رات میں حسب عادت کمرے میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ
بریکنگ نیوز آئی نامور ادیبہ اور ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا انتقال
کرگئیں۔خبر دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ ابھی ٹی وی چینل پر بریکنگ نیوز چل ہی رہی
تھی کہ سوشل میڈیا پر ہر طرف سے تعزیتی پوسٹ آنا شروع ہوگئیں۔ ہر بندہ اپنے
ان ہیروں کو اپنے اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کرنے لگے۔
ماہ فروری اس سال 2016میں شاید یہ سوچ کر آیا کہ اس بار ادب سے وابستہ
لوگوں پر غم کے پہاڑ ڈھانے ہیں۔فروری ویسے تو تقریباًسردی کا ماہ ہوتا ہے
مگر ادبی دنیا کے لیے برسات کا ماہ بن گیا۔ہر آنکھ پُرنم تھی۔آنکھ پُرنم
کیوں نہ ہوتی کیونکہ اس ماہ میں ہمارے ادب کے دوستارے مرجھا گئے۔کچھ دن
پہلے معروف ادیب اور افسانہ نگار انتظار حسین ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ۔ابھی
ان کے کفن کی مٹی میلی نہیں ہوئی تھی کہ اب پاکستان کی نامور ادیبہ اور
ڈرامہ نگار محترمہ فاطمہ ثریا بجیا بھی ہم سے منہ موڑ گئیں۔
فاطمہ ثریا بجیا کا نام پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جانا اور پہچانا
جاتا ہے۔ آپ ادب کی دنیا میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ پاکستان ٹیلی وڑن
اور ادبی دنیا کی معروف شخصیت ہیں۔ آپ کا نام ناول نگاری ، ڈرامہ نگاری کے
حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔بجیا نے ٹیلی وڑن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج
پر بھی کام کیا۔ سماجی اور فلاحی کاموں کے حوالے سے بھی آپ کسی سے پیچھے
نہیں رہیں۔ محترمہ فاطمہ ثریّا بجیا کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک
نمایاں مقام رکھتا ہے۔ایک سب سے دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ بجیا
صاحبہ باقاعدہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں۔ انہوں نے کسی سکول سے باقاعدہ تعلیم
حاصل نہیں کی۔ اس کے باوجود انہوں نے ادب اور ڈرامہ نویسی کی دنیا میں اپنا
لوہا منوایا۔
اماں(یہاں میں نے اماں کا لفظ اس لیے لکھا ہے کہ وہ میری ماں کی عمرکے
برابرتھیں)فاطمہ ثریابجیا یکم ستمبر 1930کوہندوستان کے شہر حیدرآباد کے ضلع
کرناٹک میں پیدا ہوئیں۔پاکستان سے محبت کا ثبوت یہ ہے کہ آپ تقسیم ہند کے
فورا بعد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئیں۔ آپ کی فیملی 10بہن بھائیوں پر
مشتمل ہے۔آپ کے خاندان میں اور بھی بہت سی مشہور شخصیات ادبی دنیا میں
مصروف عمل ہیں جیسے کہ ان کے بھائی معروف میزبان اور ادیب انور مقصودجبکہ
زبیدہ آپا اور شاعرہ زہرہ نگار ان کی چھوٹی بہنیں ہیں جو ادب کی دنیا میں
اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ آپ کو اپنی فیملی میں انور مقصود سے زیادہ پیار
تھا۔ فاطمہ ثریا بجیا نے ٹیلی وڑن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج کے لیے بے شمار
ڈرامے لکھے جب کہ ان کے معروف ڈراموں میں ’’شمع‘‘ ، ’’افشاں‘‘، ’’عروسہ‘‘،
’’انا‘‘، ’’تصویر‘‘ سمیت متعدد ڈرامے شامل ہیں۔ ان نے طویل دورانیے کا پہلا
ڈرامہ ’’مہمان‘‘لکھا جب کہ انہوں نے بچوں کے لیے بھی ادبی پروگرام تحریر
کیے۔
فاطمہ ثریا بجیا کی ٹیلی وژن کی دنیا میں آمد محض اتفاقا ًہوئی تھی
جب1966میں کراچی جانیکے لیے ان کی فلائٹ تعطل کا شکار ہوئی تو وہ اسلام
آباد پی ٹی وی سینٹر کسی کام سے گئیں وہاں اسٹیشن ڈائریکٹر آغا ناصر نے ان
کو اداکاری کے ذریعے پہلا کام کروایا اس کے بعد انہوں نے ڈرامہ نگاری کے
ذریعے اس ادارے سے اپنا تعلق مضبوط کیا ۔
آپ کی پاکستان کے لیے گران قدر خدمات ہیں جن کو کبھی فراموش نہیں کیا
جاسکتا۔1997 میں آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا
گیا۔ اس کے علاوہ انہیں کئی قومی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔آپ ادبی خدمات
ڈنکا پاکستان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی بجا۔ جس کا منہ
بولتاثبوت جاپان کا اعلی سول ایوارڈ شامل ہے۔ 2012 میں ان کو صدر پاکستان
کی طرف سے ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔آپ نے سندھ حکومت کی مشیر برائے تعلیم
کی حیثیت سے بھی قومی خدمات سرانجام دیں۔
بجیااماں اخلاقی قدروں کی محافظ تھیں اور وہ پاکستانی بچوں کو اعلیٰ اخلاق
کی تربیت دینے پر یقین رکھتی تھیں۔ وہ ایک خوش خیال، خوب صورت ذہن کی مالکہ،
اور امیدوں کی کرنوں سے پُر خاتون تھیں۔آپ ا کو پھولوں سے عشق تھا۔ نہ صرف
وہ پھولوں کو اگاتی ہیں بلکہ وہ پلاسٹک اور کپڑے کے پھولوں کو بھی جمع کرتی
تھیں۔
آپ کومنہ اور گلے کا کینسر تھا جس کا حال ہی میں آپریشن ہوا ہے۔آپ نے اپنی
زندگی کی پچیاسی بہاریں دیکھیں۔ آخرکار 10فروری کو اپنی جان اپنے مالک کے
حوالے کردی ۔اما ں فاطمہ ثریا بجیا کی وفات کے بعد ادب کی دنیا میں ایک بہت
بڑا خلا پیدا ہوگیا جس کا بھرنا بہت مشکل ہے۔ میری اور میرے تمام ادبی
بھائیوں اور بہنوں کی دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ انتظار حسین اور اماں فاطمہ ثریا
بجیا کو جنت میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور ان اہل خانہ کو صبرو جمیل عطا
فرمائے۔ آمین۔ آخر میں میرے پاس ان ہستیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے
وہ الفاظ نہیں جن کو میں استعمال کرسکوں ۔ بس ان کے لیے اتنا ہی کہوں گاکہ
بچھڑ ا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا |