سلسلہ نسب و ولادت:
قطب الاقطاب فر د الاحباب استاذ شیوخ ، عالمِ اسلام و المسلمین حضرت محی
الدین ابو محمد عبدالقادر الحسنی و الحسینی رضی اللہ عنہ، نجیب الطرفین ہیں
۔ والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی اور والد ماجد کی جانب سے حسنی تھے۔ یہ
شرافت و بزرگی بہت ہی کم بانصیب لوگوں کو حاصل ہوتی ہے ۔ والد ماجد کا نام
سید ابو صالح اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی ام الخیر فاطمہ بنت ابو عبداللہ
صومعی الحسینی تھا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔آپ ایران کے مشہور قصبہ جیل میں
یکم رمضان المبارک ٤٧٠ھ کو پیدا ہوئے۔
آپ مادر زاد ولی تھے:
یہ بات نہایت ہی مشہور و معروف ہے کہ سیدنا حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ،
ایام رضاعت میں ماہِ رمضان المبارک میں دن کے وقت اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ
نہیں پیا کرتے تھے۔ یہ بات لوگوں میں پھیل گئی۔ کہ فلاں شریف گھرانے میں
ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں دن کے وقت ماں کا دودھ نہیں
پیتا۔ اور روزہ سے رہتا ہے۔؛ اس سے ثابت ہوا کہ آپ مادر زاد ولی تھے ۔
ایک دفعہ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ آپ ولی اللہ ہیں؟
فرمایا میں دس برس کا تھا کہ گھر سے مدرسے جاتے وقت دیکھا کہ فرشتے میرے
ساتھ چل رہے ہیں۔ پھر مدرسہ میں پہنچنے کے بعد وہ فرشتے دوسرے بچوں سے کہتے
کہ ''ولی اللہ '' کیلئے جگہ دو ، فرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے ایک ایسا شخص
نظر آیا جسے میںنے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اس نے ایک فرشتہ سے پوچھا کہ
یہ کون لڑکا ہے ؟ جس کی اتنی عزت کرتے ہو؟ اس فرشتہ نے جواب دیا کہ یہ ولی
اللہ ہے جو بڑے مرتبے کا مالک ہوگا۔ راہِ طریقت میں یہ وہ شخصیت ہے جسے
بغیر روک ٹوک کے نعمتیں دی جارہی ہیں اور بغیر کسی حجاب کے تمکین و قرار
عنایت ہو رہا ہے ۔ اور بغیر کسی حجت کے تقربِ الٰہی مل رہا ہے۔ الغرض چالیس
سال کی عمر میں میں نے پہچان لیا کہ وہ پوچھنے والا شخص اپنے وقت کا ابدال
تھا۔
آپ کا حلیہ شریف:
آپ نحیف البدن ، میانہ قد، کشادہ سینہ لمبی چوڑی داڑھی، گندمی رنگ، ابرو
پیوستہ، بلند آواز تھے۔ آپ علم کامل اور اثر کامل کے حامل تھے۔
آپ کا علم و فضل:
سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، علم ظاہری اور باطنی کے ایک متبحر عالم فاضل
تھے۔ ایک دن آپ کی مجلس میں ایک قاری نے قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت کی۔ آپ
نے اس کی تفسیر بیان کرنی شروع کی ۔ پہلے ایک تفسیر پھر دوسری، اور پھر
تیسری یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق اس آیک کی گیارہ تفاسیر بیان
فرمائیں۔یہاں تک کہ چالیس وجوہ بیان کیں ار ہر معنی اور تفسیر کی علیحدہ
علیحدہ تفصیل سے سند اور دلیل اس طرح دی کہ حاضرین دم بخود رہ گئے۔
تمام علمائے عراق بلکہ دنیا کے تمام طلب گارانِ حال و قال کے آپ مرجع و
وسیلہ تھے۔ دنیا کے ہر گوشہ سے آپ کے پاس فتوے آیا کرتے تھے جن پر فوراً
