خطہ جنت نظیر وادی کشمیرکے مظلوم کشمیری
عوام گزشتہ سات دہائیوں کی تین نسلوں سے دنیا کی تاریخ میں اپنے خون سے
آزادی اور حق خودارادیت کی تحریک کو تسلسل سے ایک روشن صبح آزاد ی کے آغاز
کی اُمید پر جاری رکھے ہوئے ہیں یہاں تک کہ خطہ کشمیر کے چنار رنگ بھی
لاکھوں شہداء کے لہوسے نہ صرف سرخ ہوگئے ہیں بلکہ قابض سات لاکھ بھارتی
سکیورٹی فورسز اور افواج کی موجودگی میں اور نہتے کشمیریوں پر ظلم وبربریت
کا ہر گر آزمانے اورجنت نظیر وادی کشمیر کو اپنے غاصبانہ تسلط سے جہنم
بنانے کے باوجود کشمیریوں کے اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ حق خود دارادیت کے
حصول کی جدوجہد کے باوجودبھارت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کشمیریوں
کے دل نہیں جیت سکا۔ اور پاکستان میں آمرانہ نظام حکومت کے ادوار آنے کے
باوجود پاکستان ایک بڑے بھائی کے طور پر کشمیر ی عوام کے حق خودارادیت کے
حصول کی جدوجہد میں ان کے ساتھ سفارتی وسیاسی محاذ پر سیسہ پلائی ہوئی
دیوار کی مانند ساتھ کھڑاہے ۔ اور گزشتہ تین دہائیوں سے حکومت پاکستان اور
پاکستانی عوام کی طرف سے پانچ فروری کے دن کو کشمیری حریت پسند عوام کے
ساتھ یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جارہاہے۔ جسکا مقصدجہاں کشمیری عوام کے
حق خودارادیت کے حصول کے لیے تجدید عہدکرناہے وہاں بین الاقوامی طاقتوں اور
مہذب وجمہوری اقوام کی توجہ بھی مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج اور
سکیورٹی فورسز کی طرف سے 68سال سے جاری ظلم وبربریت اور انسانی حقوق کی
سنگین ترین خلاف ورزیوں پر مبذول بھی کراناہے ۔تاکہ جمہوریت پسندی
اورسیکولرازم ہونے کے دعویداروں کے چہروں سے نقاب اتر سکے اور وہ کشمیر
عوام کو اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق جنھیں بھارتی سرکار نے اس بین
الاقوامی ادارے میں تسلیم کرنے کے باوجود اپنی روائتی ہٹ دھرمی اور
متعصبانہ رویہ برصغیر کی تقسیم کے بعد سے اب تک اپنا رکھاہے ۔ حالانکہ پاک
بھارت اس خطے کی ایسی دو ہمسایہ ممالک کی ایٹمی طاقتیں ہیں جو مسئلہ کشمیر
کے پرامن حل کے لیے نہ صرف جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کے قیام کی ضمانت
فراہم کر سکتی ہیں بلکہ دونوں ممالک اس بنیادی تنازعہ کو اقوام متحدہ کی
مسلمہ قرار دادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کا پیدائشی حق حق خودار ادیت
دے کر دونوں ممالک کے عوام کو امن وخوشحالی کی راہ پر گامزان کرکے دنیا کی
ترقی کی دوڑ میں شامل کرسکتے ہیں ۔ وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے ماضی کی
طرح پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کاسرکاری سطح پر نہ
صرف اعلان کو دہرایاہے بلکہ عام تعطیل کابھی اعلان کیا ہے اور پاکستان
وآزادکشمیر کو ملانے والے تمام پلوں پر پاکستانی عوام کی طرف سے آزادکشمیر
کے عوام کے ساتھ باہم مل کر مقبوضہ کشمیر کے مظلوم ومحکوم عوام کے ساتھ
بھرپور یکجہتی کے اظہار کے لیے پروگرام بھی تجدید عہد کے لیے تشکیل دینے کی
ہدائیات دی ہیں اور حکومتی سطح پر حکومت پاکستان کی مسئلہ کشمیر پر خارجہ
پالیسی کے تحت کشمیری عوام سمیت بین الاقوامی دنیا کو یہ پیغام دینے کی سعی
کی ہے کہ پاکستان کے عوام ہر حال میں کشمیر ی عوام اور ان کے حق خودار ادیت
کے حصول کے جدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں اور حکومت پاکستان سمیت پاکستانی
عوام کسی صورت بھی کشمیریوں کے حقو ق سے دستبردار ہونے کی بجائے ہر سیاسی
وسفارتی محاذ پر کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد
بھارتی سرکار نے ملک کو سیکولر اسٹیٹ قرار دیکر یہ دعویٰ کیاتھاکہ ریاست کا
