تھرپارکر:بھوک سے بلکتے، مرتے بچے....حکومت کہاں ہے؟

حکام کی لاپرواہی و عدم توجہی کے باعث ایک بار پھر تھرپارکر انتہائی سنگین حالات سے دوچار ہے۔ طبی سہولیات ناپید اور بھوک، غربت و افلاس اور بیماریوں کا بسیرا ہے۔ موت یہاں ڈیرے ڈال چکی ہے۔ غذائی قلت کے سبب روز متعدد بچوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہورہے ہیں۔ ذرایع کے مطابق تھر میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران مرنے والے بچوں کی تعداد دو سو سے تجاوز کرچکی ہے۔ اکثر تھریوں کی زندگی کا سامان گزربسر اور ذریعہ معاش مویشی ہیں، لیکن وہ بھی غذائی قلت کا شکار، جس سے مشکلات میں گھری زندگی مزید مشکلات کا شکار ہورہی ہے، جس کے پیش نظر مصیبت زدہ تھریوں نے اپنے مویشیوں کے ہمراہ قریبی علاقوں کی جانب ہجرت کرنا شروع کردی ہے۔ ان تمام حالات میں حکومت سندھ تھر میں غربت، بھوک، غذائی قلت کے اسباب کو ختم کرنے اور طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بجائے نت نئی تاویلیں کرنے میں مشغول ہے۔ حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ تھرمیں صورت حال اتنی خراب نہیں ہے، جتنی دکھائی جارہی ہے۔ حکومتی کی اس رویے پر اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ تھرپارکر میں معاملے کی سنگینی خوراک کے قحط سے زیادہ صاحب اقتدار طبقے میں احساس ذمے داری کے قحط کی وجہ سے ہے۔ سال گزشتہ سیکڑوں بچوں سمیت ایک ہزار افراد غذائی قلت سے لقمہ اجل بن گئے تھے۔ سال رواں بھی حکومت کی عدم توجہی کے باعث بھوک و افلاس کے سبب تھرپارکر میں موت کا رقص جاری ہے، لیکن حکومت ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔

تھر میں گزشتہ 3 سال کے دوران غذائی قلت، طبی سہولتوں کی کمی، حکام کی لاپرواہی اور وہاں کے منتخب نمائندوں کی جانب سے معاملات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بچوں کی اموات کا سلسلہ تیزی سے شروع ہوا جس نے انتہائی سنگین شکل اختیار کرلی تھی۔ ہر روز بچوں کی اموات کی خبروں نے پورے ملک میں تہلکہ مچادیا تھا۔ میڈیا پر خبریں آئیں تو سندھ حکومت کی آنکھیں کھلیں، حکومت نے اقدامات کرنے کے اعلانات کیے، لیکن یہ اقدامات وقتی ثابت ہوئے۔ گزشتہ برس بھی سندھ حکومت کی جانب سے تھر کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن اِن میں سے اکثر پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ صوبائی حکومت کی غفلت وکوتاہی کا ہی شاخسانہ ہے کہ تھریوں کو مسلسل غذائی قلت کا سامنا ہے اور سرکاری شفاخانوں میں عوام کو علاج کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ شفاخانوں میں کوالیفائڈ ڈاکٹرز کی کمی ہے ، جس کے باعث آج بھی وہاں اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ ذرایع کے مطابق تھرپارکر میں ڈیڑھ ماہ کے دوران مرنے والے بچوں کی تعداد دو سو سے زاید ہو چکی ہے۔ سندھ حکومت کی بے حسی کی وجہ سے تھرپارکر میں غذائی قلت کے شکار تھری مویشیوں کے ہمراہ بدین میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ تھرپارکر میں ساٹھ لاکھ سے زاید مویشی ہیں جن پر تھریوں کا گزر بسر ہوتا اور تھرپارکر کے لوگوں کا سب سے بڑا ذریعہ معاش بھی مویشی ہیں، مگر اس مرتبہ وقت سے پہلے ہی تھریوں نے چارہ ختم ہونے کے باعث بڑی تعداد میں اپنے مویشیوں کے ہمراہ قریبی علاقوں کا رخ کرلیا ہے، جہاں پر گھاس باآسانی تھریوں کے مویشیوں کو سستے میں مل سکے، جس کی وجہ سے بدین کے مختلف علاقوں میں تھریوں نے اپنے مویشیوں کے ہمراہ ڈیرے ڈال دیے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ تھر کے مسئلے کو حل کرنا حکومت سندھ کی ذمے داری ہے، لیکن حکومت ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں ہے۔ پی پی رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ تھر میں صورت حال اتنی خراب نہیں ہے جتنی دکھائی جارہی ہے۔ تھر میں پانی کی کمی نہیں ہے۔ زیر زمین 1.5بلین پانی کا ذخیرہ موجود ہے،اس کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے لیے 437 آر او پلانٹس قائم کررہے ہیں اور آئندہ چندماہ میں ان کی تعداد 700 تک پہنچادی جائے گی۔ تھر میں تمام آراو پلانٹس کو سولر نظام میں منتقل کردیا جائے گا اور شمسی توانائی سے ہزار سے1200گاﺅں کو بجلی فراہم کی جائے گی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ تھر کے حوالے سے اعلانات تو کرتی ہے، لیکن ان پر عمل نہیں کرتی۔ جب اب تک حکومت تھر کے عوام کی مشکلات کو حل نہیں کرسکی تو مستقبل میں اس سے امید کس طرح رکھی جاسکتی ہے؟پیپلزپارٹی گزشتہ 8 سال سے اقتدار میں ہے، اگر اس عرصے میں پیپلزپارٹی نے تھر کے عوام کے لیے کچھ کیا ہوتا تو آج تھر کی یہ صورتحال نہ ہوتی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ تھر کی ترقی کے لیے ایک جامع اور طویل المدت پالیسی تشکیل دی جائے، تھر میں بچوں کی جان بچانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ تھر خوبصورت علاقہ ہے اور معدنیات سے مالا مال ہے، لیکن موجودہ حکومت تھر کے عوام کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ اگر حکومت کچھ کر رہی ہوتی تو تھر میں قحط سالی ہوتی، نہ بچے مرتے۔ ناقص پالیسیوں کی وجہ سے صورتحال اس قدر سنگین ہوگئی ہے کہ اب صورتحال حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ ایک من گندم اور پانی کی4 بوتلیں تھر کے عوام کو دے دینا ان کے مسائل کا حل نہیں۔ تھرمیں کمیشن بنانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، بلکہ تھر کے عوام عملی اقدامات چاہتے ہیں۔ تھر کے مسئلے پر فوری آل پارٹیزکانفرنس بلائی جانی چاہیے۔ وزیراعلیٰ سندھ تھر کے لیے ہنگامی پیکیج کا اعلان کریں۔ تھر کے لیے صرف زبانی دعوے کیے جارہے ہیں، عملی کام نظر نہیں آرہا ہے۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو خدانخواستہ تھر میں آئندہ چند برسوں میں اموات میں اضافہ ہوسکتا ہے اور صورت حال حکومت کے بس سے باہر ہوجائے گی۔ صحرا تو ملک میں اور بھی ہیں، لیکن وہاں یہ مسائل پیدا نہیں ہوتے، جو تھر میں ہیں، اس کو حکومت کی نااہلی ہی کہا جاسکتا ہے۔ تھرکے مقامی لوگوں کو سندھ حکومت سے بہت امیدیں تھیں، مگر جوکام انھیں کرنا چاہیے تھا، وہ انھوں نے نہیں کیا۔سندھ حکومت کوجن محکموں سے تھرمیں کام لیناچاہیے تھا،وہ غیرفعال ہیں۔حد تویہ ہے کہ اس علاقے میں کوئی ڈاکٹرکام کرنے کے لیے تیارنہیں۔ وہاں فلاحی کام پرتوجہ نہیں دی۔ اس لیے آج سندھ کاحال دیگر صوبوں سے زیادہ بترہوگیاہے اورآج بھی سندھ حکومت اس پرتوجہ دینے پرغورنہیں کررہی ہے۔

گزشتہ سالوں میں بھی تھر کے باسیوں کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے باعث متعدد بچوں کی اموات واقع ہوئی تھیں۔ حکومت سندھ نے لوگوں کی غذائی قلت کو پورا کرنے لے لیے لاکھوں گندم کی بوریاں مفت تقسیم کیں، اس مرتبہ بھی حکومت سندھ نے کئی لاکھ گندم کی بوریاں مفت تقسیم کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ علاوہ ازیں تھر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے حکومت نے کروڑوں روپے کی لاگت سے آر او پلانٹ نصب کیے ہیں، تاکہ مکینوں کو صاف پینے کا پانی فراہم ہوسکے۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے بیماریوں پر قابو پانے میں بہت مدد مل رہی ہے۔ تھرمیں غذا کی کمی اورپانی کے علاوہ سب سے بڑامسئلہ ڈاکٹرزکی عدم دستیابی اورلیڈی ڈاکٹرز کا ہسپتالوں میں نہ ہونا ہے۔ تھر میں 200 کلو میٹر تک ہسپتال نہیں ہیں۔ تھر میں لوگوں کو سہولیات صحت اور غذا کی قلت کا سمنا ہے، لیکن حکومت مسلسل اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑا رہی ہے۔یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں قائم ہونے والی حکومتوں نے بھی اس علاقے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ تھر پاکستان کے قیام کے بعدسے اب تک سب سے محروم علاقہ رہاہے۔ قیام پاکستان سے قبل اس علاقے میں جوصورت حال تھی، آج اس سے زیادہ ابترہے۔ حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے کہ تھر کے مسائل حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے، بصورت دیگر تھر کے عوام کو قحط کی صورت میں کسی بڑے نقصان سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.