’’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘۔۔۔۔۔؟

پی آئی اے کی محدود نجکاری کا معاملہ اب ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر گیا ہے اسکی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ بہت سے دوسرے معاملات کی طرح یہاں بھی ’’حکومت‘‘اپنا موقف پوری وضاحت کے ساتھ سامنے نہیں لا سکی ،کبھی تو اسے نجکاری کا نام دیا گیا اور پرائیوٹیائزیشن کمیشن ہی کرتا دھرتا نظر آیا ،پھر وزیر خزانہ اسھاق دار بھی سامنے ااگئے اور بتایا کہ یہ نجکاری نہیں ہے بلکہ پارٹنرشپ یعنی شراکت داری ہے ،اور وہ بھی صرف26فیصد حصص کی ،انہوں نے بتایا کہ 74فیصد حصص حکومت کے پاس رہیں گے اور وہی پی آئی اے کی مالک و مختار ہو گی ،26فیصد حصص اس لئے کسی پارٹنر کو دئیے جا رہے ہیں جو بہتر انداز سے نظم و نسق کے زریعے پی آئی اے کو خسارے سے نکال کر منافع بخش ادارہ بنا ئے۔۔۔۔اگر انصاف کی آنکھ سے دیکھا جائے تو پی آئی اے کی حالت واقعی نہایت افسوس ناک ہے کبھی پی آئے اے کا شمار دنیا کی صف اول کی ایئر لائنز میں ہوتا تھا اور اب پی آئی اے گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل خسارے میں ہے اس وقت اس کا320ارب روپے سے زاہد کے قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔جبکہ حکومتی ترجمان کا کہنا کہ روزانہ دس کروڑ روپے۔۔۔ سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک پی آئی اے کھا جاتا ہے اور یہ اب کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ یہ ادارہ گنجائش سے کہیں زیادہ ملازمین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ،یہ۔۔۔ ملازمین بھی میرٹ پر بھرتی نہیں ہوئے بلکہ سیاسی بنیادوں پر نوازا گیا یا پھر نوکریاں بیچی گئیں ۔۔۔۔۔شکایات کا ایک لمبا سلسلہ بھی ہے ملازمین کی نا اہلی،یونینز کی من مانی،عملے کی بد سلوکی ،ہر طرف پھیلی کرپشن اور لوٹ مار کا دوردورہ ہے ،ماننا پڑے گا کہ پیپلز پارٹی نے بہت سے دوسرے اداروں کی ظرح پی آئی اے کو بھی تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں اہم کردار کیا ہے ،تحقیق کی جائے تو پتہ چلے گا کہ تھوک کے بھاؤ نا اہل لوگوں کی بھرتیاں کس دور میں ہوئیں ۔۔۔آج پیپلز پارٹی کے لیڈر دھرنوں میں جا کر ہڑتالیوں سے یک جہتی کا اظہار کر رہے ہیں ،پی ٹی آئی بھی واویلا کر رہی ہے اور جس نے اپنے منشور میں پی آئی اے کی نجکاری کا وعدہ کر رکھا ہے ،سراج الحق صاحب بھی تو ہیاں تک کہہ گے کہ حکومت ہڑتالیوں سے معافی مانگے ۔۔۔۔کوئی ان بزرگان سے پوچھے کہ سالانہ تیس ارب روپے کہاں سے اائیں گے کہ پی آئی اے کا پیٹ بھر اجائے۔۔۔؟یہ پیسہ تو ٹیکس دہندگان کا ہے اسے ملک کی ترقی پر خرچ ہونا چائیے اور پھر معاملہ پی آئی اے کا نہیں ہے ایسے بے شمار سفید ہاتھی ہیں اور نجانے کب تک حکومت ان سفید ہاتھیوں کو سالانہ پانچ سو ارب روپیہ کھلاتی رہے گی ۔۔۔؟بی بی سی نے اپنے تبصرے میں کہا کہ نواز شریف کی پہلی حکومت خود ان کے اپنے فقرے نے گرائی تھی کہ’’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ اور پھر غلام اسحاق خان کے ساتھ ساتھ انہوں نے جنرل ریٹائرڈ وحید کاکڑ کی ڈکٹیشن لینا پڑی ۔۔۔۔