کوئی مذہب نہیں ہوگا مگر تقسیم ہندکے بعدسے اب تک وہاں اقلیتوں سے ہمیشہ ہی
متعصبانہ سلوک روا رکھاگیا، بھارتی نام نہاد سیکولرجماعت کانگریس کے دور
میں بابری مسجد کی شہادت کے ساتھ ساتھ آپریشن گولڈن ٹمپل کے نام پر سکھوں
کے مقدس مقام کی بھی پامالی کے علاوہ عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو بھی جلایا
جانا اس کی زندہ مثالیں ہیں جبکہ موجود وزیراعظم نریندرمودی نے تو انتخابی
مہم ہی ہندو تو اکا نعرہ لگا کر چلائی اور اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں
اقلیتوں کی زندگی جہنم سے بد تر کردی گئی اور مودی حکومت کے آغاز سے اب تک
اقلیتوں سے روارکھے جانے والے متعصبانہ سلوک پر تو دنیا بھر میں احتجاج
ہورہاہے یہاں تک کہ بھارت کو سڑیجک پارٹنر سمجھنے والے امریکہ کی طرف سے
اقلیتوں کے تحفظ میں ناکامی کے حوالے سے تشویش کااظہار کیا گیاہے جبکہ
بھارتی ریاست بہار میں واضح شکست کی صور ت سیاسی ’’خزاں ‘‘ کے سامنا سے منہ
پر ’’سیاسی کالخ ‘‘ملنے والے مودی کا بعدازاں پہلے دورہ برطانیہ میں بھی
’’منہ کالا ‘‘ ہوگیا جس باعث مود ی کی ٹین ڈاؤنگ سڑیٹ میں تاریخ ساز احتجاج
پر بیک (ڈور) سے جانا پڑا اور برطانوی پارلیمنٹ کے درودیوار پر احتجاجی
جملے بھی مودی کا’’منہ چڑاتے ‘‘رہے اسی طرح بھارت میں مودی حکومت کے دوران
اقلیتوں سے ناروا اور متعصبانہ اقدامات باعث خالصتاًن تحریک کے صدرنے بھی
مودی کو سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہاکہ وہ بھارت میں سکھوں ،
مسلمانوں اور عیسائیوں کا قاتل ہے۔ اسی طرح برطانیہ کے ایک اخبار نے مودی
سرکار کو ہندو طالبان کی حکمرانی قرار دیا اس کے برعکس پاکستا ن میں بانی
پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق آئین پاکستان میں درج
اقلیتوں کو مذہب ونسل کی تفریق کے بغیر تمام شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم
کیے جارہے ہیں اور وزیر اعظم نوازشریف نے ماضی قریب میں ہندوؤں کے ایک
مذہبی تہوار ’’دیوالی ‘‘میں شرکت کرکے کہاکہ تمام مذاہب کے لوگ یکجہتی اور
ہم آہنگی کو فروغ دیں اور یہ بھی اظہار فرمایاتھا کہ میں سکھوں ، پارسیوں ،
عیسائیوں سمیت پاکستان میں بسنے والے تمام عوام کاوزیراعظم ہوں۔ دفتر خارجہ
پاکستان کے ترجمان کے بقول امریکہ کایہ اصرار رہاہے کہ پاکستان اور بھارت
اپنے معاملات یعنی مسئلہ کشمیر سمیت باہمی تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کر
یں یہی وجہ ہے اس تناطر میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کے پیش
نظر ہی وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے پاک بھارت کشیدگی کو کم کرنے
اور باہمی مذاکرات کی بحالی کے لیے پیر س میں اپنی کامیاب سفارتی حکمت عملی
سے پاک بھارت وزرائے اعظم کو ایک بار پھر اکھٹا کر دیا اور دو ہمسایہ اٹیمی
طاقت ممالک کے دوبڑوں کی پیرس میں باہمی ملاقات ایک بار پھر جامع مذاکرات
کی بحالی کی نوید بن کر دنیا کے سامنے آگئی جس کا خیر مقدم اقوام متحدہ کے
سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی کیا۔ یہ اہم ملاقات ایک ایسے موڑ پر ہوئی
جب دونوں روائیتی حریف ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان تعلقات شدید کشیدگی کی
صورتحال سے دو چار تھے اور پاکستان پر بھارتی الزامات کی گولہ باری کاشکار
ہوکر بات چیت کے عمل سے تعطل باعث ایک دوسرے کی طر ف سے پہل کے لیے
محوانتظار تھے کہ پیرس کی ملاقات بارش کے پہلے قطرے کی مانند ثابت ہوئی اور
جامع مذاکرات کی بحالی کاباعث بن گئی اور اعتماد سازی کے فروغ کی ر اہیں
ہموار ہونا شروع ہوگئیں جس کے بعد بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اسلام آباد
