دروازے پر ہلکی سی، ڈری ڈری سی دستک
ہوئی!
اندر بیٹھے صاحب نے اَپنی مصروفیت میں مخل ہوتے اس شخص کو بے دلی سے اَندر
آنے کو کہا۔
اَندر آنے والا شخص 15,16 برس کا ایک دبلا پتلا لڑکا تھا ۔اُس کے ہاتھ میں
ایک پرچی تھی جو اس نے ڈرتے ڈرتے اُن صاحب کو دے دی ۔ صاحب نے پرچی پڑھی
اور دو چار بار اس دبلے پتلے لڑکے کو دیکھا اور پھر اس سے کہا !
ٹھیک ہے ،آج سے تم اس دفتر میں فائلیں وائلیں سیدھا کرنے کا کام کرنا، ڈیلی
ویجز پر کام کرنے والے مزدوروں کی حاضری بھی تم لگایا کرو گے اور ہاں ضرورت
کے وقت چائے وغیرہ بھی سَر و کر دیا کرنا۔
لڑکے کی گو یا نوکری شروع ہو گئی تھی۔
چند روز گزرے تھے تو کسی اور صاحب نے تجویز دی ۔
یار ! یہ لڑکا دن کا بیشتر حصّہ فارغ رہتا ہے ، اس کو کسی کام پر لگاؤ ،اس
کو کوئی کرسی ،میز دے کر اس پر ایک کمپیوٹر رکھ دو ہم سب کے چھوٹے موٹے کام
کر دیا کرے گا۔
ونڈر فل ! صاحب نے تجویز سے اتفاق کیا ۔اگلے دن برآمدے کے ایک کونے میں ایک
کرسی میز کے ساتھ ایک پرانا کمپیوٹر رکھوا دیا گیا ۔
یہ اس کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔
اس نے اسی کمپیوٹر پر کمپوزنگ سیکھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر کسی کا
چھوٹا ،بڑے بڑے کام کرنے لگا ۔کمپیوٹر کی الف۔ب سے شروع کرنے والا یہ دبلا
پتلا لڑکا اَب بڑوں بڑوں کو پیچھے چھوڑنے لگا ۔
اس کی زندگی میں ایک اور موڑ آیا۔
اسی ملٹی نیشنل کمپنی میں ایک ایسی جاب آئی جس میں اس نے اپنے صاحب کی
اجازت سے اپنے آپ کو انٹر ویو کے لئے پیش کیا۔
گورے نے اس کی ڈگریوں کی طرف دیکھنے کی بجائے اس کی برق رفتاری سے چلتی
ہاتھوں کی انگلیوں کو د یکھا اور او۔کے کر دیا وہ لڑکا جو صرف فائلیں اِدھر
سے اُدھر لانے کا کام کرتا تھا ،حاضری لگاتا تھا اور چائے کے برتن صاف کیا
کرتا تھا ،اَب اسے ان فائلوں کے اندر لگے کاغذوں تک رسائی ہو گئی تھی ۔
چائے کے برتن بھی اب کوئی اور دھونے لگا اور وہ اپنے صاحب کے ساتھ اسی دفتر
میں کمپنی کا باقاعدہ ملازم ہو گیا ۔
اس کے اندر کے محنتی انسان نے ایک اور کروٹ لی اور اپنے نکھرتے فن کے ساتھ
ساتھ اس نے اپنی تعلیم بہتر کرنے کی طرف بھی توجہ دی ۔
فن اور تعلیم بہتر کرنے کا سفر جاری رہا۔
کمپیوٹر میں وہ بڑوں بڑوں کے کان کترنے لگا ۔اب ہر کوئی اس کی مثال دیتا
تھا، مشکل سے مشکل کام اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا۔
وقت کاپہیہ تیزی سے گھومتا رہا اور وہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھے پَل پَل
استعمال میں لاتا رہا ۔اُس ملٹی نیشنل کمپنی میں اس کا جادو سر چڑھ کر
بولنے لگا۔
وقت نے ایک اور کروٹ لی ۔
ایک عرب ملک میں ایک اور ملٹی نیشنل کمپنی میں ایک جاب آئی ،اس نے قسمت
آزمائی کا فیصلہ کیا ۔ وقت نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور وہ وہاں چلا گیا ۔
ایک سال کی جاب کے بعد وہ پھر پاکستان اسی کمپنی میں واپس آگیااور پھر سے
نئے آنے والوں کے لئے مثال بن گیا۔وہ پر اعتماد انداز میں سب کو گائیڈ کرتا
اور اپنی قسمت پر ناز کرتا تھا ۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی !
اس ملٹی نیشنل کمپنی کا بزنس پاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں پھیلا
ہوا تھا ۔ پاکستان سے اس نے چھلانگ لگائی اور باہر چلا گیا ۔
وہاں بھی اپنی محنت سے خوب نام کمایا۔
اس ملک سے اس نے ایک اور ملک کی اڑان بھری۔
اس کا سی۔ای۔او کسی دوسرے ملک میں اسی کمپنی کا سی۔ای۔او بن کر گیا تو اس
نے اسے وہاں بلا لیا۔
فائلیں ، وائلیں اکٹھی کرنے والا ٹی بوائے آج اَپنی محنت اور یکسوئی کے بل
بوتے پر ہزاروں ڈالر کی تنخواہ پر ٹیم لیڈر ہے۔ |