بغیر مطالعہ کتب اور غور و فکر جواب لکھتے ۔ کسی بڑے سے بڑے حاذق فاضل عالم
کو آپ کے جواب کے خلاف لکھنے یا کہنے کی طاقت نہ تھی۔
آپ کی ریاضت و عبادت:
سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، کا طریقہئ سلوب بے انتہاء مشکل اور بے نظیر
تھا۔ آپ کے کسی ہمعصر شیخ میں اتنی مجال نہ تھی کہ آپ جیسی ریاضت و مجاہدہ
میں آپ کی ہمسری کرسکے۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ اپنے ہر عضو کو اس کی طاقت کے
موافق عبادت میں سپرد کردیا کرتے تھے۔ اور قوتِ قلب کے موافق مجایئ اقداء
میں روح و نفس کا ظاہراً و باطناً ذکر کیا کرتے تھے ۔ غائب و حاضر دونوں
حالتوں میں نفس کی صفات کو علیحدہ کرکے نفع و نقصان اور دور ونزدیک کا فرق
مٹادیا کرتے ۔ کتاب و سنت کی پیروی میں مطابقت ایسی تھی کہ آپ ہر حالت میں
ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے اور حضور قلب کے ساتھ توحید الٰہی میں
مشغول رہتے۔
آپ کے اخلاقِ کریمہ:
سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، نہایت پاکیزہ اور خوش اخلاق
تھے۔ آپ اپنی طاہری شان و شوکت اور وسیع علم کے بوجود کمزوروں اور ضعیفوں
میں بیٹھتے ۔ فقیروں سے عاجزی کے ساتھ پیش آتے ۔ بڑوں کی عزت کرے اور
چھوٹوں پر شفقت و مہربانی فرماتے ۔ سلام کرنے میں پہل کرتے اور مہمانوں اور
طالب علموں کی مجلسوں میں نشست کرتے اور ان کی لغزشوں سے درگزر کرتے جو
کوئی آپ کے سامنے کتنی ہی جھوتی قسم کیوں نہ کھاتا آپ اس کا یقین کرلیتے
اور اپنے علم و کشف کو اس پر ظاہر نہ فرماتے ۔ اپنے مہمانوں اور ہم نشستوں
کے ساتھ دوسروں کی بہ نسبت بہت خوش خلقی اور کشادہ روئی سے پیش آتے ۔
سرکشوں ۔ ظالموں ۔ مال داروں اور فاسقوں اور اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کی
تعظیم کے لئے کھڑے نہ ہوتے۔ کسی امیر و وزیر کے گھر نہ جاتے ۔ آپ کے کسی ہم
عصر مشائخ کو آپ جیسا حسن خلق ۔ کشادہ سینہ ، کرمِ نفس حفاظت و امانت میں
برابری کی قوت و طاقت نہ تھی۔
آپ کی مریدوں پر شفقت:
مشائخین کی ایک جماعت کا بیان ہے کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ، نے فرمایا
کہ قیامت تک میں اپنے تمام مریدوں کا ضامن ہوں کہ ان کی موت توبہ پر واقع
ہوگی۔ یعنی بغیر توبہ نہ مریں گے۔ چند مشائخ نے حضور سے پوچھا کہ اگر کوئی
شخص آپ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرے اور نہ ہی آپ کے ہاتھ سے خرقہ پہنا ہو ،
بلکہ صرف آپ کا ارادتمند ہو اور آپ کی طرف اپنے کو منسوب کرتا ہو تو کیا
اسیے شخص کو آپ کے اصحاب میں شمار کیا جاسکتا ہے؟ اور آیا ایسا شخص ان
فضیلتوں میں شریک ہوگا جو آپ کے مریدوں کو حاصل ہوگی؟ حضور غوث اعظم رضی
اللہ عنہ، نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے آپ کو میری طرف منسوب کیا اور مجھ
سے ارادت و عقیدت رکھی تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے گا۔ اس پر اپنی
رحمتیں نازل کرے گا اور اس کو توبہ کی توفیق دے گا اگرچہ اس کے طریق مکروہ
ہوں۔ اور ایسے شخص کا شمار میرے مریدوں اور اصحاب میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے
