سلام شمالی کوریا
(Dr Khalid Hussain, Okara)
معاشرے میں انارکی کی فضا اس وقت
پیدا ہو تی ہے جب بڑے چھوٹے کیلئے الگ الگ قانون اور ضابطہ اخلاق ہو،جب
طاقتور کو رعائیت دی جائے تو اس سے ان کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور وہ پہلے سے
بھی خطرناک عزائم کے ساتھ میدان میں آجاتا ہے قانون کے بے رحمانہ نفاذ ہی
میں معاشرے کی عزت اور بقاء کا راز ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو ریاست ،معاشرہ
اور اداروں کو مضبوط بناتا ہے لیکن اگر قانون تو ہو اور نفاذ کے وقت اپنے
پرائے میں تمیز رکھی جائے تومعاشرے انارکی کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ
انارکی بڑے بڑے اداروں کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیتی ہے-
حیدر آباد جیل توڑنے کا منصوبہ افواج پاکستان نے ناکام بنادیا اور خاموشی
سے کاروائی کرتے ہوئے کراچی سے 97 دہشت گردوں کو گرفتار بھی کرلیا پاکستان
رینجرز بڑے زور شور سے کالعدم تنظیموں کے درمیان روابط کو توڑنے میں مصروف
ہے اور جس میں انہیں کافی بڑی کامیابیاں بھی ملی ہیں جیسا کہ موجودہ
کاروائی سے ظاہر ہوتا ہے ۔ خدانخواستہ اگر ان کا یہ پلان کامیاب ہو جاتا تو
یقیناعمر شیخ سمیت نا جانے کتنے نامی گرامی دہشت گرد آج پھر کھلی فضا میں
ہوتے اور پاکستان قانون ساز اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ثبت کر
دیتے۔وزیر اعلیٰ سندھ سے پوچھا جانا چاہئے کہ وہ رینجرز اختیارات کو توسیع
میں لیت و لعل سے کیوں کام لے رہے تھے اگر آج پاکستان رینجرز اور خفیہ
ایجنسیوں نے آنکھیں کھلی نہ رکھی ہوتی تو نا جانے کیا سے کیا ہو جاتا۔خدارا
ذاتی مفادات کی دوڑ سے نکل جائیں اور ملک کے لئے اچھے فیصلے کریں
کیوں آپ رینجرز کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں
کیوں انہیں کھل کر کام نہیں کرنے دے رہے،
کیوں رینجرز کے خلا ف میڈیا وار کی لا حاصل پریکٹس جاری ہے،
آخر ایسا کون سا خوف ہے، کونسا وہم ہے جو حکومت سندھ کو رینجرز اختیارات
محدود کر نے پر مجبور کر رہا ہے آخر وہ بیانات کہاں گئے جس میں بڑی بڑی
حکومتی شخصیات یہ کہتے نہیں تھکتیں کہ افواج پاکستان اور حکومت ایک صفحہ پر
ہیں۔کیا ایسے بیانات صرف دکھاوا کیلئے ہیں یا افواج پاکستان کو حکومتی
کرتوتوں میں حصہ دار شو کیا جا رہا ہے، کیونکہ جب دونوں ایک ہی صفحہ پر
دکھائی جار ہی ہیں تو یقینا عوام میں ایل این جی ، سٹیل مل، پی آئی اے،
میٹرو بس ،اورنج لائن ٹرین منصوبہ پر حکومتی لٹ مار سے کافی سارے سوالات
جنم لے رہے ہیں اور ان سوالات کا جوا ب کون دے گا۔اگر افواج پاکستان خاموش
رہتی ہیں تو کیا ان منصوبوں کی غیر شفافیت میں وہ بھی برابر کے حصہ دار ہیں
۔اب کچھ کر گزرنے کا وقت آن پہنچا ہے وطن عزیز ہم سے حب الوطنی کا تقاضا کر
رہا ہے ،علامہ اقبال کی سی خودداری مانگ رہا ہے آخر کیوں ہم ان مجرموں کی
خاطر اپنے آنے والے وقت کو خراب کر رہے ہیں وقتی مفادات کی خاطر اپنا
مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں ۔وقت آگیا ہے کہ کسی ماڈل کو، کسی گینگسٹرکو،
