اداکار محمد رفیع

کوٹلا سلطان سنگھ پنجاب کا ایک معصوم شرمیلا لڑکا جس کو لوگ ’ پھیکو ‘ (Pheeku) کے نام سے پکارتے تھے، ایک فقیر سے متاثر ہوکر گلوکاری کی دنیا میں آیااور اپنی زندگی کے صرف ۵۵ سال جیا مگر ہندوستانی کلاسیکی، گیت، غزل، گلوکاری، قوالی، ٹھمری، بھجن، ویسٹرن میوزک میں اپنا جوہر منوایا اور بھارت کی ۱۵ زبانیں ہندی، اسومی، کونکنی، بھوجپوری، اوڑیہ، پنجابی، بنگالی، مراٹھی، سندھی، کنڑ، گجراتی، تیلگو، مگاہی، میتھلی اور اردو میں گیت گائے اور گلوکاری کی۔ علاوہ اس کے عربی، فارسی، انگریزی، کریولے اور ڈچ زبانوں میں بھی گیت گائے۔ یہی شرمیلا اور مسکراتا چہرہ محمد رفیع کے نام سے شہرہ آفاق ہوا۔

بالی وڈ کی گلوکاری دنیا کے بے تاج بادشاہ، خوش الحانی کے شاہزادے جو آسماں سے بے انتہا صلاحتیں پائے تھے، کسی تعریف کے مہتاج نہیں۔ ہاں مگر بالی وڈ اور بالی وڈ کے اداکاروں کو محمد رفیع کی گلوکاری کا مہتاج تو نہیں بلکہ منتظر ضرور دیکھا گیا۔ محمد رفیع کے گیت فلموں کے کامیاب ہونے اور اداکاروں کے ہٹ ہونے کی ضمانت ہوا کرتے تھے۔

رفیع صاحب کی شہرت آپ کے ہم عصر اور موسیقی کار نوشاد صاحب کے اس کلام سے روشناس ہوتی ہے۔ بقول نوشاد صاحب؛
؂
تجھے نغموں کی جاں اہل نظر یوں ہی نہیں کہتے
تیرے گیتوں کو دل کا ہمسفر یوں ہی نہیں کہتے
دکھی تھے لاکھ ، پھر بھی مطمیں تھے درد کے مارے
تیری آواز کی شبنم سے دھل جاتے تھے غم سارے
تیری تانوں میں حسنِ زندگی لیتا تھا انگڑائی
تجھے اﷲ نے بخشا تھا اندازِ مسیحائی
تو ہی تھا پیار کا اک ساز ، اس نفرت کی دنیا میں
غنیمت تھی تیری آواز اس نفرت کی دنیا میں

٭ رفیع صاحب سِلوَر سکرین پر؛

ویسے بالی وڈ کی تاریخ میں دیکھا گیا کہ گلوکاروں نے اداکاری بھی کی اور اداکاروں نے گلوکاری بھی۔ اور اس سلسلے کی شروعات کرنے والوں میں اولاً کندن لال سہگل اور رفیع صاحب کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ویسے کندن لال سہگل کو دنیا گلوکار اور اداکار کے روپ میں جانتی پہچانتی ہے۔ مگر رفیع صاحب کے چاہنے والے اس بات کو کم جانتے ہیں کہ انہوں نے گلوکاری ہی نہیں بلکہ فلموں میں اداکاری بھی کی ہے۔ اس بات پر روشنی ڈالیں تو ذیل کے تاریخی اوراق ابھر کر سامنے آتے ہیں۔

٭ ۱۹۴۵ میں نظیر کی فلم لیلیٰ مجنوں بنی، جس کے موسیقی کار رفیق غزنوی اور گووندرام تھے۔ اس فلم میں محمد رفیع نے گیت گائے ، جس کے ایک گیت میں ایک داڑھی والے کی شکل میں گیت گاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ گیت تھا ’ تیرا جلوہ جس نے دیکھا وہ دیوانہ ہوگیا‘۔
٭ سال ۱۹۴۷ میں فلم جگنو بنی۔جس کے ہدات کار سید شوکت حسین رضوی تھے۔ اہم اداکار دلیپ کمار اور نورجہاں رہے۔ اس فلم میں رفیع صاحب نے دلیپ کمار کے دوستوں میں سے ایک کالج بوائے کے رول میں اداکاری بھی کی اور گلوکاری بھی۔
اس فلم کی شروعات اس شعر سے ہوتی ہے؛
؂
شاہ مرداں شیر یزداں قوتِ پرور دگار لا فتح الّا علی لا سیف الا ذولفقار
اس فلم میں رفیع صاحب نے ذیل کے دو گیت بھی گائے۔
(۱) یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے:۔ یہ گیت دلیپ کمار پر فلمایا گیا۔
(۲) وہ اپنی یاد دلانے کو اک عید کی دنیا چھوڑ گئے:۔ یہ گیت کالج کے دوستوں پر فلمایا گیا، جس میں خود رفیع صاحب نے ایک کردار ادا کیا اور اپنی آواز بھی پیش کی ۔

ان گیتوں کے گیت کار اصغر سرحدی اور موسیقی کار فیروز نظامی تھے۔

رفیع صاحب خوبرو بھی تھے، اور مسکراتا ہوا چہرہ بھی پائے تھے۔ فلموں میں کام کرنا شروع کرتے تو اس میدان میں بھی کامیاب ہوسکتے تھے۔ مگر ان کی دلچسپی گلوکاری سے تھی اور اسی میدان کو اپنایا۔
Ahmed Nisar Syed
About the Author: Ahmed Nisar Syed Read More Articles by Ahmed Nisar Syed: 27 Articles with 46764 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.