کراچی کے بلدیاتی فنڈز کی بندر بانٹ

پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا تھاکہ پی پی پی نے سندھ میں کھربوں روپے کے کام کرائے ۔ لاکھوں افراد کو روزگار دیا ۔ اسی طرح سندھ حکومت کا اب بھی یہی کہنا ہے کہ سندھ میں اربوں روپوں کے ترقیاتی کام سرکاری فنڈ سے کرائے گئے ہیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ کراچی کا اپنا فنڈ کہاں ہے اس سے کیا کام کرایا گیا ہے ، کراچی کی عوام کو تو چھوڑیئے سندھ کی حالات دیکھئے تو وہاں بھی اربوں روپوں کے کام نظر نہیں آتے ۔ آخر یہ اربوں روپیہ لگ کہاں رہا ہے ۔ بلکہ کراچی میونسپل کارپوریشن کے پاس موجود فنڈز ختم ہوچکے ہیں حکومت سندھ فنڈز کا اجرا نہیں کرتے جس کے سبب ایک ارب روپے سے زائد کے کام زیر التوا پڑے ہیں سڑکوں کی مرمت کا معاملہ ہو ، صفائی ستھرائی کے معاملات ہوں ، گاڑیوں کی مینٹینس کا معاملہ ہو ، کراچی میونسپل کارپوریشن دیوالیہ نظر آتی ہے کراچی شہر کھنڈرات اور گند کچرے کا شہر بنتا جا رہا ہے اور جہاں نظر دوڑائی جاتی ہے ، سبزہ زار کے بجائے کچرے کے ڈھیر اور ابلتے گٹر نظر آتے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق کے ایم سی کے پا س ترقیاتی کام مکمل کرنے والے ٹھیکداروں کو ادا کرنے کیلئے بھی رقم موجود نہیں ہے ۔جبکہ سنددھ حکومت نے ترقیاتی کاموں کی مد میں رقم ادا کرنی ہے جو کہ کے ایم سی کو بروقت نہیں مل پاتی اسی وجہ سے ایک ارب روپے سے زائد ترقیاتی کام التوا کا شکار ہیں۔عبرت ناک صورتحال یہ ہے کہ بلدیہ کو اپنے ترقیاتی کام کرانے کیلئے رقم کی اشد ضرورت ہے لیکن اٹھارہ نئے پراجیکٹس بھی فنڈز کی کمی کا شکار ہوگئے ہیں ، جبکہ دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 2016میں بھی ترقیاتی کام نہیں ہوسکے گاملک کو70فیصد ریونیو دینے والا اور حکومت سندھ کو 90 فیصد ٹیکس دینے والی عوام کی حالت زار عبرت کا نشان بن گئی ہے حکومتی وزرا ء بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے ، انھیں اس بات کا ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے کہ عوام کو سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے ان سے پوچھا جائے گا اس لئے بہتر یہی ہے کہ خاموش رہا جائے جیسے تمام مسئلوں کا حل صرف خاموشی ہے ، شائد یہ مفاہمتی پالیسی کے بعد خاموشی کوئی نئی پالیسی ہے۔ ہم کراچی کے جس علاقے میں چلے جائیں وہاں گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں ، صفائی کا انتظام ناقص ہے ، ترقیاتی کاموں کی اسکمیں زیر التوا ہیں ۔ نہ جانے فنڈز آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی وزیر بلدیا ت جام خان شورو کہتے ہیں کہ اداروں میں بھرتیاں اتنی زیادہ کردی گئیں ہیں کہ ملازمین کی تنخواہیں ہی پوری ہوجائیں تو یہی بہت ہیں ، بلدیات کہاں سے کام کرے واٹر بورڈ میں بلا جواز ہزاروں کی تعداد میں بھرتیاں کی گئیں ہیں اور بلدیاتی اداروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے موجودہ حکومت اور محکمہ بلدیات ایک دن میں تمام مسائل حل نہیں کرسکتے۔اس صورتحال میں ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈز کہاں سے لیکر آئیں ۔ جب میں نے فنڈز کی کمی حوالے سے متحدہ کے نامزد مئیر وسیم اختر سے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ : دراصل ایم پی اے ، ایم این اے کو فنڈ ملوث کرکے قانون سازی سے دور کردیا گیا ہے۔