قدرتی آفات ،مشکلات اورحادثات زندگی کا حصہ
ہیں یہ دنیا میں کہیں نہ کہیں ،کسی نہ کسی روپ میں رونما ہوتی رہتی ہیں ،
سڑک حادثے کا شکارچاہے دو لوگ ہوں یا زیادہ،بم دھماکہ ہو یاآتش زدگی،دہشت
گردی کا معاملہ ہو یا پولیس مقابلہ، زلزلہ و سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا
ہیٹ سٹروک کا عذاب ۔۔۔دکھی،مصیبت زدگان اور بے آسراو بے یارومددگار افراد
کی مدد کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ عبدالستار ایدھی اور ان کے
رضاکاروں کی بے لوث خدمات سے سبھی باخوبی واقف ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر
میں یہ ادارہ بلا تفریق رنگ ، نسل اور مذہب کے مصیبت زدہ لوگوں کو فوری مدد
فراہم کرنے والاواحد پاکستانی ادارہ ہے۔بے غرض اور قابل احترام شخصیت کی
حیثیت سے شہرت حاصل کرنے والے عبدالستار ایدھی المعروف مولانا ایدھی خدمت
خلق کے شعبہ سے1951 سے منسلک ہیں۔بچپن سے ہی ضرورت مندوں کی مدد کر کے خوشی
محسوس کرنے والے ایدھی آج جب خود شدید بیماری کی حالت میں ہیں مگر ان کا
جذبہ خدمت خلق زوال پذیر نہیں ہوا بلکہ وہ ابھی بھی عروج پرہے ،واضح رہے کہ
ان کے دونوں گردے فیل ہو گئے ہیں لیکن اس کے باوجودوہ ہر لمحہ فلاحی کاموں
میں صرف کرنے کو بے تاب رہتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی ایک
اپیل پر خواتین اپنے زیورات تک اتار کر انہیں عطیہ کر دیتی ہیں اور مرد
حضرات اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ نیزپاکستانی عوام مولانا ایدھی
کو پاکستان کی ’’مدر ٹریسا‘‘ بھی سمجھتی ہے اس کی وجہ ہے کہ ان کا
جذبہ،جدوجہداور مشن بڑی حد تک ہندوستان کی مدد ٹریسا سے مشابہت رکھتا ہے۔
سیاچن سے ننگر ہار اور لاہور سے کابل تک خدمات سر انجام دینے والے
عبدالستار ایدھی 1928 میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا
ہوئے۔ ان کے والد کپڑے کے تاجر تھے۔1947 میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان
بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہو گیا۔آپ پیدائشی لیڈر
تھے جب آپ کی ماں آپ کوسکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو آپ ان میں سے ایک
پیسہ خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے
کے لیے استعمال کرتے تھے۔ گیارہ سال کی عمر میں آپ نے اپنی ماں کی دیکھ
بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں
ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے ان کی
کامیاب زندگی کی کنجی بنا۔
ایدھی فاؤنڈیشن ایک غیرمنافع بخش ادارہ ہے اور فلاحی سرگرمیوں کے لئے اس کا
دائرہ کار پاکستان میں سب سے بڑا ہے۔ یعنی بڑے شہر اور چھوٹے دیہات، ایدھی
کی سرگرمیوں کی جھلک ملک کے کونے کونے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مولانا ایدھی
نے 1951 میں جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اس میں ایک ڈاکٹر کی
مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری قائم کی۔1957 میں کراچی میں بڑے پیمانے پر فلو کی
وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری رد عمل کیا انہوں نے شہر کے نواحی علاقوں
میں کیمپ لگائے اور مخیر حضرات کی مدد سے مریضوں کی بھر پور مدد کی۔ اس مہم
کے دوران مخیر افرادنے ان کے کام پر بھروسہ کرتے ہوئے دل کھول کر امداد کی
