صحرائے تھر کے باسیوں سے عزیز بلوچ تک
(Shahzad Saleem Abbasi, )
سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے ،دو
دن سے مجھے چین نہیں آرہا ، ناشتہ سے پہلے دو دو گھنٹے بیٹھ کر فیس بک کا
سروے کرنے لگتا ہوں ۔ نیندیں اچاٹ ہیں ، مختلف الخیالات چیزیں ذہنی کشمکش
کا شکار ہیں ، فتنہ پرور دماغ شیطانی چالوں میں گم ہے ، احمقانہ رویوں پر
صف ِ ماتم کامن کررہا ہے ، متضاد رویوں سے میرے وچار بھی کچھ خلط ملط سے
ہونے لگے ہیں۔ دل کرتا ہے کہ سوشل میڈیا کے پنڈتوں کو ایسا کرنے سے روکو،
کبھی جی چاہتا ہے کہ انہیں کہوں ایسے خاکوں میں اٖضافہ کر دو، آرزؤں اور
تمناؤں کا سماجی جنازہ نکلتے دیکھ رہا ہوں۔ کھوٹے اور کھرے میں فرق مٹتا
دیکھ رہاں ہوں، کہیں کسی کو نوازنے کا واویلا ہے اور کہیں کسی سیاسی سپاہی
کی باز پرسی یا مزاج پرسی کا معاملہ۔۔ یہ آخر ہے کیا جو ہمارے معاشروں میں
بگھاڑ پیدا کر رہا ہے! ہمیں ، ہماروں عزیز و اقارب کو ہمارے بچوں سے دور کر
رہا ہے! ہمارے برسوں کے بیلی ہم سے بچھڑ کر داغِ مفارقت دے رہے ہیں! ہماری
علمی درسگاہیں ویران اور عملی میدان بنجر بنتے جا رہے ہیں! مسالک ومکاتب
دہشت گردی ، انتہا پسندی اور شدت پسندی کے کھیل میں مگن ہیں! ہمارے پرامن
آنگن اور پاک دامن کو آخر کس کی نظر لگ گئی ہے۔ ایک ہی بحث اور ایک ہی نعرہ
" راحیل شریف آئے دوبارہ"۔
عوام کہتی ہے کہ صحرائے تھر کے باسیوں کے رکھوالوں سے لیکر عزیر بلوچ اور
کراچی کی روشنیوں کو ماند کرنے والے سب کے سب مجرم ہیں انکا سوال یہ ہے کہ
مسلم لیگ (ن) نے عدنان ثنا ء اﷲ کو بچا یا ، پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر عاصم کو
اور ایم کیو ایم مختلف پارٹی رہنماؤں کو بچانے کے لیے کھڑی ہو جاتی ہے ۔
ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے ہوتے ہوئے بھی دہشگردوں کو سزائیں نہیں
مل رہیں، پنجاب اپنوں کو نوزانے کی ماہر،وفاق اندونی مسائل میں الجھی ہوئی
ہے ،سندھ میں دونوں جماعتیں اپنے اپنے سر تال ملا کر کبھی با جا بجانے کی
تو کبھی گٹار کی پریکٹس کر رہے ہیں، اندون سندھ میں پیپلز پارٹی کے سائیں
جی تو موجی ہیں جو من میں آیا کیا ،بولا اور سو گیا، پیپلزپارٹی ڈاکٹر عاصم
کے پیچھے ہے ، پہلے عزیر بلوچ کے پیچھے تھی اب رشتہ ناطہ ماننے سے انکاری
ہے۔ بیرونِ سندھ والے صولت مرزا کے انکاری ہو گئے تھے۔ مہرے استعما ل کرنے
کے لیے ہی تو ہوتے ہیں ۔جب مہروں نے ہی استعمال ہونا ہے تو جنرل راحیل شریف
کے حق میں صدا تو بلند ہو گی۔
سینٹر مشاہد حسین سید کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی برائے (سی پیک )نے
گزشتہ دنوں سندھ کا دورہ کیا جسمیں انہوں نے اندون اور بیرون سندھ کے
رہبروں و رہزنوں کو بھی آن بورڈ رکھا ، آخر میں مفلوق الحال تھر کے باسیوں
سے بھی ملنے گئے ،باسیوں سے ملاقات کے بجائے کمیٹی کے ممبران اور ایم این
ایزاکرم خان درانی ، الحاج شاہ جی گل آفریدی وغیرہ کیساتھ دو زانوں ہو کر
محفل موسیقی سننے بیٹھ گئے ۔ انہوں نے25 سال کے بعد دوبارہ کوئلے کے
پراجیکٹ کا جائزہ لیا اور کہا جب یہاں ڈیویلپمنٹ ہو گی تو یہاں کہ لوگ
چونکہ پسماندہ ہیں تو ان کے لیے جاب، صاف پانی کے ساتھ ساتھ بنیادی ضروریا
ت کا بھی خیال رکھا جائے گا ۔ جناب آصف زردازی صاحب صوبے میں حکومت ہونے کے
باجود پچھلے 25 سال میں ذاتی دلچسپی نہ ہونے کیوجہ سے کام نہ کر سکے تو
بھلا دوسرے صوبے سے آئے ہوئے مسلم لیگ (ق) کے اعزازی مستعار سینٹر کیسے کام
کر سکتا ہے !نشتن گفتن برخاستن ہو گا تو ملٹری شپ اور ملٹر یاایکسٹینشن کا
نعرہ تو لگے گا۔
بہرحال بات یہ ہے کہ صحرائے تھر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا صحرا ہے
پندرہ لاکھ سے زیادہ آبادی سمیٹے ، میل و میل پھیلے ریتلے میدان کہیں باہر
نہیں بلکہ ہمارے پیارے ملک پاکستان میں صوبہ سندھ کے ضلع میں ہیں ۔
تقریباََ ہندو علاقے والے اس ٹکڑے میں راجھستانی ، ہندی اور اردو بولی جاتی
ہے ۔ڈسٹرکٹ تھررپار کی چھ تحصیلیں مٹھی ،ڈپلو، اسلام کوٹ ، چھاچھرو، ڈاھلی
اور نگرپارکر ہیں ۔یہاں لوگوں کو صحت اور حفظان صحت جیسی بنیادی مسائل کا
سامنا ہے، بنیادی اسٹرکچر نہیں ہے ، بیماریاں اور وبائیں ہر سال پھوٹتی ہیں
مناسب پینے کا پانی میسر نہیں ہے اور پینے کے صاف پانی کی بات کرنا تو غیر
مناسب ہے۔ ہسپتال اور ڈسپنسریاں اور علاج معالجے کی سہولیات ناکافی ہیں اور
اگر کہیں ہیں بھی تو سفارشی کا علاج ممکن ہو پاتا ہے بچے کی پیدائش کے وقت
مختلف بیماریاں پھیلتی ہیں۔تعلیمی ادارے ایسے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ تھرپارکر
کے 2484گاؤں کے لیے 4150 آپریشنل سکولز ہیں جسمیں سے اکثر بوگس اور گھوسٹ
سکول ہیں ، انتظامیہ کے مطابق 60 فیصد آبادی سکولوں کو جاتی ہے ذرائع یہ
بتاتے ہیں کہ 20 سے 25 فیصدآبادی سکول جاتی ہے۔ فنڈ ز آتے ہیں لیکن خورد
برد ہو جاتے ہیں۔ یہ حالات ہونگے تو پھر کراچی سے آگے بھی دوسرے صوبوں میں
بھی ملٹری ایکسٹینشن تحریکیں زور پکڑتی جائیں گی۔
2012 میں چیف منسٹر قائم علی شاہ کا کیا گیا وعدہ کہ تھر پارکر میں دو