فنڈز کی بندر بانٹ ایک کلچر بن چکا ہے۔ یہ وڈیرانہ مائند سیٹ ہے ۔اگر میں سچائی کے ساتھ کہوں کہ پی پی پی میں کرپشن کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے پارٹی کا منشور ختم ہوچکا ہے ، بھٹو اور بے نظیر کے نظریات اب پارٹی کی پالیسی نہیں رہے بلکہ انھوں نے ممبران کو اپنی جانب راغب کرنے اور قابو کرنے کیلئے ، بلکہ ممبران کو سہولتیں دینے کیلئے ترقیاتی کاموں کے ذریعے کمیشن کا طریقہ کار رکھا ہوا ہے ۔ اگر ان کے یہ اختیارات ختم ہوگئے تو یہ پیسے کمائیں گے کیسے ؟موجودہ اسمبلیوں میں کم تعلیم یافتہ اراکین ہیں یہ قانون سازی کہاں کرسکتے ہیں۔وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ تعلیم یافتہ لوگ آگے آئیں۔یہ جاگیر دارانہ نظام ہے جس نے انھیں اپنے گرد اکھٹا رکھا ہوا ہے جب سے ملک بنا ہے وسائل پر غاصبوں کا قبضہ ہے۔ہمارا ماننا ہے کہ یہ کلچر ختم ہونا چاہیے کہ MPA یا MNAکو فنڈز کے چکر میں الجھا دیں تاکہ کرپشن کو فروغ ملتا رہے ۔ پی پی پی مکمل کرپشن زدہ ہوگئی ہے منتخب اراکین اپنے الیکشن کا خرچ نکالنے کیلئے فنڈز لیتے ہیں تاکہ یہ اپنے الیکشن کے خرچے پورے کریں۔ شہر کراچی کے ساتھ ان نا انصافیوں کا ذمے دار کون ہے ، کراچی کے عوام کس کو اس کا ذمے دار ٹھہرائیں ، معاملہ صرف کراچی کا ہی نہیں بلکہ پورے سندھ میں ہمیں فنڈز کی غیر مساویانہ تقسیم نظر آتی ہے ۔ وزیر اعلی سندھ بھی کراچی کیلئے اگر فنڈز جاری کرتے ہیں تو ایسے کراچی ڈویلپمنٹ فنڈ کا نام دیتے ہیں ۔پھر کراچی کا اپنا فنڈ کہاں ہے اس پر وزیر بلدیات اضافی بھرتیوں کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ لیکن ان تمام معاملات میں کراچی اور سندھ کی عوام فنڈز کے عدم فراہمی کے سبب کچلی جا رہی ہے ، عباسی ہسپتال جیسے ادارے میں مریضوں کے لئے سرنج تک میسر نہیں ، مخیر حضرات کے تعاون سے ہیسپتال چلا یا جارہا ہے ۔ نہ عوام کو صحت کی فراہمی کی سہولت ہے اور نہ ہی ماحولیاتی آلودگی سے نجات حاصل ہے ، سندھ میں غذائی قلت ہے تو شہروں میں ایمانداری کی قلت ہے۔ سائیں سرکار کو سوچنا چاہیے کہ عوام ایک نہ ایک دن ان سے ضرور پوچھیں گی کہ سائیں اربوں روپیہ کہاں گئے ؟ ۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی سیاست سے غرض ہے لیکن عوام کو سہولیات کی فراہمی کی ضرورت ہے کیونکہ حکومتوں اور ارباب اختیار کو ٹیکس بھی عوام دیتی ہے اور رشوت بھی مجبوری میں عوام کو یہ دینا پڑتی ہے ۔ ذرا عوام بھی غور کرے کہ این ایف سی ایوارد سے ملنے والی اضافی رقمبھی کن کھاتوں میں جارہی ہے ۔ کیا وزیر بلدیات درست کہہ رہے ہیں یا متحدہ کے رہنما کا کہنا درست ، کچھ فیصلہ تو کیجئے۔ بلدیات کے فنڈز کے بند بانٹ کا یہ کورگھ دھندہ کیا ہے ۔ کراچی میں بلدیاتی نظام کی مسلسل ناکامیوں کا ذمے دار فنڈز کی بندر بانٹ کا کلچر کب ختم ہوگا۔ان سوالات کے جوابات ہر ایک اپنی منطق کے مطابق دے گا لیکن بتانا تو ضرور ہوگا کہ کراچی کا فنڈ کہاں ہے ْ؟اس کا استعمال عوام پر درست کیوں نہیں ہوا ، کراچی کچرے اور گندگی کا ڈھیر کیوں بن گیا ۔فنڈز کی کمی کی اصل وجوہات کون فاش کرے گا عوام کو انتظار رہے گا ، شائد !!
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 662641 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.