اپنے فضل و کرم کے صدقہ وعدہ کیا ہے کہ میرے دوستوں ، میرے اہلِ مذہب، میرے
راہ پر چلنے والے ،میرے مریدوں ار مجھ سے محبت کرنے والے کو جنت مرحمت
فرمائے گا۔
آپ کے تعلیم کردہ نوافل:
آپ رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں کہ جو کسی تکہلیف میںمجھ سے امداد چاہے یا
مجھے آواز دے اور پکارے اس کی تکلیف دور کی جائے گی ، جو کوئی میرے وسیلہ
سے اللہ تعالیٰ سے مانگے اس کی ضرورت پوری کی جائے گی۔ اور جو کوئی دو رکعت
نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہئ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورہئ
اخلاص پڑھے اور پھر سرور عالم ا پر درود شریف پڑھے اس طرح دونوں رکعتیں ختم
کرکے سلام پھیرنے کے بعد درود شریف پڑھے ۔ اور عراق کی جانب گیارہ قدم چلے
ار میرا نام لے کر اپنی مراد اللہ تعالیٰ سے مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی
مراد اپنے فضل و کرم سے پوری کرے گا ۔ (عراق ہمارے پاکستان سے شمال مغرب
میں ہے)۔
عداوت غوث کا انجام:
جو شخص حضرت پیر دستگیر غوث اعظم رضی اللہ عنہ، سے تھوڑی سی بھی عداوت رکھے
گا یا ان کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی کرے گا تو دنیا میں ذلیل و رسوا ہوگا۔
اور ذلت کی موت مرے گا۔
ایک مرتبہ آپ کا خادم ابو الفضل بزاز کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے وہ کپڑا
درکار ہے جو ایک اشرفی فی گز ہو کم نہ ہو۔
بزاز نے پوچھا ، کس کے لئے خریدتے ہو؟
خادم نے جواب دیا کہ اپنے آقا سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ
عنہ، کیلئے درکار ہے۔
یہ سن کربزاز کے دل میں آیا کہ شیخ نے بادشاہ وقت کے لئے بھی کپڑا نہیں
چھوڑا۔ اور بزاز کے دل میں ابھی یہ خیال پورا ہی نہیں ہوا تھا کہ غیب سے اس
کے پاؤں میں ایک کیل چبھی ار ایسی چبھی کہ مرنے کے قریب ہو گیا۔ لوگوں نے
پاؤں سے کیل نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن مطلب براری نہ ہوسکی۔ آخر کار لوگ
بزاز کو اٹھا کر حضرت غوثِ پاک رضی اللہ عنہ، کے پاس لے گئے۔ آپ نے اسے
دیکھ کر فرمایا،
''اے ابو الفضل! تم نے اپنے دل میں ہم پر اعتراض کیوں کیا ۔ فرمایا مجھے
اپنے معبود کی عزت کی قسم کہ اللہ جل شانہ، نے حکم دیا کہ اے عبدالقادر وہ
کپڑا پہنو جس کی قیمت فی گز ایک اشرفی ہو''
مزید فرمایا کہ ابو الفضل! یہ کپڑا میت کا کفن ہے ۔ اور میت کا کفن عمدہ
اور نفیس ہونا چاہئے جو ہزار موت کے بعد نسیب ہوتا ہے۔ پھر آپ نے اپنا دست
اقدس ابوالفضل کی تکلیف کے مقام پر رکھا ۔ آپ کے ہاتھ رکھتے ہی تکلیف اس
طرح جاتی رہی گویا بالکل تھی ہی نہیں ۔ پھر اس کے بعد فرمایا ۔ ابو الفض کا
اعتراض ہمارے پاس پہنچا اور کیل کی صورت میں اسکے پاس لوٹ کر جو کچھ چاہا
کیا۔
حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، کا وعظ و نصیحت:
آپ کی مجلس وعظ میں چار سو اشخاص قلم دوات لئے آپ کی نصیحتیں قلمبند کرتے
رہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ابتدائی زمانہ میں سرورِ عالم ا اور سیدنا حضرت
مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو میں نے خواب میں دیکھا جنہوں نے
