مسئلہ کشمیر اور عالمی طاقتیں

 بھارت کے جابرانہ، سراسر نا جائز تسلط سے لاکھوں کشمیریوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔کشمیری اپنے گھر میں بے گھری کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ جبکہ پاکستان روز اول سے ہی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیتا آیا ہے۔ہم کشمیری بھائیوں کے ساتھ تھے، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ مسئلہ کشمیر کا حل وہ نہیں جو بھارت چاہتا ہے ، اس مسئلے کا حل وہی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردوں میں موجود ہے۔ جبکہ حقیقتاً مسئلہ کشمیر ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل وجہ نزاع ہے، اس لئے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا، دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری، اور خطے میں پائیدار امن کے قیام ممکن نظر نہیں آتا۔ اس دیرینہ مسئلہ کے حل کے لئے ماضی قریب و بعید میں جب بھی پاک بھارت مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ یا سیاسی سطح کا کوئی بیان مذاکرات کے درمیان رخنہ ڈال دیتا ہے۔

امریکہ نے کئی بار مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہوگا، امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جاری تنازعہ کشمیر علاقائی اور عالمی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث ہے، یواین سیکرٹری جنرل بانکی مون بھی اسی تنازعہ پر تشویش کا اظہار کرکے اسکے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کرچکے ہیں۔ اسی طرح برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی کشمیر ایشو پر ہی دونوں ممالک کے مابین جاری سرحدی کشیدگی پر تشویش ظاہر کرچکے ہیں اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ بھی اپنی قرارداد کے ذریعے پاکستان اور بھارت پر مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دے چکی ہے۔ عالمی رہنماؤں کو تنازعہ کشمیر کرنے کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔

اگر بھارت نے اپنی دیرینہ ڈھٹائی کو برقرار رکھتے ہوئے کشمیر پر بزور اپنا تسلط جمانے کی بدنیتی کے کھلم کھلا اظہار کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تو اسکے یہ عزائم علاقائی اور عالمی سلامتی کیلئے خطرات بڑھانے والے ہی ہیں۔ اگر ان عزائم کو بھانپ کر بھی امریکہ اور علاقائی و عالمی سلامتی کو لاحق خطرہ محسوس کرنیوالے دیگر ممالک بھارت ہی کیساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدے اور جدید ایٹمی اسلحہ کی فراہمی میں اسکی سرپرستی کررہے ہیں تو اسکے جنگی جنون میں اضافہ کرکے وہ اسکے ہاتھوں امن و سلامتی کیلئے خطرات خود ہی بڑھا رہے ہیں۔ بلاشبہ مسئلہ کشمیر ہی پاکستان بھارت کشیدگی کی بنیادی جڑ ہے ، اس کے باوجود جب بھی پاک بھارت مذاکرات کا آغاز ہوا بھارت نے پیشگی شرائط عائد کرکے دوطرفہ مذاکرات کی راہیں مسدود کی ہیں۔ بھارت کی حکمت عملی ہے کہ کسی بھی محاذ پر پاکستان کو چین سے نہ بیٹھنے دیا جائے چنانچہ مودی سرکار پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور ساتھ ہی ساتھ اپنی جنگی جنونی تیاریوں میں بھی مصروف ہے جبکہ وہ اپنے تربیت یافتہ دہشتگردوں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشتگردی کو پھیلانے کی سازشوں میں بھی مصروف عمل ہے۔ پاکستان توڑنے کی مکتی باہنی کی تحریک میں خود حصہ لینے کا اعتراف کرکے بھی مودی اپنی پاکستان دشمن سوچ اور آئندہ کے عزائم آشکار کرچکے ہیں۔ امریکہ اور دوسری عالمی قیادتیں بھارتی جنونیت سے آگاہ ہونے کے باوجود بھارت کیساتھ جنگی‘ دفاعی تعاون اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے معاہدے کر رہی ہیں تو اس سے بڑی منافقت اور دہرا معیار اور کیا ہو سکتا ہے۔ انہیں تو بھارت کی مودی سرکار کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی سلامتی کو لاحق خطرات بھانپ کر بھارت کے جنونی ہاتھ روکنے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے چہ جائیکہ اسے ہر قسم کے جدید اور روایتی اسلحہ سے لیس کرکے اسکی جنگی جنونیت بڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔

اگر عالمی قیادتوں کو فی الواقع علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق خطرات پر تشویش ہے تو وہ بھارتی جنونی ہاتھ روک کر اور یواین قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کراکے ہی ان خطرات کو ٹال سکتے ہیں۔ یہ عجیب صورتحال ہے کہ امریکہ کو پاکستان اور بھارت کے مابین جاری دیرینہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے علاقائی اور عالمی امن کو لاحق ہونیوالے خطرات پر بھی تشویش ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف وہ بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دے کر اسکے ساتھ سول ایٹمی تعاون کے معاہدے بھی کررہا ہے اور اسکے ساتھ جدید ترین اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی اور تیاری کے معاہدوں میں بھی خود کو باندھ رہا ہے۔ بھارت کیساتھ امریکی سول نیوکلیئر تعاون کا معاہدہ امتیازی پالیسی کا غماز ہے جبکہ بھارت نے برطانیہ اور آسٹریلیا کیساتھ بھی ایٹمی تعاون کے معاہدے کررکھے ہیں۔ یہ صورتحال بھارت کو مزید بدمست بنا کر اسکے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کی تباہی کی نوبت لانے کی غمازی کررہی ہے ۔ عالمی برادری کوچاہیے کہ جنوبی ایشیاء میں ایٹمی امتیازی پالیسیاں رواء نہ رکھی جائیں کیونکہ ان پالیسیوں کی بدولت خطہ کے سٹرٹیجک استحکام پر مضر اثرات مرتب ہونگے۔ دو نوں ملکوں کے مابین تعلقات معمول پر لانے اور بر صغیر میں امن واستحکام کے قیام کی خاطر مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جانا از حد ضروری ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے پرامن طور پر حل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالے، اور بھارت کو مسئلہ کشمیر پر پاکستان سے مذاکرات بامقصد بنانے کا پابند کرے، کیونکہ مسئلہ کشمیر کا حل ہی وسط ایشیائی ممالک میں پائیدار امن واتفاق کا ضامن ہے ۔
Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 816285 views Journalist and Columnist.. View More