

اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اپنے افسانوں پر مجھے فخر ہے - جو کچھ بھی ہوں -- چھوٹا یا بڑا اسی حوالے سے ہوں -- ناول لکھا - یادیں قلم بند کیں - کالم نگاری تو محض پیشے کا معاملہ ہے اسے افسانے کے مقابلے میں نہیں لاؤں گا - انہیں اپنا افسانہ “زرد کتا“ کافی پسند تھا - ٹی وی انٹرویو میں اسی سے اقتباس سنائے
“یہ کب ہوتا ہے کہ سب دانش مند بن جاتے ہیں“
“جب عالم اپنا علم چھپانے لگتے ہیں “
“عالم اپنا علم کب چھپاتے ہیں “
“جب جاہل عالم قرار پاتے ہیں اور عالم کو جاہل کہا جانے لگتا ہے “

آہ اب وہ رہنمائی کر نے والی زبان اب ہم سے رخصت ہو گئی - اب میرا کوئی استاد نہ رہا - بقول طارق ہاشمی (ڈیلاس امریکہ )

کٹ گئیں انتظار کی گھڑیاں
اب کسی کا انتظار نہیں -
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355039 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More