باچا خان یو نیورسٹی چارسدہ۔ایک حیران کن حقیقت

 یہ ٹوٹی پھو ٹی ، جانوروں کے گوبر سے معطر سڑک کہاں جا رہی ہے؟ یہ تو ختم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے، کسی سے پو چھ لو، باچا خان یو نیورسٹی کسی بڑے سڑک پر ہوگی‘‘ یہ تھے وہ سوالات جو میں نے اپنے دوست خالد ایوب سے اسوقت پو چھے جب میں ان کے ساتھ ان کے مرسیڈیز میں اگلی سیٹ پر بیٹھا باچا خان یو نیورسٹی دیکھنے، زخمی طلباء اوران کے لواحقین سے اظہارِ ہمدردی کے لئے جا رہا تھا۔

بلا شک و شبہ دوسرے پختون بھا ئیوں کی طرح اس یو نیو رسٹی پر دہشت گردوں کے سفاکانہ حملے اور اس بزدلانہ حملے سے دل خون کے آنسو رو رہا تھا، ہم سب بے حد غمزدہ و پریشاں تھے۔شہید ہونے والے طلباء ،اساتذہ اور ملازمین کے لواحقین پر کیا گزر رہی ہو گی۔

ان بچوں کے ماں باپ پر کیا گزری ہو گی ،جنہوں نے اپنے بچوں سے متعلق سہانے سپنے دیکھے تھے اور بڑی چاہت وپیار سے تعلیم حاصل کرنے یو نیو رسٹی بھیجا ہو گا۔یقینا ہم یہی سوچ کر بہت افسردہ تھے۔

لیکن اس یو نیورسٹی سے متعلق بعض باتیں جان کر ہمیں بڑی حیرانی ہو ئی۔مثلا یہ یو نیو رسٹی ایک بالکل ویران جگہ پر بنائی گئی ہیں ، یو نیورسٹی کی طرف جانے والی یکطرفہ سڑک اپنی ویرانی پر نو حہ خواں نظر آتی ہے۔ہم یو نیورسٹی پہنچے تو دیکھا کہ یو نیو رسٹی کے تین اطراف میں گنّے کی اونچی اونچی فصلیں ہیں۔اور کچھ اصلے پر اکاّ دکاّ چند گھر ہیں ۔یو نیورسٹی کے مین گیٹ سے تقریبا دو سو گز کے فاصلے پر دوچار دکانیں ہیں۔ الغرض یو نیورسٹی کا حدودِ اربعہ دیکھ کر حیرانگی ہو رہی تھی اور ان با اختیار لوگوں کے عقل پر ماتم کرنے کو دل چا ہ رہاتھا جنہوں نے ایک ایسے ویران جگہ پر یو نیورسٹی بنائی ہے جہاں عام طور پر لوگ گائے بھینسوں کا کیٹل فارم بناتے ہیں۔یو نیورسٹی کے مین گیٹ پر بڑے نمایاں حروف میں باچا خان یو نیورسٹی کے الفاظ کندہ تھے۔ خان عبد الغفار خان جنہیں لوگ باچا خان کے نام سے یاد کرتے ہیں، یقینا اپنے وقت کے بہت بڑے پختون سیاسی لیڈر تھے ، اس کا فلسفہ و پیغام امن اور عدم تشدّد تھا، مگر سچی بات یہ ہے کہ ان کے جانشینوں نے اس یونیورسٹی کو با چا خان یو نیورسٹی کا نام دے کر باچا خان کے ساتھ انصاف نہیں برتا، ہمارے دوست خالد ایوب تو اچھے خاصے جذ باتی ہو گئے، کچھ شہداء کے خون سے لگی لپٹی معطر ہواوٗں کا اثر تھا، کچھ اس یو نیورسٹی کے ویرانے کا طیش تھا، لہذا گیٹ پر موجود لوگوں سے مخاطب ہو کر بول اٹھے کہ ہم اپنے بھا یؤں کے لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں آخرانتہا پسندی اور دہشت گردی کے مراکز صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے میں کیوں ہیں ؟اگر حکومت ہماری حفاظت نہیں کر سکتی تو ہم گاوٗں گاوٗں ، قریہ قریہ محبِ وطن، جرّی بہادر اور مخلص لوگوں پر مشتمل ایک ایسا جرگہ تشکیل کریں گے جو امن کے قیام اور پختونوں کے مسائل کے حل کے لئے جہاد کریں گے۔ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹر ویو دیتے ہو ئے اسی یو نیورسٹی کے ایک سٹوڈنٹ نے بتایا کہ شہر سے یو نیورسٹی بہت دور ہو نے کی وجہ سے ہمیں آنے جانے میں سخت مشکل درپیش آتی ہے، یو نیورسٹی کی اپنی ٹرانسپورٹ نہیں ہے، ایک اور ستوڈنت نے بتایا کہ اس یو نیورسٹی سے کسی اور یو نیورسٹی کو ما ئیگریشن بھی نہیں ہو سکتی، ایک اور سٹوڈنٹ نے فریا د کرتے ہو ئے کہا کہ یہاں کی فیس پشاور یو نیورسٹی سے بھی زیادہ ہیں ۔ایک اور سٹوڈنٹ نے دہائی دیتے ہو ئے کہا کہ اگر فیس نہ دی ہو تو ہمیں امتحانی ہال سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔بعض سٹوڈنٹس نے تو یہ انکشاف بھی کیا کہ یو نیورسٹی کبھی کسی ، کبھی کسی نام پر رقم بٹورنے کے کام پر لگی ہو ئی ہے۔جب ان سے سیکیو ریٹی انتظامات کے بارے میں پو چھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ سیکیو ریٹی نام کی چیز تو ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔یو نیورسٹی کے ایک اہم عہدیدار سے جب ہم نے یہ سوال کیا کہ اس یو نیورسٹی کے لئے اے این پی کے اسفند یار ولی خان نے کتنی رقم دی ہے ؟ تو اس کا جواب تھا۔ ’’ ایک ٹڈی پیسہ بھی اس نے نہیں دیا۔‘‘الغرض اس یو نیورسٹی کے متعلق جا ن کر ہمیں گونا گوں حیرت ہوئی۔البتہ حیرت اگر نہیں ہو ئی تو اس رپورٹ پر نہیں ہو ئی جو تحریر ہذا کے وقت اس یو نیورسٹی سے متعلق قائم کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ ہے جس میں وائس چانسلر کو ہٹانے کی سفارش کی گئی ہے۔سچ کیا ہے، حقیقت کیا ہے ؟ اس کے متعلق کوئی دعویٰ ہم نہیں کر سکتے مگر ہم ان لوگوں سے جو کسی ادارے کا نام ’’ باچا خان ‘‘ نام سے مو سوم کرتے ہیں وہ اس نام کی لاج بھی رکھا کریں اور اسے اس قابل بھی بنائیں کہ پو ری پختون قوم اس پر فخر بھی کر سکے۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315792 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More