پاکستان امریکی خونی تصنیف کا نیا باب

اپنی سلامتی تحفظ اور بقاء کی جنگ تنہا ہی لڑنا ہوگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

”دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز القاعدہ سے ہوتا ہے، لیکن یہ وہاں پر ختم نہیں ہوجائے گی، یہ اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک دنیا کا ہر دہشت گرد گروپ تلاش نہیں کر لیا جاتا، اُسے غیر مؤثر نہیں کردیا جاتا اور اُسے شکست سے دوچار نہیں کردیا جاتا، یہ لوگ بیسویں صدی کے خونحوار نظریے کے وارث ہیں، ہمارے ردعمل میں فوری انتقام اور منفرد حملوں سے کہیں زیادہ دوسری کاروائیاں شامل ہیں، یہ ایک طویل مہم ہے جو پہلے کسی نے نہیں دیکھی.....دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہر ملک کو فیصلہ کرنا ہوگا، یا وہ ہمارا ساتھی ہے یا پھر دہشت گردوں کا .....طالبان دہشت گردوں کو ہمارے حوالے کردیں یا پھر اُنہی کے مقدر سے ہمکنار ہونے کیلئے تیار ہوجائیں۔“

نائن الیون کے بعد سابق امریکی شہنشاہ معظم جلالة الملک جارج ڈبلیو بش کی دلائل و استدلال سے عاری، مگر اشتعال و رعونت سے بھرپور یہ وہ تقریر ہے، جس نے اکیسویں صدی میں لامحدود عسکری قوت کے بل بوتے پر دنیا میں امریکی مظالم کا ایک نیا دیباچہ روم کیا، سچ ہے رعونت اور طاقت کا گھمنڈ جب اپنی انتہاؤں پر پہنچ جاتا ہے تو خون آشام بھیڑیئے اور فرعونی طاقتیں الفاظ کے معنی ومفہوم بدل کر نئی اصطلاحیں تراشتی ہیں، نئی ڈکشنری ایجاد کرتی ہیں اور طاقت، دھونس، بدمعاشی کی بنیاد پر اُسے کمزور و غریب ممالک پر لاگو کرتی ہیں، آج امریکہ نے جس چیز کو دہشت گردی کا نام دے رکھا ہے، ساری دنیا جانتی ہے کہ اُس کے اصل اور پس پردہ مقاصد کچھ اور ہی ہیں اور آج امریکہ دنیا میں جس آزادی، جمہوریت اور انسانیت اور انسانی حقوق کے تحفظ کی علمبرداری کا دعویدار ہے، اُس کے خون آمیز تجریدی نقوش سے ساری دنیا کے درو دیوار رنگین ہیں۔

آج بھی سابق صدر بش کی نفرت اور زہر میں بجھی تقریر کے دیباچے کو موجودہ امریکی انتظامیہ ایک باب کی شکل دے کر دنیا میں اپنی بے مہار سپر پاور ہونے کی” کتاب“ لکھ رہی ہے، نائن الیون کے بعد سے افغانستان، عراق اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی مظالم سے بھرے اِس تصنیف کے مسلسل نئے نئے باب لکھے جارہے ہیں اور ہر آنے والے دن کے ساتھ انسانی خون سے لبریز اِس خونی تصنیف کے صفحات میں اضافہ ہورہا ہے، یہ اضافہ اُس وقت تک جاری ہے گا، جب تک کہ سابق صدر بش کے ایجاد کردہ بیسویں صدی کے خونخوار نظریئے کے وارث دہشت گرد گروپ تلاش کر کے ختم نہیں کردیئے جاتے، گزشتہ دنوں ٹائم اسکوائر کے واقعہ میں ملوث امریکی شہری فیصل شہزاد کے حوالے سے پاکستان کے خلاف موجودہ امریکی شنہشاہ معظم اوباما (جن کے بارے میں ہماری خوش فہم اور فریب زدہ قیادت کو بہت امید تھی) کی چیلی اور دست راست ہلیری کلنٹن کی جانب سے دیا گیا بیان”مستقبل میں ٹائمز سکوائر جیسے واقعہ میں پاکستان سے تعلق پایا گیا تو اُسے اِس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے“ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی اور امریکی ارادوں کی ترجمانی کے ساتھ پاکستان کے خلاف امریکہ کے اصلی روپ اور مزموم عزائم کی عکاسی کررہا ہے،امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان ڈرائیونگ سیٹ پر ہے اور اِسے مزید اقدامات کرنا ہوں گے، اپنی دھمکی کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے موصوفہ نے یہ الزام بھی لگایا کہ پاکستانی حکومت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو جانتے ہیں کہ اسامہ بن لادن اور ملا عمر کہاں ہیں، دوسری طرف امریکی اٹارنی جنرل نے ٹائمز اسکوائر سازش میں پاکستانی طالبان کو ملوث قرار دیتے ہوئے شمالی وزیرستان میں بھی آپریشن کا مطالبہ کیا ہے۔

