امام بخاری ؒ ………شخصیت و کردار
(Tanweer Ahmed Awan, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
دین اسلام کی آفاقیت اور صیانت ایک مسلمہ حقیقت ہے، قرآن پاک کی ہر ہر آیت
اور پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی کا ہر ہر گوشہ محفوظ اور قابل عمل ہے ،اﷲ کریم
نے ہر دور میں ایسی عبقری شخصیات پیدافرمائی ہیں جنہوں نے قرآن اور پیغمبر
اسلام ﷺ کی احادیث کی مثالی اور غیر معمولی خدمت سر انجام دی۔دور صحابہ
کرام ؓ کے بعد تدوین حدیث کے دور میں امام محمد بن اسماعیل بن ابراھیم
البخاریؒ کا نام سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔
امیر المؤمنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل بن ابراھیم البخاری 12شوال
194ھ بمطابق 20جولائی 810ء نماز جمعہ کے بعد بخارا میں پیدا ہوئے۔(لامع
الدراری )کم سنی میں ہی مشفق والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، والدہ کی پرورش
میں تھے کہ آپ کوایک اور آزمائش کا سامنا کرنا پڑا ، آنکھوں کی بینائی جاتی
رہی،والدہ نے اپنے لخت جگر کے لیے اﷲ کے حضور دعائیں اور التجائیں کیں، ایک
دن خواب میں حضرت ابراہیم خلیل اﷲ کی زیارت ہوئی ، آپ نے مضطرب ماں کو
خوشخبری دی کہ اﷲ تعالیٰ نے تیرے بیٹے کو بینائی واپس عطاکر دی ہے ، انکھ
کھلی تو دیکھا کہ محمد بن اسماعیل بینا ہو چکے تھے۔(ھدی الساری)
اﷲ تعالیٰ نے امام بخاری ؒ کو بے مثا ل قوت حافظہ عطا فرمایا تھا ،طلب علم
کا وافر حصہ آپ کے قدرت نے آپ کو ودیعت فرمایا تھا ،یہی وجہ تھی کہ آپ نے
سولہ سال کی عمر میں مشائخ بخارا سے استفادہ کرنے کے بعد والدہ اور بھائی
احمد بن اسماعیل کے ساتھ حجاز مقدس کا سفر کیا ،دوسال مکہ میں قیام فرمانے
کے بعد مدینہ منورہ کو اپنا مسکن بنایا ،قضایا الصحابۃ والتابعین اور
التاریخ الکبیر جیسی شہرہ آفاق تصانیف مدینہ میں اٹھارہ سال کی عمر میں
امام بخاری ؒ نے تحریر فرمائیں ۔(سیراعلام النبلاء)چھ سال تک تحصیل علم کے
لیے امام بخاری ؒ نے حجاز میں قیام کیا ،اس عرصہ میں بصرہ کا چار دفعہ سفر
کیا،علم حدیث کے لیے بصرہ، بغداد،نیشاپور، ہرات، بلخ،مرو، الجزیرہ، مصراور
شام سمیت تمام اسلامی علمی مراکز کے اسفار کرکے تقریباًایک ہزار اسی مشائخ
سے کسب فیض کیا۔(فتح الباری)
امام بخاری ؒ کو تحصیل علم کی شاہراہ پر چلتے ہوئے بڑے مشکل اور کھٹن حالات
کا سامناکرنا پڑا۔تنگدستی اور فاقوں سے مجبور ہوکر تن کے کپڑوں کوفروخت
کرنا پڑااور گھاس کھا کر بھی گزر بسر کیا۔زمانہ طالب علمی میں ایک دن امام
داخلی ؒ کی مجلس میں بیٹھے تھے،امام ؒ نے سند بیان کی سفیان بن ابی الزبیر
عن ابراہیم ، امام بخاری ؒ نے فوراً امام سے عرض کیا ابو الزبیر لم یرو
ابراہیم ،استاذ نے نو آموز سمجھ کرجھڑک دیا۔طالب علم نے ادب سے عرض کیا کہ
اصل مسودہ ہو کر رجوع کر لیا جائے، امام داخلی ؒنے اصل مسودہ کی طرف مراجعت
کی تو امام بخاریؒ کی بات درست نکلی ،فرمایا لڑکے اصل سند کیا ہے؟امام صاحب
نے فرمایا ھو الزبیر،ھوابن عدی عن ابراھیم۔محدث داخلی ؒ نے قلم لے کر تصحیح
کرلی اور فرمایا صدقت، اس وقت آپ کی عمر گیارہ برس تھی۔(طبقات الشافعیۃ
الکبریٰ)
قوت حافظہ اور ضبط کا عالم یہ تھا کہ حاشد بن اسماعیل ؒ امام بخاری کے
زمانہ طالب علمی کے ساتھی تھے روایت کرتے ہیں کہ ہم امام بخاری کے ساتھ
مشائخ بصرہ سے تحصیل علم کے لیے جایا کرتے تھے ،دوران درس ہم احادیث کو قلم
بند کرتے اور امام بخاری ؒکچھ نہیں لکھتے تھے ،وقت ضائع کرنے کے طعن پر
امام بخاریؒ نے کہا کہ اپنی لکھی ہوئی تمام احادیث لاؤ،اس وقت تک پندرہ
ہزار احادیث لکھی جا چکی تھیں ،آپ نے سنانا شروع کردیں ،جس پرسب حیران ہو
گئے۔اس کے بعد طلبہ اپنے مسودہ کی تصحیح کے لیے آپ سے رجوع کرتے تھے۔(ھدی
الساری)چالیس سال تک سالن استعمال نہیں کیا۔امام مسلم ؒنے امام بخاریؒ کے
بارے میں فرماتے تھے کہ ان جیسا میں نے دنیا میں نہیں دیکھا۔امام مسلم ؒ آپ
کے پاس آئے اورپیشانی پر بوسہ دیا، اورفرمایاکہ اے استاذ الاساتذہ ، اے سید
المحدثین مجھے اپنے پاؤں چومنے کی سعادت حاصل کرنے دیجئے۔(تہذیب الاسماء)
رسول اﷲ ﷺکو مبارک ارشاد ہے کہ اگر دین ثریا کے مقام پر ہوتو اہل فارس کا
ایک شخص وہاں سے لے آئے گا۔(صحیح مسلم)فربریؒ فرماتے ہیں میں نے خواب میں
دیکھا کہ حضوراکرمﷺ مجھے فرما رہے ہیں این ترید؟میں نے کہا اریدمحمد
اسماعیل،آپ ﷺ نے فرمایا اقراہ منی السلام۔(تاریخ بغداد)
امام بخاریؒ کا ہمیشہ سے معمول رہا کہ رات کے آخری پہر تیرہ رکعت نوافل
پڑھا کرتے تھے اور رمضان المبارک میں یہ معمول بڑھ جاتا تھا (سیر اعلام
النبلاء)اﷲ تعالیٰ نے آپ کو مستجاب الدعوات بنایا تھا آپ فرمایا کرتے کہ
میں نے دو مرتبہ دعا مانگی اﷲ تعالیٰ نے قبول فرمائی اس کے بعد مجھے اندیشہ
ہوا کہ کہیں مجھے میرے اعمال کی جزا مجھے دنیا میں ہی تو نہیں دی جا رہی
؟اس لیے میں اس کے دنیا کے لیے مانگنا پسند نہیں کرتا۔(ایضاً)
امام بخاری ؒ بہت بڑے آدمی تھے،قاعدہ یہ ہے کہ ہر ذی نعمت سے حسد کیاجاتا
ہے،امام صاحب ؒ کے ساتھ معاملہ کچھ عجیب ہی رہا، کبھی پورا بخاراشہر
استقبال کے لیے امڈ آتا ہے ،تو کبھی بخارا کی سرزمین باوجود اپنی وسعت کے
آپ پر تنگ ثابت ہونے لگتی،آپ نے مجموعی طور پر تین با ر جلاوطن کئے گے۔اسی
عالم خرتنگ کے مقام پر یکم شوال 256ھ عید الفطر کی شب داعی اجل کو لیبک
کہا، اسی مقام پر آپ کو ظہر کی نماز کے بعد سپرد خاک کیا گیا۔
|
|