میلاد منانا عملِ توحید ہے:-
یہاں یہ نکتہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ میلاد منانا فی الواقع عملِ توحید ہے۔
یہ عمل ذاتِ باری تعالیٰ کو واحد و یکتا ماننے کی سب سے بڑی دلیل ہے کیوں
کہ میلاد منانے سے یہ اَمر خود بخود ثابت ہو جاتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے والے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
اللہ کا بندہ اور اللہ کی مخلوق مانتے ہیں۔ اور جس کی ولادت منائی جائے وہ
خدا نہیں ہو سکتا، کیوں کہ خدا کی ذات لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (نہ اس
سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے)(1) کی شان کی حامل ہے۔
جب کہ نبی وہ ذات ہے جس کی ولادت ہوئی ہو جیسا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام
کے حوالے سے سورئہ مریم میں اﷲ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا :
وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ. (2)
’’اور یحییٰ پر سلام ہو، اُن کے میلاد کے دن۔‘‘
(1) الاخلاص، 112 : 3
(2) مريم، 19 : 15
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :
وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ.
مريم، 19 : 33
’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن۔‘‘
تو میلاد منانا گویا نبی کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق قرار دینا ہے۔ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اَفضل و اَعلیٰ مخلوق اِس کائنات میں کوئی
نہیں۔ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد مناتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ
کی خالقیت اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخلوقیت کا اعلان کر رہے
ہوتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے۔ اِس سے بڑی توحید اور
کیا ہے؟ مگر اہلِ بدعت اِس خالص عملِ توحید کو بھی بزعمِ خویش شرک کہتے ہیں
جو کہ صریحاً غلط ہے۔
اِصلاح طلب پہلو:-
ہ بات خوش آئند ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیدہ رکھنے
والے اور جشنِ میلاد کے جلوس کا اِہتمام کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے اتنی محبت و عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ میلاد کی خوشیوں کو جزوِ
ایمان سمجھتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ درست اور حق ہے، مگر انہیں اس کے تقاضوں
کو بھی بہرحال مدنظر رکھنا چاہئے۔ کاش ان عقیدت مندوں کو بارگاہِ مصطفیٰ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
تعلیمات کا بھی کما حقہ علم ہوتا!
اس مبارک موقع کے فیوضات سمیٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے میلاد کی ان پاکیزہ محفلوں میں اس انداز سے شرکت کریں جس میں
شریعتِ مطہرہ کے احکام کی معمولی خلاف ورزی بھی نہ ہونے پائے لیکن فی زمانہ
بعض مقامات پر مقام و تعظیم رسالت سے بے خبر جاہل لوگ جشنِ میلاد کو
گوناگوں منکرات، بدعات اور محرمات سے ملوث کر کے بہت بڑی نادانی اور بے
ادبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جلوسِ میلاد میں ڈھول
ڈھمکے، فحش فلمی گانوں کی ریکارڈنگ، نوجوانوں کے رقص و سرور اور اِختلاط
مرد و زن جیسے حرام اور ناجائز اُمور بے حجابانہ سرانجام دیے جاتے ہیں جو
کہ انتہائی قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے اور ادب و تعظیمِ رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے سراسر منافی ہے۔ اگر ان لوگوں کو ان محرمات اور خلافِ
ادب کاموں سے روکا جاتا ہے تو وہ بجائے باز آنے کے منع کرنے والے کو
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ٹھہرا کر اِصلاحِ اَحوال کی
طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ اُن نام نہاد عقیدت مندوں کو سختی سے سمجھانے کی
ضرورت ہے ورنہ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان ادب ناشناس
جہلاء کی اِسلام سوز رسوم و رواج کے باعث پاکیزگی و تقدس سے محروم ہو کر
محض ایک رسم بن کر رہ جائے گا۔ جب تک ان محافل و مجالس اور جشن میلاد کو
ادب و تعظیم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں نہیں ڈھال لیا
جاتا اور ایسی تقاریب سے ان تمام محرمات کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا اس وقت
تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور خوشنودی
ہمارے شاملِ حال نہیں ہوسکتی۔ ایسی محافل میں جہاں بارگاہِ رِسالت صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے ادب سے پہلوتہی ہو رہی ہو نہ صرف یہ کہ رحمتِ خداوندی
اور اس کے فرشتوں کا نزول نہیں ہوتا بلکہ اہلِ محفل و منتظمینِ جلوس خدا کے
غضب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اس برائی کے خلاف کہیں آواز بلند کی جاتی ہے نہ
حکومت کی طرف سے حکمت یا سختی کے ساتھ اس قبیح روش کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔
مذہبی طبقے کی خاموشی کی سب سے بڑی وجہ (الا ماشاء اللہ) پیٹ کا دھندا ہے
جو ان قبیح رسموں کو روکنے میں آڑے آجاتا ہے۔ مفاد پرست حلقوں کی سوچ یہ ہے
کہ اگر ان غیر اَخلاقی و غیر شرعی اُمور کی سختی سے گرفت کی گئی تو شاید
جلسے جلوسوں میں ان علماء کی دھواں دھار تقریریں ختم ہو جائیں اور کاروباری
حضرات سے ملنے والے معاوضے اور چندے بند ہو جائیں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے
کہ مالی مفادات اور ان گروہی اور نام نہاد محدود مسلکی منفعتوں کی خاطر یہ
لوگ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقدس اور عظمت کو پامال کر رہے
ہیں۔
ایسے مواقع پر حکومت کو خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ ضروری
ہے کہ وہ ہر ممکن اِصلاحی تدابیر عمل میں لائے۔ کیا وجہ ہے کہ اَربابِ
اِقتدار یا سیاسی حکومت کے کسی لیڈر یا عہدے دار کے خلاف معمولی سی گستاخی
اور بے ادبی کرنے والے کو حکومت اپنی پولیس فورس کے ذریعے ڈنڈے کے زور سے
نہ صرف باز رکھتی ہے بلکہ معاملہ گھمبیر ہو تو قانون شکنی کرنے والوں کو
فوراً گرفتار بھی کر لیا جاتا ہے۔ مگر عرس اور میلاد جیسے موقعوں پر بدعمل،
اوباش اور کاروباری لوگ ناچ گانے اور ڈانس کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں،
میلے، تھیٹر اور سرکسوں کا انتظام ہوتا ہے، اَولیائے کرام کی پاکیزہ
تعلیمات کی دانستہ اور سرِبازار خلاف ورزی ہوتی ہے مگر معلومات کے باوجود
حکومت کوئی قانونی کاروائی نہیں کرتی۔ حکومت کے اَربابِ بست و کشاد نہ جانے
کیسے گوارا کر لیتے ہیں کہ باقاعدہ پولیس کی نگرانی اور اَمن و امان میں یہ
خلافِ شریعت اُمور ہو رہے ہیں۔ ایسے عناصر کو بزورِ قانون خلافِ شریعت
حرکات سے روکنا اَشد ضروری ہے۔
عرس کے موقعوں پر بزرگانِ دین کے مزارات پر آنے کا مقصد قرآن حکیم کی تلاوت
اور ان اولیائے کرام کی پاکیزہ تعلیمات سے بہرہ ور ہونے اور ان پر عمل کرنے
کا جذبہ ہوتا ہے۔ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس نعت خوانی،
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص و شمائل اور فضائل و مراتب کے بیان
اور جائز شرعی طریقے سے خوشیاں منانے کے لیے نکالے جاتے ہیں۔ مگر افسوس کہ
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمت روایات میں کھو گئی
اِقبال، کليات (اُردو)، بالِ جبريل : 416 / 124
کے مصداق دینی شعار کا کھلے بندوں مذاق اڑایا جاتا ہے اور حکومت اور اہلِ
فکر و نظر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔
اِفراط و تفریط سے اِجتناب کی ضرورت:-
بدقسمتی سے آج اُمتِ مسلمہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے : ایک طبقہ جشنِ
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سرے سے ناجائز، حرام اور بدعت کہہ
کر اِس کا اِنکار کر رہا ہے، جب کہ دوسرا طبقہ میلاد کے نام پر (اِلا ما
شاء اللہ) ناجائز اور فحش کام سرانجام دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں
کرتا۔ اُنہوں نے بہت سے ناجائز اور حرام اُمور کو داخلِ میلاد کر کے
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکیزہ تصور کو بدنام اور تقدس کو
پامال کردیا ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اِن
انتہاء پسند رویوں کے بین بین اِعتدال پسندی کی روش اِختیار کی جائے۔ ہم نے
میلاد اور سیرت کے نام پر مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کوئی
صرف میلاد کا داعی بن گیا اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔ میلاد کا نام
لینے والا سیرت سے کتراتا ہے اور سیرت کا داعی میلاد کو ناجائز کہہ کر اپنی
دانش وری اور بقراطیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ سوچ ناپید ہے کہ اگر میلاد نہ
ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی اور اگر سیرت کے بیان سے اِحتراز کیا تو پھر
میلاد کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے! بیانِ میلاد اور بیانِ سیرت دونوں
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے طریقے ہیں۔ دونوں ایک شمع کی کرنیں
ہیں۔ میلاد کو نہ تو بدعت اور حرام کہہ کر ناجائز سمجھیں اور نہ اِسے جائز
سمجھتے ہوئے اس کے پاکیزہ ماحول کو خرافات سے آلودہ کیا جائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی خوشی مناتے ہوئے محافلِ
میلاد میں محبت و تعظیم کے ساتھ باوُضو ہو کر شریک ہوں تو یہ اَفضل عبادت
ہے۔ میلاد کے جلسے، جلوسوں اور محافل میں سیرت کا ذکرِ جمیل کرنا، لوگوں کو
آقائے نامدار حبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سیرت و صورت اور
فضائل و شمائل سنانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور عشق کے
نغمے الاپنا ہر سچے مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے کہ اِسی میں پوری اُمتِ
مسلمہ کی کامیابی کا راز مضمر ہے اور یہی وقت کی سب سے اہم مذہبی ضرورت ہے۔
ملتِ اِسلامیہ کے واعظین اور مبلغین اگر میلاد اور سیرت کی دو بنیادی
حقیقتوں کو الگ الگ کر دیں گے تو عوام الناس تک کلمہ حق کیسے پہنچے گا؟
واعظین اور مبلغین اگر دین کا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و
رسالت کا تحفظ چاہتے ہیں تو یہ ان کی ذاتی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حتی
المقدور ناجائز اور خلافِ شرع بدعت، ہرقسم کے منکرات اور فحش اُمور کے خلاف
علم جہاد بلند کریں۔
حکومت کا فرض ہے کہ محافلِ میلاد کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے مداخلت کرے
اور عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر ناچ گانا اور دیگر
خرافات کرنے والوں پر قانونی پابندی لگا دے جس کی خلاف ورزی کرنے والے
عناصر کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں تاکہ جلسوں اور جلوسوں کا ماحول ہر
قسم کی خرافات اور غیر شرعی اُمور سے پاک رہے۔
اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق سے ہمارے حال
پر رحم فرمائے، ہمیں میلاد شریف کے فیوض و برکات سمیٹنے، اپنی زندگیاں
سیرتِ طیبہ کے سانچے میں ڈھالنے اور منکرات و فواحش سے بچنے کی توفیق مرحمت
فرمائے۔ (آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
ختم شد--- |