قارئین محترم جہاں تک ٹائم سکوائر والے واقعے کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ ڈرامہ صرف پاکستان کے خلاف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک سازش ہے، اَمر واقعہ یہ ہے کہ امریکہ جیسے ملک ( جہاں اسلحہ تو بہت دور کی بات ہے) میں ایک چاقو اور چھری کی فروخت کا بھی ریکارڈ رکھا جاتا ہو، وہاں اِس قسم کے دھماکہ خیز مواد تک فیصل شہزاد کی رسائی کیسے ممکن ہوئی اور یہ کیسے ممکن ہوا کہ فیصل شہزاد نے پنسلواینا ریاست کے ایک قصبے سے بم میں استعمال ہونے والے کیمیکل کی آٹھ بوتلیں خریدیں، اگر ایسا تھا تو اُس وقت اُس پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا گیا اور کیوں اسے یہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ کار کو دھماکے کیلئے تیار کر کے نیو یارک کے ٹائمز اسکوائر میں چھوڑ کر چلا جائے، اگر فیصل شہزاد کی ڈرامائی گرفتاری سے لے کر فرد جرم عائد کرنے اور اقرار جرم کرنے تک کے تمام حالات واقعات پر گہری نظر ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ ڈرامہ بش عہد کی واپسی اور پاکستان کو ڈو مور پر آمادہ کرنے کا نیا امریکی حربہ ہے۔

اِس سارے ڈرامے کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ بالفرض محال اگر ٹائم اسکوائر کا واقعہ حقیقت سے تعلق بھی رکھتا ہے تو اسے صرف فیصل شہزاد کا ذاتی فعل ہی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ امریکی شہریت رکھتا ہے اور ایک امریکی شہری ہونے کے ناطے اُس کے جرم کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر ہی عائد ہوتی ہے، پاکستان پر نہیں، لیکن اِس حقیقت کے باوجود امریکی وزیر خارجہ پاکستان کو دھمکیاں دے رہی ہے، اِس سارے قضیئے میں امریکی دھمکیوں سے یہ بات اور بھی زیادہ واضح ہوکر سامنے آ رہی ہے کہ ٹائم سکوائر والا واقعہ امریکہ کا اپنا تیار کردہ ڈرامہ ہے، جس کا مقصد پاکستان کو بلیک میل کر کے اپنے مفادات حاصل کرنا ہیں، دراصل امریکہ چاہتا ہے کہ قبائلی علاقوں اور افغان سرحدوں سے لے کر پنجاب اور پورے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ اس بہانے سے اسے پاکستان میں مکمل مداخلت اور ایٹمی اثاثوں تک رسائی کا موقع حاصل ہو سکے،مگر جب تک ایک بھی پاکستانی زندہ ہے، یہ امریکی عزائم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