مجھے وعظ کرنے کا حکم دیا اور میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ٹپکایا اور مجھ
پر ابواب سخن کھول دیے۔
حاضرینِ وعظ:
ایک شیخ کا بیان ہے کہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ، جب وعظ کرنے کیلئے منبر
پر بیٹھتے تو پہلے الحمد اللہ کہتے تاکہ اللہ تعالیٰ کا ہر ولی جو غائب ہو
یا حاضر خاموش ہوجائے۔ اور پھر دوسری مرتبہ الحمد للہ کہتے اور دونوں کے
درمیان تھوڑی دیر کیلئے سکوت فرماتے اس عرصہ میں فرشتے اور تمام اولیاء
اللہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوجاتے ۔ جتنے لوگ آپ کی مجلس میں دکھائی دیتے اس
سے زیادہ نظر نہ آنے والے جنات ہوتے۔
آپ کے ہم عصر ایک شیخ کا بیان ہے کہ میںنے اپنی عادت کے موافق جنات کی
حاضری کے لئے عزیمت پڑھی لیکن کوئی جن حاضر نہ ہوا ۔ میں بہت دیر تک عزیمت
پڑھتا رہا ۔ پھر حیران ہوا کہ جنات کی حاضری کیوں نہیں ہورہی ہے؟ ان کے نہ
آنے کا سبب کیا ہے؟ تھوڑی دیر بعد کچھ جن حاضر ہوئے تو میں نے ان سے دیر سے
آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ
عنہ، وعظ فرمارہے تھے ار ہم سب جنات وہاں حاضر تھے۔ آپ آئیندہ ہم کو اس وقت
طلب کریں جب کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، وعظ نہ فرمارہے ہوں
ورنہ ہماری حاضری میں تاخیر ہوگی۔ میں نے پوچھا کیاتم لوگ حضرت شیخ کی مجلس
میں وعظ مں حاضر ہوتے ہو؟ اس پر جنات نے نے جواب دیا کہ شیخ کی مجلس میں
انسانوں کی نسبت ہماری تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہم جنات سے اکثر قبائل حضرت شیخ
کے ہاتھ پر اسلام لائے ہیں اور توبہ و استغفار میںمشغول ہیں۔ آپ رضی اللہ
عنہ، کی مجلس وعظ میں اولیائے عظام اور انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام
بھی شریک ہوتے ہیں ار خود محبوب رب العالمین ا بھی تربیت و تائید کیلئے
تشریف لایا کرتے تھے۔ اور سیدنا حضرت خضر علیہ السلام بھی شریک ہوتے۔
مواعظ کا اثر:
آپ کا وعظ بڑا پر تاثیر ہوتا تھا۔ حاضرین مجلس مضطرب اور بے چین ہوجاتے اور
ان پر وجد و حال کی کیفیت طاری ہو جاتی ۔ کوئی گریہ و فریاد کرتا۔ کوئی
اپنے کپڑے پھاڑ کر جنگل کی طرف بھاگ جاتا ۔ کوئی بے ہوش ہو کر جان دے دیتا
۔ آپ کی مجلس وعظ سے اکثر لوگوں کے جنازے نکلتے ۔ جس کا سبب یہ تھا کہ وہ
آپ کے ذوق و شوق، ہیبت و تصرف ، عظمت و جلال کی تاب نہ لاسکتے اور دم توڑ
دیتے تھے۔ پانچ سو سے زیادہ یہودی اور عیسائی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اور
ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکوؤں اور بدمعاشوں نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کرکے
بدکرداریوں سے باز آئے۔ اس کے علاوہ عام مخلوق کی فیض یابی کی تعداد بے
انتہا ار بے شمار ہے۔
آپ کا وصال مبارک:
آپ نے نوے (٩٠) سال کی عمر میں بتاریخ ١١ ربیع الآخر ٥٦١ھ مطابق ١١٨٢ء میں
داعی اجل کو لبیک کہا۔ نماز جنازہ میں بے شمار لوگ حاضر ہوئے۔ کثرتِ ہجوم
کے باعث رات کے وقت آپ کے مدرسہ میں سائبان کے نیچے آپ کا جسم اقدس سپردِ
خاک کیا گیا۔ بغداد شریف میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔ |