افغانستان سمیت اس پورے خطے میں
بڑھتی ہوئی شدت پسندی کوختم اوربحالی امن کیلئے پاکستان کی قیادت میں قائم
چار ملکی گروپ کے مذاکرات کے دو دور ہوچکے ہیں اوراب ہفتے کے دن
تیسرادوراسلام آبادمیں ہواجس میں افغان امن مذاکرات میں روڈمیپ کوحتمی شکل
دی گئی ہے لیکن اب تک پیش رفت میں بظاہرسست روی نظرآرہی ہے کیونکہ طالبان
اورافغان حکومت اصل مقصد پربات چیت کی بجائے '' نٹی گرٹی'' یعنی چھوٹی
چھوٹی باتوں پر زیادہ توجہ اوروقت دے رہے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان کے
سفیر جانان موسیٰ زئی نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ ہمیں کسی
نتیجے پر چند ماہ میں پہنچنا ہوگا، ان کے پاس انتظار کے لیے زیادہ وقت نہیں
ہے کیونکہ طالبان کی موسم بہار کی تازہ یلغار کوئی زیادہ دور نہیں۔اسی قسم
کے تحفظات امریکی سفارت کار بھی رکھتے ہیں۔ انھیں بھی اب تک کی بات چیت اصل
مسائل سے دور دکھائی دے رہی ہے۔افغانستان میں پاکستان کے سفیرجانان موسیٰ
زئی نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہاتھاکہ ہمیں کسی نتیجے پر چندماہ میں
پہنچناہوگا ،ان کے پاس انتظار کے لیے زیادہ وقت نہیں ہے کیونکہ طالبان کی
موسم بہار کی تازہ یلغار کوئی زیادہ دور نہیں۔اسی قسم کے تحفظات امریکی
سفارت کاربھی رکھتے ہیں۔ انہیں بھی اب تک کی بات چیت اصل مسائل سے
دوردکھائی دے رہی ہے۔
ادھرافغان امن مذاکرات کی چاررکنی ممالک کی سٹیئرنگ کمیٹی کے منعقدحالیہ
اجلاس میں امریکانے ایک مرتبہ پھرافغان حکومت پردباؤبڑھادیاہےکہ مذاکرات
کونتیجہ خیز بنانے کیلئے وہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ فوری
طورپرمان کرہرحالت میں جنگ بندی کے معاہدے کویقینی بنائیں جس کیلئے افغان
حکومت اورطالبان نے اپنی اپنی تیاریاں شروع کردیں ہیں۔ امریکا چاہتا ہے
کہ۲۰۱۶ء کے اختتام تک اس کی افواج پرمزیدحملوں کاتدارک ہوسکے، اگرایسانہ
ہوسکاتودوماہ بعدموسم بہارشروع ہوتے ہی بڑے پیمانے پرحملوں کا شدید خطرہ ہے
کیونکہ گزشتہ موسم سرماکے برعکس اس موسم سرمامیں۴۸فیصدزیادہ حملے ریکارڈ
ہوئے ہیں اورابھی مزیدحملوں کاامکان بھی باقی ہے۔پہلی بارطالبان نے بگرام
میں بھی امریکی سیکورٹی فورسزکونشانہ بنایاہے جس کامطلب ہے کہ طالبان کی
جڑیں مضبوط ہوگئی ہیں جبکہ سی آئی اے کے اہلکاروں نے خدشہ ظاہرکیاہے کہ جنگ
بندی پر افغانستان میں امریکاکوان اڈوں کوجواعلانیہ طورپر قائم ہیں، خالی
کرناپڑے گاکیونکہ ان کی حفاظت موجود۹ہزارفوجیوں سے ممکن نہیں اور آئندہ سال
افغانستان میں پوست کی کاشت میں بھی اضافہ ممکن ہے کیونکہ حکومتی عملداری۱۳۵/اضلاع
میں مکمل طورپرختم ہوچکی ہے جبکہ طالبان ۱۲۵/اضلاع میں تیزی کے ساتھ پیش
قدمی کررہے ہیں،اس لیے پاکستان کی جانب سے امن کیلئے جوکوششیں شروع کی گئی
ہیں،وہ فوری طورپراس کامکمل فائدہ اٹھائیں ۔
امریکی حکام نے افغان حکومت کوبتایاہے کہ جنرل راحیل شریف کی انتھک کوششوں
کوقدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کی موجودگی کاپورا فائدہ اٹھایا
جائے کیونکہ اس وقت جنرل راحیل ضربِ عضب کی بے پناہ مصروفیت کے ساتھ
افغانستان اورعلاقے کے امن کیلئے جوکوششیں کررہے ہیں،اس سے پہلے خطے میں اس
کاتصوربھی نہیں تھالہنداافغان حکومت کوہرصورت میں جنرل راحیل کی امن کوششوں
کا مثبت جواب دیناضروری ہے۔
ادھرامریکی دباؤکے نتیجے میں افغان حکومت نے افغان خفیہ ایجنسی کے۸سے
زائدعہدیداروں کوفوری طور پرہٹاکرغیرمعروف مقامات پرتعینات کردیاہے جبکہ اس
حوالے سے افغان صدرڈاکٹراشرف غنی اورچیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ میں بھی
اتفاق رائے ہوگیاہے کہ امن کے سفرکیلئے مخلص ہوکرسازشی عناصرکی نشاندہی
کرکے ان کوفوری طورپرالگ کرنا بہت ضروری ہوگیاہے ۔ اس سلسلے میں افغان
حکومت کے نائب وزیرخارجہ خلیل کرزئی کی جانب سے ایک ڈرافٹ بھی
تیارکرلیاگیاہے جبکہ طالبان نے حقانی نیٹ ورک اوراپنی دیگر تنظیموں کو جس
میں فدائی محاذکے حاجی نجیب اللہ بھی شامل ہیں،کو تیاررہنے کاحکم دیا ہے
اوران کی طرف سے اپنے قیدیوں اوراپنے مطالبات کی فہرست طالبان کودینے کا
مطالبہ کیاہے۔
طالبان افغانستان سے امریکی انخلاء سمیت آئین کی تبدیلی اورطالبان رہنماؤں
کو پاسپورٹ جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کانام بلیک لسٹ سے خارج کرنے کے
مطالبات کے ڈرافٹ کی تیاری میں مصروف ہیں۔طالبان چاہتے ہیں کہ امریکاانہیں
واحدحتمی تاریخ دے،چاہے وہ۲۰۱۶ء کے آخریا۲۰۱۷ء کے اوائل ہی کی کیوں نہ ہو
لیکن انہیں ایک ایساٹائم ٹیبل یاتاریخ دی جائے کہ ایک سال کے اندراندر
افغانستان سے امریکی افواج اورتمام دیگرغیرملکیوں کاانخلاءمکمل ہوجائے گا۔
افغان آئین میں تبدیلی اوردیگرمشکلات کوبعدمیں دونوں فریق آپس میں مل کرحل
کرسکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق طالبان میں اس بات پراتفاق پایا جاتاہے کہ
وہ۲۰۱۱ ءسے قبل کی پوزیشن پرواپس نہیں جاسکتے،اس لئے طالبان کوایساحل پیش
کیا جائے جس میں افغانستان ایک فلاحی اوراسلامی ریاست کاتصورہو،افغان
روایات بھی قائم ہوں اوراس بات پراتفاق پایاجاتاہوکہ ان کانظام تعلیم،نظام
معیشت اور انتخابی نظام کیاہوگاجبکہ۴۰فیصدسے زائدصوبوں کے مکمل اختیارات
طالبان کے حوالے کئے جائیں،تاہم طالبان نے افغان قبائلی مشران کوبتادیاہے
کہ دیگر دھڑوں کوبھی مذاکرات میں شامل کیاجائے ۔
اس حوالے سے افغان حکومت نے پکتیاکے چندقبائلی مشران کوحزبِ اسلامی کےساتھ
مذاکرات کا ٹاسک دیاہے تاہم اس رپورٹ کی تکمیل تک ان کے درمیان کوئی
مذاکرات شروع نہیں ہوئے جبکہ حزبِ اسلامی کے ذرائع نے بتایاکہ وہ مذاکرات
کے خلاف نہیں تاہم ان کی شرط ہے کہ امریکاجب تک افغانستان میں ہے،وہ افغان
حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کرسکتے کیونکہ افغان حکومت بے اختیارہے۔
ادھرامریکاہرحال میں افغانستان میں امن معاہدہ چاہتاہے لیکن اس وقت اسے