کسی سیاسی ، مذہبی گروہ کو، حکومتی مافیا کو معافی نہ دی جائے کیونکہ ہم
ایسا کر کے ان کی ذات پر احسان تو کر رہے ہیں لیکن اپنی آنے والی نسل کو ان
کے سپرد کر رہے ہیں جو رفتہ رفتہ کاروائیاں کرتے ہوئے اپنی قوت کا اظہار کر
کے معاشرے میں بے سکونی اور وطن عزیز کو دہشت گردوں کی آماجگاہ ثابت کر رہے
ہیں اور یہی ہنود یہود کا ایجنڈا ہے کہ پاکستان میں قانون نام کی کوئی شے
نظر نہ آئے غیر ریاستی عناصر کو مضبوط اور ریاستی عناصر کو غیر فعال شو کیا
جائے تاکہ بیرونی دنیا ایسے خطہ سے منہ موڑ لے جہاں ہر وقت مذہب اور سیاست
کے نام پر لڑائی جاری رہتی ہوں اور بے گناہوں معصوموں کے گلے سر عام کاٹے
جاتے ہوں جہاں کے سکول ایسے دکھائی دیں جیسے فوجی چھاؤنیاں ہوں ہر طرف
سنگینیوں کے سائے میں زندگی گزر رہی ہو ،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ
بیرونی ایجنڈا ہم اپنے ہی ہاتھوں سے پورا کر رہے ہیں ہم سے کسی کو جنگ کرنے
کی کوئی ضرورت نہیں نہ تو ہم دور اندیشی سے کام لے رہے ہیں اور نہ ہی ہماری
قیادت ایسا مظاہرہ کر رہی ہے ہر طرف رقم بناؤ کا ماحول ہے وزیر اعظم
پاکستان کے حالیہ دورہ قطر میں ایل این جی کا معاہدہ بھی مال بناؤ پروگرام
سے زیادہ کچھ نہیں جہاں ریاست کی اتنی اہم شخصیات ایسے کاموں میں پڑ جائیں
کہ اپنے ہی ہاتھوں سے قوم کو گروی رکھنے پر تلی ہوئی ہیں وہاں کسی دوسرے سے
کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ذرا سوچیئے تو سہی کہ وزیر اعظم اپنے خطاب میں کس
چیز کو اہمیت دے رہے تھے کہ ہر منصوبہ کیلئے پیسہ درکار ہوتاہے لیکن ہم نے
فیصلہ کرنا ہے کہ کس جگہ پیسہ لگایا جائے،تعلیم صحت روزگار کے منصوبے تو
حکومت کے آگے صفر ہو چکے صرف لاہور کیلئے سفری سہولیات کے لئے پنجاب بھر کے
محکموں کے فنڈز کو ان میں کھپایا جارہا ہے ۔بات ٹریک سے ہٹ گئی میں کہہ رہا
تھا کہ جب حکمران سوداگر بن جائیں تو ملک افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے ایل
این جی کا منصوبہ جس پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں کوئی پاگل کا پتر ہی ہو
گا جو اس کی حمایت کریگا کیونکہ جس معاہدہ میں ہم 10 سال تک عالمی ریٹس کے
حوالہ سے قیمتوں میں ردو بدل نہ کروا سکیں اور 15 برس تک قیمت ادا کرنے کے
پابند ہیں چاہے ایل این جی آئے نہ آئے ، جہاز ڈوب جائے ، عالمی ماحول میں
شدت کی وجہ سے درآمد رک جائے ،پائپ لائن کی خرابی ہو جائے تو جائے سب کچھ
بھاڑ میں ہم ادائیگی کرنے کے پابند ہیں اور جس معاہدہ میں سیف الرحمان ،
شاہد خاقان عباسی،اسحاق ڈار جیسی شخصیات ہوں تو آگے آپ خود سمجھ دار ہیں
آخر میں شمالی کوریا کو سلام کرتا ہوں کہ جنہوں نے فوجی سربراہ جنرل ری
پونگ کو بدعنوانی اور ذاتی فوائد کے حصول کا قصور وار ٹھہراتے ہوئے سزائے
موت دے دی یہ ہیں وہ معاشرے جن کو مذہب کی آڑ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ،جب
انصاف اور قانون کو گھر کی لونڈی بنا لیا جائے اور ذاتی مفادات ریاستی
مفادات سے بڑھ جائیں تو پھر تباہی مقد ر بن جاتی ہے۔ |
|