نواز شریف کی دوسری حکومت چوہدری نثار علی خان اور ان کے بھائی افتخار علی خان کے اس مشورے نے کروائی کہ پرویز مشرف کو چیف آف آرمی اسٹاف بنا لیتے ہیں اردو بولنے والا ہے بندہ بن کے رہے گا ۔۔۔۔اور اب نواز شریف کی تیسری حکومت میں کڑا باہمی مقابلہ ہے کہ ’’کون پاؤں ‘‘ میں پہلے گولی مارے گا۔۔۔عمران خان کے ناکام دھرنے کے بعد نواز شریف ،نثار علی خان ،پرویز رشید اور ہم نواء کی پوری کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپوزیشن متحد ہو جائے اور اب پی آئی اے کا دودھ بھی حزب اختلاف کی بلی پینے کے بجائے پنجہ مار کر الٹ دے تو نواز شریف کی قسمت ۔۔۔۔کیا آپ مسلم لیگ نواز کے علاوہ کسی اور جماعت کو دیکھا ہے جو برسر اقتدار آتے ہی ڈی ریل ہونے کی ’’پر خلوص‘‘کوششیں شروع کر دے اور قسمت ہر موڑ پر ہر بار پھسلنے سے بچاتی رہے ۔۔۔؟مجھے معجروں پر یقین نہیں مگر میاں نواز شریف تو سامنے کی مشال ہیں اور ان کے نورتن مخالف سمت میں جاتے تیر کو بھی ا’ڑ کر اپنی جانب موڑ لیتے ہیں ۔۔۔۔بندہ کیلے کے چھلکے سے پھسلے تو اگلی بار احتیاط کرتا ہے مگر شریف حکومت کی نگائیں ہر بار بے تابی سے اسی چھلکے کو ڈھونڈتی رہتی ہیں ۔۔۔۔۔لہذا راقم سوچتا ہے کہ تو ممکن ہی نہیں کہ چلو اگلی بار معطلق العنان بننے کے شوق میکو لگام دوں گا اپنے پانچ پیاروں کے علاوہ کسی چھٹے سے مشورے پر بھی کان دھروں گا اوراہم قومی فیصلوں پر وسیع النظری سے قدم جما کر عمل کروں گا گڈ گورننس کے کلچر کو بلا امتیاز رشتہ و تعلق ،رسوخ و پیسہ پھیلانے کی کوشش کروں گا جہاں پیار سے کام لیا جاسکتا ہے وہاں ڈندا اور جہاں ڈنڈے کی ضرورت ہوئی وہاں مروت (مشلا مولانا عبدالعزیز کیس) نیز مکھی کو مارنے کے لئے توپ کے گوے کا نہیں سوچوں گا ( ماڈل ٹون لاہور ،جناض ٹرمینل کراچی تشد د کیس) آ پ تینوں شریفانہ ادوار دیکھ لیں اگر انداز و سوچ و عمل میں کوئی فرق ہو تو راقم کو بھی بتائیں ۔۔۔ایسی حکومت کا کیا علاج کہ جو سادی اکثریت لے یا دو تہائی مگر ’’احساس کمتری یا عدم تحفظ‘‘ ختم ہونے کو ہی نہیں آتا ،جس عوام نے تین بار اعتماد کیا مگر عوام پر اسے ایک بار بھی اعتماد نہیں ہوا ایسی حکومت جو تین بار تعلیم و صحت اور نظام انصاف کی اصلاح کے تھنک لیں مگر طویل المدت فوائد کو ذہن میں رکھنے کی بجائے شو کیس منصوبوں پر اپنی توانائی صرف کر دے اور پھر ان تاج محلاتی منصوبوں کے بوجھ سے اتنی ہانپ جائے کہ صحت و تعلیم اور انصاف وہیں پڑے کے پڑے رہ جائیں اور ترکے میں جس وضاحتیں اور صفائیوں رہ جائیں ۔۔۔ہاں مگر اس المیے کا کیا کریں گے کہ لیگی صرف مار رہے ہیں باقی تو مارنے کے بعد مردے کے کپڑے بھی اتار لیتے ہیں کچھ کے بارے میں سنا ہے کہ اور کچھ کو دیکھا بھی ہے ۔۔۔تو کیا فرد کا ہم نفسیاتی علاج ہوتا رہے گا ۔۔۔۔حکومتوں کا کب ہو گا۔۔۔۔۔۔۔؟
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 24 Articles with 17806 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.