کالجز بنائیں گے وفا نہ ہو سکا۔ یہاں ہر سال سینکڑوں بچے چڑیا کے کمزور بچے
کی طرح تڑپ تڑپ کر نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں مقامی انتظامیہ اور ایم
ایز یا ایم پی ایز تو سائیں کی سیوا میں ہوتے ہیں۔یہاں مختلف زبانیں بولے
جانے کیساتھ ساتھ دیوالی ، ہولی اور عید بھی منائی جاتی ہے ۔ ویسے تو
بالعموم تھرپارکر کے باشندے مسلم اور ہندو ایک دوسرے کو بہت چاہتے ہیں اور
ایک دوسرے کے کلچر کو نہیں بلکہ انسانیت اور آدمیت کو اہمیت دیتے ہیں اسکی
واضح مثال تھر پاکر کی تحصیل مٹھی میں 80 فیصد ہندو جبکہ 20 فیصد مسلمان
آباد ہیں لیکن مٹھی اپنے نام کیطرح اپنے اندر ایسی مٹھاس سموئے ہوئے ہے کہ
وہاں ہندو مسلمانوں کے احترام میں روزہ رکھتے ہیں ، عید پہ مٹھائی لیکر
جاتے ہیں اور محرم الحرام کا احترام کرتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی ہندؤں کے
احترام میں گائے کا گوشت نہیں کھاتے ۔ ملٹری ایکسٹینشن سے بچنے کے لیے اور
مک مکا سیونگ کے لیے سائیں جی کو نیند سے بیدار ہو کر کچھ کرنا ہوگا۔
70 ء سال ہونے کو ہیں پر آج تک ہم انگریزوں کا دیا گیا "دہرا نظام تعلیم "
ہی نہیں ختم کر پائے، معیشت کے اعشاریوں میں حائل رکاوٹوں کا سراغ نہیں لگا
سکے، ہم نے کبھی پاکستان کو پاکستان نہیں سمجھا اگر سمجھا ہوتا تو اپنی
دولت نہ صحیح، قومی خزانے کی لوٹی ہوئی دولت تو پاکستانی خزانے میں جمع
کراتے۔ ہم نے اپنے کمیشن کے چکر میں کمپنیوں کو منافع بخش بنانے کے بجایے
منافع خوربنا دیا۔ہم نے اپنے اپنے ذہن کے مطابق اسلام کو انتہا پسند ،
انتہا پسند کو دہشت گرد اور لبرل اور روشن خیال کوامریکن ایجنٹ اور یہودی
لابی کاحصہ قراردیا۔
تھرپارکر کے اندر ہر سال کیطرح رواں سال بھی 167 بچے علاج اور غذائی قلت کے
باعث بلک بلک کر ماؤں کی سہاگ اجاڑ چکے ہیں۔ جناب نواز شریف صاحب آپکے
کھابوں ، خوشدلی اور کشادہ دلی کے چرچے ہر جگہ مشہور ہیں ۔آپ سے ہمدردانہ
اپیل ہے کہ آپ ذاتی و صوبائی تعصب سے بالا تر ہو کر ضلع تھر کے خادم بن
جائیں ،یا خادمِ پنجاب کو اس مہم " سند ھ جگاؤ ۔تھرپارکر بچاؤ"کا انچارج
بنائیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت یہاں کے لوگوں کو صاف پانی ، غذا اور
تعلیم دے دیں یقین جانیں اگلا الیکشن بھی آپکا ہے ، پاکستان کی عوام آپکو
حقیقی معنوں میں " مسیحا" سمجھیں گے اور سب سے بڑھ کے یہ بچے قیامت والے دن
آپ کی چاندی لگا دیں گے۔اگر ایسا ممکن نہیں ہو گا تو مجبوراََ لوگ ملٹری
ایکسٹینشن کی بات بھی کریں گے اور نیشنل ایکشن پلان بھی غیر شفاف نظر آئے
گا۔ |
|