اور اسی رقم سے مولانا ایدھی نے ایک عمارت خریدی جہاں انہوں نے ڈسپینسری،
زچگی سینٹر اور نرسوں کی تربیت کااسکول بھی کھول لیا اور یہیں سے ایدھی
فاونڈیشن کی ابتدا ہو ئی۔بتدریج ایدھی فاونڈیشن پاکستان کے دیگرشہروں ،
قصبوں اور دیہاتوں تک پھیل گیا۔ ابتدا میں ایدھی نے ایک ایمبولینس خریدی
جسے وہ خود چلاتے تھے اوراب ایدھی فاونڈیشن کے زیر اہتمام ملک بھر میں 1800
ایمبولینسیں، 3 فضائی ایمبولینس اور 400 سے زائد مراکز کام کررہے ہیں نیز
سالانہ کروڑوں روپے امداد موصول ہوتی ہے، جس کا مکمل حساب کتاب رکھا جاتا
ہے۔ اسپتال اور ایمبولینس سروس ایدھی فاونڈیشن کے تحت ، کلینکس، میٹرنیٹی
ہوم، پاگل خانے، معذوروں کی بحالی کے مراکز، بلڈ بینک، یتیم خانے ، لاوارث
بچوں کے مراکز، پناہ گاہیں ، اسکول اور دیگر مراکز بھی کام کر رہے ہیں۔
اسکے علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ایدھی
فاؤنڈیشن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے پاکستانیوں کے علاوہ کبھی کسی
سے چندہ نہیں لیا۔ان کے ساڑھے تین ہزار کارکن اور ہزاروں رضاکار 24 گھنٹے
بغیر کسی وقفے کے ان سہولتوں کی فراہمی میں مصروف رہتے ہیں۔ ساتھ ہی ملک
بھر میں اس کے مراکز کی تعداد 250 ہے جہاں لاوارث میتوں کے لئے مفت تدفین
کی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں جبکہ معذور، یتیم اور لاوارث بچوں کی
نگہداشت کے مراکز چلائے جا رہے ہیں جن میں صرف یتیم بچوں کی تعداد ہی 50
ہزار ہے جبکہ ایدھی مراکز کے باہر رکھے گئے جھولوں کے ذریعے رد کئے گئے 20
ہزار شیرخواروں کو بچایا جا چکا ہے۔ مفت ہسپتال اور ڈسپنسریاں، منشیات کے
عادی افراد کی بحالی، مفت ویل چیئرز، بیساکھیاں اور معذوروں کے لئے دیگر
سروسز بھی ایدھی فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔
جب ہم ایدھی کی بات کرتے ہیں تو ایدھی فاؤنڈیشن کی بات تب تک مکمل نہیں
ہوتی جب تک بلقیس ایدھی کے بارے میں بات نہ کی جائے، بلقیس بانو ایدھی عبد
الستار ایدھی کی بیوی، ایک نرس اور پاکستان میں سب سے زیادہ فعال مخیر
حضرات میں سے ایک ہیں۔آپ14 اگست، 1947میں کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ان کی
عرفیت مادر پاکستان ہے۔ وہ بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں اور اپنے
شوہر کے ساتھ انہوں نے خدمات عامہ کے لئے 1986 رومن میگسیسے اعزاز حاصل
کیا۔حکومت پاکستان نے آپ کو ہلال امتیاز سے نوازا ۔عبدالستار ایدھی ان
الفاظ میں بلقیس ایدھی کی تعریف کرتے ہیں ’’بلقیس ایدھی بہت زیادہ پروگریسو
ہیں اور ہمیشہ انہوں نے بہت حوصلہ افزائی کی ہے‘‘صرف یہی نہیں بلکہ کئی
ہزار خواتین کو پناہ دینے، انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور کسی وجہ
سے اپنے گھر سے ناراض ہو کر آنے والی خواتین کی ان کے خاندان کے ساتھ صلح
کرا کے انہیں ان کے گھروں تک پہنچانے جیسے کام بھی بلقیس ایدھی انجام دیتی
ہیں۔ آپ نے پڑوسی ملک بھارت سے تعلق رکھنے والی سننے اور بولنے کی صلاحیت
سے محروم لڑکی’ گیتا ‘کی 15 برس تک دیکھ بھال کی۔ گیتا 10برس کی عمر میں
غلطی سے پاکستان پہنچ گئی تھی، جسے ایدھی سینٹر کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
بلقیس ایدھی کی طرف سے گیتا کا مذہبی تشخص برقرار رکھنے اور اسے اْس کے ملک