شدید مشکلات کاسامناہے کیونکہ ایک طرف افغانستان کے اندربعض عناصرامن
مذاکرات کوسبوتاژکرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب سعودی عرب
اورایران تنازعے کے اثرات بھی افغانستان پرپڑسکتے ہیں کیونکہ ایران کے
زیراثر استادعطاء محمدنور، چیف ایگزیکٹوکے مشیراستادمحقق اورجنرل دوستم نہ
صرف طالبان اورافغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے خلاف ہیں بلکہ ان کی کوشش
ہے کہ ہرقیمت پران مذاکرات کوناکام اورسبوتاژکیاجائے۔
اگرایران اورسعودی عرب کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو دونوں ممالک کے حمایتی
بھی اپنے ہدف پرڈٹ جائیں گے،امریکا کوایک طرف پاکستان اوربھارت کے درمیان
کشیدگی سے پریشان ہے جبکہ پٹھانکوٹ اورمزارشریف اورچارسدہ یونیورسٹی میں
طلباء پرہونے والے حملوں نے بھی امریکیوں کوپریشان کر رکھا ہے۔دوسری جانب
ایران اورسعودی عرب کے تعلقات کے اثرات براہِ راست افغانستان اورشام کی
صورتحال پربھی پڑرہے ہیں، جس کی وجہ سے امریکاکی مشکلات میں مزیداضافہ ہو
سکتاہے جبکہ دوسری جانب روس بھی مسلسل رابطے بڑھا رہا ہے تاہم چین کی افغان
طالبان اورافغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی شمولیت کی وجہ سے روس ان
مذاکرات کی نہ صرف حمائت کررہا ہے بلکہ طالبان کے نام اقوام متحدہ کی بلیک
لسٹ سے خارج کرنے پربھی آمادہ ہے۔
پہلے اجلاس میں سرتاج عزیز نے مذاکرات کے لیے آمادہ اورغیر آمادہ گروپوں
کیلئے الگ الگ پالیسیاں تیارکرنے کی جوبات کی تھی، اس بات نے بھی سفارت
کاروں کومخمصے میں مبتلا کردیاتھا۔جولائی میں مری میں ہونے والے براۂ راست
مذاکرات میں توحقانی اوردیگر سب کی نمائندگی تھی لیکن اب طالبان کے دودھڑوں
میں تقسیم ہونے کے بعدکون بات چیت کے لیے تیار ہے اورکون نہیں،کچھ نہیں
کہاجا سکتاہے لیکن ملااخترمنصور کے گروپ کے تازہ بیان سے صورتحال قدرے واضح
ہوئی ہے کہ وہ اب بھی مذاکرات چاہتے ہیں۔ ان کے مخالف دھڑے کی خاموشی
شایدان کی مذاکرات میں عدم دلچسپی ظاہر کرتی ہے۔ بہرحال افغان طالبان کی
جانب سے مذاکرات کی مناسبت سے چند مثبت اشارے سامنے آئے ہیں۔
طالبان نے افغانستان میں غیرملکیوں سے متعلق امریکاسے براۂِ راست مذاکرات
کی خواہش کانہ صرف اظہارکیا ہے بلکہ مذاکرات کے لیے چند شرائط بھی سامنے
رکھی ہیں۔ان کی پہلی شرط سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی حکومت، جسے وہ آج بھی
جائزحکومت مانتے ہیں،کیلئےدفتر یاپھرعلاقے کامطالبہ کیاہے اور یہ شرط
موجودہ حالات میں شاید افغان حکومت کوقابل قبول بھی ہے ۔ دوسراوہ اقوام
متحدہ کی جانب سے سفر اوراثاثہ جات پرپابندیاں اٹھانے اورقیدیوں کی رہائی
کامطالبہ کیاہے۔ان شرائط کے بروقت سامنے آنے سے طالبان کی مذاکرات کے لیے
مشروط آمادگی شایدافغان حکومت کے ساتھ ان کے براۂِ راست مذاکرات کی جانب
مثبت قدم ہےلیکن کیاپاکستان،افغانستان اورچین ان کے امریکا سے براہ راست
مذاکرات پرخوش ہوں گے؟ |