میں بھی ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں

سابق صدر جنرل ر پرویز مشرف نے پاکستان کو پتھر کے دور میں واپس بھیجنے کی دھمکی کے بعد ملی داخلی و خارجہ پالیسی جس تیزی سے تبدیلی کی اس نے فی الوقت تو پاکستان کو براہ راست سے جنگ سے بچالیا لیکن اس کے مضمرات نے پاکستان کا کوئی حصہ ایسا نہیں چھوڑا جس کا اثر عوام پر نہیں پڑتا ہو، سابق صدر کے کئے جانے والے تمام اقدامات غلط نہیں ہونگے لیکن کئی اچھائیوں پر ایک برائی پردہ بھی ڈال دیتی ہے ۔ پرویز مشرف نے حلف تو پاکستان سے وفاداری کا اٹھایا تھا لیکن سب سے پہلے پاکستان کے نعرے میں اتنے آگے بہہ گئے کہ اب انھیں سب سے پہلے اپنی جان بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں، نہایت عبرت کا مقام ہے کہ ایک ایسے ملک کے سابق سربراہ جو ایک اسلامی ایٹمی پاور ہونے کی بنا پر پوری غیر مسلم دنیا کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ، اس مملکت کا سابق صدر سیاست کے شوق اور اقتدار کی خواہش میں اس قدر آگے بڑھے گیا کہ آج اسی مطلق العنا ن آمر کو عدلیہ کے چکر لگانے پڑتے ہیں ۔عدلیہ میں درخواست دینا پڑتی ہے کہ بیماری کے سبب نہیں آسکتا ، جو کل تک کسی بھی وقت کہیں بھی سفر کیلئے بنا اجازت جانے کا موڈ رکھتا تھا اب ایسے باہر جانے کیلئے کبھی ماں کی بیماری کا سہارا چاہیے ہوتا تو کبھی کمر کے ان مہروں کی تکلیف کا جو میڈیکل بورڈ کے مطابق تھی ہی نہیں تو کبھی درد دل کی شکایت۔

سابق صدر ایک قابل احترام شخصیت اس وقت تک تھے جب تک ڈنڈا اور وردی کی ان کے ہاتھ میں تھی انھیں ملکی وقار کا خیال کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھے لیکن اب یہ سب کچھ قصہ پارنیہ بن چکا ہے ۔ جس طرح تاریخ میں آنے والے کئی آمروں کو تاریخ کے طالب علم پلٹ کر بھول جاتے ہیں اسی طرح پرویز مشرف کی اچھائیوں اور برائیوں کو بھی پاکستانی عوام بھول چکی ہے اور بھولتی جا رہی ہے ۔ بلا شبہ دنیا میں ایک مقام رکھتے ہونگے لیکن اب پاکستان کی عوام میں آپ کا کتنا مقام ہے یہ تو انتخابات میں واضح ہوگیا ہی ہوگا ۔ لیکن کچھ اچھائیوں کے ساتھ اب بھی کچھ لوگ ایسی پالسیوں کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس سے پاکستانی عوام مستفید ہوئی ہو ، جیسے بلدیاتی نظام ، مقامی حکومتوں کا جو نظام پرویز مشرف کی جانب سے دیا گیا تھا اس نے عوام اور اقتدار کو نہایت قریب کردیا تھا نچلی سطح پر اقتدار کی فراہمی کا اقدام معمولی نہیں تھا ، آج بھی پاکستانی عوام مقامی حکومتوں کیسابق نظام کو آج بھی لنگڑے لولے نظام سے بہتر سمجھتی ہے ، کسی بھی قانون کو بناتے وقت اچھائیاں برائیاں اور اپنے لئے سہولتوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے ، صرف یہ کہہ کر کہ یہ کسی آمر کا نظام تھا صرف نظر نہں کیا جا سکتا ، ملک میں تو ویسے بھی جمہوریت نہیں ہے ، جمہوریت ووٹ کے ذریعے چند لوگوں کو اکثریت کی جانب سے مسترد ہونے کے باوجود اقلیت کا اس کامیاب ہوجانا کیونکہ اس نے فردو احد کی حیثیت سے ووٹ زائد حاصل کئے تھے ، جمہوریت نہیں کہلائی جاتی۔پرویز مشرف کسی غلط فہمی میں پاکستان میں آئے یا قسمت انھیں لائی ، پرویز مشرف نے مقامی حکومتوں کا نظام اپنے مفاد کے لئے قائم کیا یا عوام کیلئے ،لال مسجد واقعہ ، بگٹی قتل کیس ، بے نظیر قتل کیس ، سمیت لاتعداد الزامات اس وقت تک رہیں گے جب تک ملکی عدالت فیصلہ نہیں دے دیتی ، غداری کے سرٹیکفیٹ تو بانٹنا ہماری روایت بن گئی ہے لیکن کسی جرنیل کی ذاتی غلطیوں کو فوج کی غلطی قرار نہیں دی جاسکتی ذاتی غلطی کو بھی اس وقت تک غلطی نہیں کہا جا سکتا جب تک عدلیہ ایسے غلط قرار نہ دے ۔ لیکن ایک ایسی غلطی جس کا خود مشرف نے اعتراف کیا کہ انھیں این آر او نہیں لانا چاہیے تھا ، آج ملک کی سیاسی حالات دیکھتے ہوئے تو یہ بیان اچھا لگتا ہے ، لیکن جب پاکستان اسلامی بن سکے اور نہ جمہوری تو نائب وزیر اعظم کا عہدہ بھی ایجاد ہونے میں وقت نہیں لگتا ، کیونکہ قانون گھر کی لونڈی بن جاتی ہے ، جب چاہیے اکثریتی اراکین سے اپنی مرضی کے مطابق شو آف ہینڈز کرالیا جب دیکھاکہ بات نہیں بن رہی تو خفیہ رائے شماری کرالی ۔ پرویز مشرف کے پاس ایک ایسی ٹیم ہے جو انھیں عوام کے قریب نہیں آنے دیتی ، ہماری عوام نے بڑے بڑے آمروں کو معاف کیا ہے ۔پرویز مشرف کی پالسیوں نے بلا شبہ اس وقت پاکستان کو بچایا ہوگا ، لیکن آج بھی ایک ایسا جرنیل ہے جس نے اپنی مدبرانہ پالسیوں کے سبب پاکستان کو یمن کی جنگ میں اپنی فوج کو جھونکنے سے بچایا ، ایران ، سعودی تنازعے میں اہم کردار ادا کیا ، مسلم سنی ممالک کے عالمی فوج کا ھصہ بنتے وقت پاکستان کے تحفظ کو مقدم رکھا ، بھارت اور افغانستان کی گیڈر بھبکیوں سے ڈرا نہیں، اس نے مکا نہیں دماغ لڑایا ، اس نے جنگ شطرنج کی بازی کی طرح لڑی اور شاہ کو مات دی مشرف آپ بھی یہ سب کچھ کرسکتے تھے ۔لیکن اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ جائیں کھیت۔سسٹم کے استحکام اور اچھی حکمرانی و انصاف صرف اسی صورت بحال رہ سکتا ہے جب قانون کا حترام تمام ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کریں۔ملک میں تبدیلی کے حوالے سے آئینی ترمیم کہ پھر موقع نہ ملے۔ جموری کینا پر سیاست دان قانون سے جو کھیلوار کر رہے ہیں دراصل وہ اس درخت کی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر وہ خود بیٹھے ہیں ۔ پرویز مشرف اب آپ کے جسم پر وہ وردی نہیں ہے یسے آپ اپنی کھال کہتے تھے۔ غلط خارجہ پالیساں تو آپ سے پہلے حکمرانوں نے آپ سے بھی بدتر کیں ہیں ، سرد جنگ میں افغان روس وار میں پاکستان جس طرح کودا اس آگ سے آج تک نہیں نکل سکا ، لیکن آپ اپنے خول سے باہر نکل آئیں ، غداری ، لاقانونیت آمریت اس پاکستان کی میراث بن چکی ہے یہ اس وقت واثق ہوجاتی ہے جب کوئی کنی کاٹنے کی کوشش کرتاہے۔مجھے ااپ سے کوئی ہمدردی نہیں ، مجھیپاکستان کے کسی جموہری یا آمر حکمران سے کوئی ہمدردی نہیں ، میرا اپنا آئیڈیل صرف خلافت راشدہ کا نظام ہے جس میں حکمران حکمران نہیں عوام کا حقیقی خدمت گار ہوتا ہے۔ اس کی دہلیز کے دروازے ہر کسی کے لئے کھلے ہوتے ہیں ۔ اس کی کمر پر اناج کی گھٹری لدی ہوتی ہے کہ قیامت کے دن اس کا بوجھ کوئی اور نہیں ایسے ہی اٹھانا پڑے گا ۔شاید ہم آپ کے مزاج کو نہیں سمجھ سکے لیکن پاکستانی قوم کے مزاج کو سمجھنے کیلئے آپ کو دقت نہیں ہوگی ۔خود کو قیصر پرویز نہ سمجھئے کہ قاصد کے نامے کو چاک کردیں ۔نامہ بر دراصل پیامبر ہوتا ہے ۔ وہ عوام کا پیام لیکر بند دریچوں سے اونچے فیصلوں میں چھپے ان لوگوں تک جانے کی کوشش کرتا ہے ، جو ڈر اور خوف کی حالت میں عوام سے دورہوگئے ہیں۔یہ کہنے سے کچھ نہیں ہوتا کہ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ۔ جو اﷲ تعالی کے بنائے ہوئے قوانین کو بنا ڈر توڑ ڈالے اور خوف خدا بہ ہو وہ کسی انسان سے کیا ڈرے گا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744566 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.