آج ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں اور موجودہ حکمرانوں کی کمزوری و ڈھیل کا فائدہ اٹھا کر امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ بدو کے اونٹ کی مانند پورے کا پورا پاکستان میں داخل ہونا چاہتے ہیں، دوسری طرف حکمرانوں کی غلطیوں اور ناعاقبت اندیشی کے سبب ہم امریکی جال میں پھنستے جارہے ہیں، حال یہ ہوگیا ہے کہ امریکہ کے مطالبات مانتے مانتے آج ہم تباہی کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں، یہ انتہائی افسوسناک بلکہ تشویشناک صورتحال ہے کہ پرویز مشرف دور میں دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر پاکستان نے امریکی مفادات کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بن کر خود کو بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کا نشانہ بنوایا، ہزاروں بے گناہ انسانوں کی جانیں ضائع ہوئیں، ملکی معیشت کو 40 ارب ڈالرسے زائد کا نقصان پہنچا، لیکن اس کے باوجود آج امریکہ اپنے فرنٹ لائن اتحادی کے خلاف ایک خود ساختہ معمولی واقعہ کو بنیاد بنا کر بدترین دشمنوں جیسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے، اِن حالات میں ہمارا ارباب اقتدار سے سوال یہ ہے کہ امریکی ڈو مور کا سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ اور کب تک ہمارے حکمران عقل و خرد سے عاری قومی مفادات کے منافی فیصلے کرتے رہیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اب اپنے اصل عزائم کے ساتھ کھل کر سامنے آچکا ہے، وہ ہر حال میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے، اُس نے فیصل شہزاد کا تعلق پاکستانی طالبان کے ساتھ جوڑ کر اِس سارے معاملے کو ایک نیا رنگ دینے کی کوشش کی ہے، اِس کے حوالے سے جو باتیں منظر عام پر آر ہی ہیں، اُن کی روشنی میں تو ٹائم سکوائر کا نام نہاد واقعہ ممبئی حملوں کی طرح ہی خانہ ساز نظر آتا ہے، جس کا مقصد پاکستان پر ملبہ ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں، اسلیئے موجودہ امریکی روئیے سے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ فیصل شہزاد کے معاملے کو پاکستان پر دباﺅ ڈالنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے، اِس وجہ سے فیصل شہزاد کا معاملہ حقیقت سے زیادہ ڈرامہ لگتا ہے۔

دراصل امریکہ اور اُس کے حواری نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن و سکون ہو اور پاکستانی فوج اپنے اصل دشمن اور اہداف کی جانب متوجہ ہو،امریکی حکمت عملی یہی ہے کہ پاکستانی فوج کو اندرونی محاذوں پر الجھا کر رکھا جائے تاکہ وہ بیرونی محاذوں پر توجہ نہ دے سکے، چنانچہ جونہی وہ کسی علاقے کے آپریشن سے فارغ ہوتی ہے، اُسے ایک نئے علاقے میں آپریشن کے امریکی مطالبے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سوات کے بعد جنوبی وزیرستان اور اب شمالی وزیرستان اور عین ممکن ہے کہ عنقریب جنوبی پنجاب کی بھی باری آجائے، امریکہ چاہتا ہے کہ اب آگ و خون کی بارش کا کھیل قبائلی علاقوں اور پاک افغان سرحدوں سے نکل کر پنجاب میں داخل ہوجائے۔