واپس بھیجنے کے لیے انتھک کوششوں کا اعتراف بھارت کی طرف سے بھی کیا گیا
ہے۔ اسی اعتراف کے طور پر بھارت نے بلقیس ایدھی کو مدر ٹریسا ایوارڈ 2015ء
سے نوازاہے۔
ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاونڈیشن
فاونڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کی
ہے۔ اسلامی دنیا میں ایدھی فاؤنڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم مدد
فراہم کرتی ہے۔ جہاں امداد اور نگرانی ایدھی بذات خود متاثرہ ممالک میں جا
کر کرتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ فاونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں
سے چند نام افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی
آفت سماٹرا اندامان کے زلزلہ (سونامی) سے متاثرہ ممالک کے ہیں۔
16 اگست 2006ء کو بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی کی جانب سے ایدھی انٹرنیشنل
ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کااعلان کیا گیا۔ جس کے تحت دنیاکا کوئی بھی
ملک ہو چاہے وہ امیرملک ہو یاغریب جیسے امریکہ، یو کے، اسرائیل، شام،
ایران، بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ کو ایمبولینس بطور عطیہ دی جا رہی ہے
اورانہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان ایمبولینس کو 5 سال تک استعمال کرنے کے
بعد فروخت کرکے اس کی رقم خیراتی کاموں میں استعمال کریں۔بیگم بلقیس ایدھی
اور کبریٰ ایدھی نے اس موقع پر کہا کہ مریض مریض ہی ہوتا ہے چاہے اس کا
تعلق کسی بھی ملک سے کیوں نہ ہو چاہے وہ امیر ہو یا غریب۔ ایمبولینس
کامقصدانسانوں کی جانیں بچانا ہے اور ہمیں اس بات کی خوشی ہوگی کہ ایدھی
انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کی ایمبولینسیں دنیا بھرمیں انسانوں کی جانیں
بچائیں خواہ وہ لندن، نیویارک، ٹوکیو، تل ابیب، بیروت اوردمشق ہوں۔
ایدھی فاؤنڈیشن کا مستقبل
ایدھی کا خواب ہے کہ پاکستان کو ایک جدید فلاحی ریاست بنانا چاہیے جو غریب
اور ضرورت مندوں کے لیے بنیادی صحت اور تعلیم فراہم کرے۔ ایدھی ٹرسٹ کے
مقاصد میں جہالت کو کم کرنا، خاندانی منصوبہ بندی کو عوام میں متعارف
کروانا اور بنیادی صفائی کے اصولوں کو پھیلانا ہے ۔آج ایدھی فاؤنڈیشن ترقی
کی راہ پر گامزن ہے۔ ایدھی مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں، وہ پاکستان
کے ہر 500 کلو میٹر پر ہسپتال تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
ایدھی کی شخصیت کے روشن پہلو
آج پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا میں بھی ایدھی نے ایک غیر خود غرض اور
محترم شخص کے طور شہرت پائی ہے۔ شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی سادہ
زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ سادہ روایتی پاکستانی لباس پہنتے ہیں، جو صرف
ایک یا دو ان کی ملکیت ہیں، اسکے علاوہ انکی ملکیت کھلے جوتوں کا ایک جوڑا
ہے، جس کو وہ سابقہ بیس سال سے استعمال کر رہے ہیں۔ سادگی صرف لباس اور
پہناوے تک محدود نہیں ہے بلکہ سادگی کا عنصر باتوں میں بھی جھلکتا ہے اور
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کا بجٹ ایک کروڑ کا ہے جس میں سے وہ
اپنی ذات پر ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کرتے۔آپ کی زندگی گزارنے کا انداز بھی