میں منعقد ہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئیں اور پاک
بھارت وزرائے خارجہ ملاقاتوں کے بعد بحالی مذاکرات کامشترکہ اعلامیہ پوری
دنیا کی توجہ کامرکز بن گیا۔ اس کانفرنس میں بھارتی وزیرخارجہ نے بینکاک
میں پاک بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کی کامیاب ملاقات کی نوید سناتے ہوئے
12سال بعد بھارتی وزیراعظم کی پاکستان آمد کی خوشخبری بھی سنائی لیکن سارک
کانفرنس میں شرکت سے قبل ہی بھارتی وزیراعظم اچانک لاہور ائیرپورٹ پر پہنچ
گئے۔ اس سے قبل 2004ء میں بھارتی وزیراعظم واجپائی سارک کانفرنس میں اسلام
آباد آئے تھے یقینا پیرس سے شروع ہونیوالی دوہمسایہ ممالک کے بڑوں کی
ملاقات کے نتیجہ میں سشما سوراج کی اسلام آباد آمد اور پھر مودی سرکار کی
لاہور یاترا سے پاک بھارت جامع مذاکرات کی بحالی کے نئے دور کا آغاز جہاں
نوازشریف حکومت کی سفارتی وسیاسی محاذ پر دنیا کے سامنے ایک بڑی کامیابی ہے
وہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ جامع مذاکرات کی دوطرفہ میز پر مسئلہ
کشمیرکے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قرار داد وں کے مطابق کشمیری عوام کے حق
خود ارادیت کے حصول کے لیے مرحلہ وار آگے بڑھا جائے اور مقبوضہ کشمیر میں
جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ظلم و بربریت کے ماحول کے خاتمہ کے
ساتھ ساتھ اعتماد سازی کی بحالی کے لیے پاک بھارت کے درمیان مزید زمینی
راستے کھول کر کشمیریوں کی آزادانہ نقل و حمل کو زیادہ سے زیادہ سہل بنایا
جائے جبکہ دیگر باہمی تنازعات سیاچین ،سر کریک ،دولر بیراج ،بگلیہاررڈیم
سمیت اقتصادی و تجارتی تعاون کے ذرائع بڑھانے کے معاملات بھی آگے بڑھا کر
حل کیطرف آگے بڑھا جائے جبکہ بھارت سرکار بھی روائتی ہٹ دھرمی کی ضد اور
انا کے خول سے باہر نکل کر زمینی حقائق کے پیش نظر خطے کو ایٹمی جنگ کے خوف
سے نجات دلا کر خوشحالی اور امن سے ترقی کی شاہراہ پر لا کر عوام کو دنیا
سے مقابلے کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کر کے تاریخ
میں اپنا نام سنہری حروف میں درج کرانے کی سعی کریں ۔اس میں شک نہیں کہ
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے آنیوالی نسلوں کے مستقبل کو اقتصادی
طور پر مضبوط اور ملک کو ترقی وخوشحالی کی موٹر وے پرسبک رفتاری سے چلنے کے
لیے اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا ہے اور انہیں ملک کے
ہر مکتبہ فکر سے بھرپور اعتماد و حمایت بھی مل چکی ہے اور پاک فوج کے
جہاندیدہ جرنل راحیل شریف نے اس قومی منصوبے کی مکمل تائید و حمایت اور پاک
فوج کی مکمل آشیر باد اوربھرپور سیکورٹی کی فراہمی کے عزم کا اظہار بھی کیا
ہے لیکن یہ تمام کامیابیاں اسی صورت ثمر آور ہو سکتی ہیں جب وہ کشمیریوں کی
خواہشات اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیری عوام کے حق خود
ارادیت کے حصول کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں کامیاب ہو جاتے
ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں آسیہ اندرابی کے نام لکھے گئے خط کی روشنی میں وہ
یقینا کشمیری عوام اور حریت کانفرنس کے قائدین کی امنگوں کے مطابق ہی مسئلہ
کشمیر کے حل کو منطقی انجام تک ضرور پہنچا کر بقول حضرت قائداعظم پاکستان
کی شہ رگ کشمیر کو بھارتی غاصبانہ قبضہ سے نجات دلانے میں ضرور اپنا کلیدی
کردار ادا کرینگے تبھی جا کر 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر پر تجدید عہد کے
تقاضے بھی پورے ہونگے اور پاکستان بھی حقیقی معنوں میں نہ صرف مکمل ہو سکے
گا بلکہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کے قیام اور خطے میں امن، ترقی اور
خوشحالی کے نئے دور کے شروعات کی ضمانت بھی فراہم ہو سکے گی ۔ |