ایک طرف جہاں امریکہ اور بھارت ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کیلئے ڈرامے رچا رہے ہیں، وہیں سب زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران امریکی احکامات اور ہدایات کی بجا آوری میں مسلسل سرتسلیم خم کرتے نظر آرہے ہیں، ماضی کے حکمرانوں کی ہوس اقتدار اور موجودہ حکمرانوں کے ذاتی مفادات نے امریکہ کو اتنی ڈھیل دے دی کہ اب وہ پاکستان کو کمزور کر کے اپنی کالونی بنانے کی سازشوں میں مصروف ہے، اِن حالات میں ضروری ہوگیا کہ امریکی کمبل سے جان چھڑالی جائے، فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کیا جائے اورایک ایٹمی قوت کے حامل، آزاد و خودمختار ملک ہونے کی حیثیت سے امریکہ پر واضح کردیا جائے کہ اب ہم تیرے مزید ناز نخرے اور نادر شاہی احکامات برداشت نہیں کریں گے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکی وزیر خارجہ اور دیگر آفیشل کے بیانات پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور واضح دھمکی کے مترادف ہیں، جس پر محض رسمی ردعمل کا اظہار کافی نہیں، ہماری حکومتی اور عسکری قیادت کو دو ٹوک الفاظ میں امریکہ کو باور کرانا ہوگا کہ وہ ہمیں اپنے لئے نرم چارہ نہ سمجھے، اگر اس نے ہماری سالمیت اور خود مختاری پر وار کرنے کی کوشش کی تو اسے لوہے کے چنے چبانا ہوں گے، جبکہ یہی وقت خود کو امریکی مفادات کی جنگ سے باہر نکالنے اور امریکہ پر یہ بات واضح کردینے کا ہے کہ اب امریکی خواہشات کی خاطر پاکستان کے امن و سکون، قومی سلامتی اور استحکام کو داﺅ پر نہیں لگایا جاسکتا۔

اِس نازک وقت میں ہمارے حکمرانوں کو کسی مجبوری اور پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہئے، کیونکہ اِس وقت امریکی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد پاکستان دشمنی کے معاملہ میں امریکہ اور بھارت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہو رہا، آپ کو یاد ہوگا کہ بھارت کی جانب سے بھی اسی طرح ممبئی حملوں کے خودساختہ ڈرامہ کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی سازش کی گئی تھی اور نئی دہلی میں بھارتی وزیر داخلہ چدمبرم کے پہلو میں بیٹھ کر امریکی وزیر داخلہ رچرڈ گیٹس نے بھی بھارتی زبان میں ہمیں یہی باور کرایا تھا کہ اگر اب بھارت میں ممبئی حملوں جیسا کوئی دوسرا واقعہ ہوا، تو بھارت خاموش نہیں بیٹھے گا اور اُس کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑے گا، بالکل اُسی طرح اور اُسی لب و لہجے میں امریکی وزیر خارجہ نے بھی ٹائمزاسکوائر کے نام نہاد واقعہ کوبنیاد بنا کر پاکستان کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اگر اب امریکہ میں ایسا کوئی واقعہ ہوا، تو پاکستان کو اِس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

زہر آلود رعونت میں ڈوبا اور اپنے حکم کا سکہ جمانے کیلئے بے تاب سابق صدر بش کا لب و لہجہ گوری میم کی آواز میں آج پھر ہماری سماعتوں سے ٹکرارہا ہے، نام نہاد مہذب دنیا کی طاغوتی طاقت امریکہ کے نیوورلڈ آرڈر کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، لمحہ فکریہ ہے خود فریبی اور خوش گمانیوں کے سراب میں مبتلا ہمارے حکمرانوں کیلئے.... کیونکہ کچھ بھی نہیں بدلا.....وہی رعونت، نفرت، بغض و عناد .....وہی الزامات در الزامات کے تیردشنام جو ہر سو بکھیرے ہوئے، ہمیں اِس حقیقت سے آگاہ کررہے ہیں کہ ہم زمانے بھر کیلئے خواہ کتنی ہی جنگیں کیوں نہ لڑتے رہیں، اُن کے حلیف اور فرنٹ لائن اتحادی کا کردار کیوں نہ ادا کرتے رہیں،لیکن ہمیں اپنی بقاء،سلامتی،تحفظ و استحکام اور عزت و وقار کی جنگ تن تنہا ہی لڑنا ہوگی۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 314105 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More