نہایت سادہ ہے آپ روزانہ صبح چار بجے اٹھ جاتے ہیں، تلاوت اور ترجمہ سنتے
ہیں اور پھر ناشتہ کرتے ہیں، ناشتے میں سوکھی روٹی دودھ کے ساتھ کھا تے ہیں
جس کے بعد دوائی لیتے ہیں۔ 35 سال سے ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں مگر آج
تک اس کاایلوپیتھک علاج نہیں کرایا۔ آج تک ایک بھی فلم نہیں دیکھی۔ میوزک
سے دلچسپی محدود ہے۔ محمد رفیع اور نورجہاں پسندیدہ سنگرز ہیں۔ سب سے
پسندیدہ گانامحمد رفیع کا گایا ہوا ’’اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں
گرا کوئی وہاں گرا‘‘ سنتے ہیں۔سارا دن اپنے دفتر میں گزارتے ہیں، کوئی
حادثہ پیش آ جائے تو امدادی کارروائی کا معائنہ کرنے کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔
زندگی میں کبھی چائے نہیں پی۔ تمباکو نوشی نہیں کی۔ دوپہر کو ایک روٹی سالن
کھاتے ہیں۔ بھنا ہوا گوشت مرغوب غذا ہے اور خود بھی پکا لیتے ہیں۔سب سے بڑھ
کر یہ کہ آپ خدمت خلق کرتے ہوئے مذہب کے نام پر انسانیت کو تقسیم نہیں کرتے
اور ہر ایک کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
بین الاقوامی و قومی اعزازات
مولانا ایدھی کو انکی بے لو ث خدمات پر بے شمار قومی اور بین الاقوامی
اعزازات سے نوازا گیا۔ 1986 میں عوامی خدمات پر’’ رامون مگسیسے ایوارڈ‘‘،
1988 میں’’ لینن امن انعام‘‘، 1992 میں’’ پال ہیرس فیلو روٹری انٹرنیشنل
فاونڈیشن‘‘،1997 ء میں’گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ ‘کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن
کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ ایدھی بذات
خود بغیر چھٹی کیے طویل ترین عرصہ تک کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں
اور ریکارڈ بننے کے بعد بھی ابھی تک انہوں نے چھٹی نہیں لی۔2000 میں بھی’
گنیز بک ورلڈ ریکارڈز ‘میں دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ ایمبولینس سروس پر
نام شامل کیا گیا۔ 2000 میں متحدہ عرب امارات کا ’’ہمدان اعزاز برائے عمومی
طبی خدمات کا ایوارڈ‘‘، 2000 میں ہی اٹلی کا بین الاقوامی’’ بلزان ایوارڈ
برائے انسانیت، امن و بھائی چارہ ایورڈ‘‘،2009 میں’’یونیسکو مدنجیت سنگھ
ایوارڈ‘‘ جبکہ 2010 میں ’’احمدیہ مسلم امن اعزاز‘‘ سے نوازا گیا۔
مولانا ایدھی کو انکی خدمات پر 2006 میں’ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن‘
کی جانب سے ’’ڈاکٹریٹ ‘‘کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔ 1987 میں ’کالج
آف فزیشنز پاکستان‘ کی جانب سے’ ’سلور جوبلی شیلڈ‘‘، 1989 میں حکومت سندھ
کی جانب سے’’ سماجی خدمت گزار برائے برصغیر کا اعزاز‘‘، 1989 میں ہی حکومت
پاکستان کی جانب سے اعلی ترین سول اعزاز’’ نشان امتیاز‘‘، 1989 میں حکومت
پاکستان کے محکمہ صحت اور سماجی بہبود کی جانب سے بہترین خدمات کا اعزاز،
1992 میں’ پاکستان سوک سوسائٹی‘ کی جانب سے’’ پاکستان سوک اعزاز‘‘،پاک فوج
کی جانب سے’’ اعزازی شیلڈ‘‘،پاکستان اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز کی جانب سے’’
اعزاز ِخدمت ‘‘،پاکستانی انسانی حقوق معاشرہ کی طرف سے’’ انسانی حقوق
اعزاز‘‘،26مارچ2005میں عالمی میمن تنظیم کی جانب سے ’’لائف ٹائم اچیومنٹ
اعزا ز‘‘سے بھی نوازاگیا۔1996 ء میں انکی خودنوشت سوانح حیات شائع ہوئی۔ |