KPKمیں احتسابی اور بلدیاتی ادارے سازشوں کا شکار

کے پی کے میں نہایت عجلت اور بغیر کسی تیاری کے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروا کر PTIکی حکومت نے سونے کا تمغہ گلے میں ڈالنے کا دعویٰ کیا، بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دیئے گئے۔ لیکن بعد ازاں افسر شاہی کے دباؤ میں آ کر آئینی ترامیم کر کے اختیارات اس حد تک واپس لے لئے گئے کہ اب بلدیاتی نمائندے اپنے وجود اور سسٹم کو منوانے کیلئے جگہ بجگہ احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن نہ تو ان کا کوئی پرسان حال ہے اور نہ ہی انکے سسٹم کا یہی حال نمائندوں کا پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں بھی ہوا۔PTIکی جماعت اور انکے لیڈر عمران خان نے کڑے احتساب ، کرپشن کے خاتمے کیلئے اپنے صوبے میں حکومت قائم ہونے کے بعد صوبائی احتساب کمیشن کا قیام عمل میں لایا۔ بغیر کسی سیاسی دباؤ کے جنرل (ر) محمد حامد کی سربراہی میں چلنے والے اس احتساب کمیشن نے سیاستدانوں ، افسر شاہی، یونیورسٹیوں وغیرہ میں چند اچھی کاروائیاں بھی کیں اور کچھ کے خلاف ریفرنس تیاری کے آخری مراحل میں تھے کہ پھر دوبارہ عمران خان نے افسر شاہی اور سیا ستد انوں کے دباؤ میں آ کر احتساب کمیشن کے ایکٹ میں ترامیم کر کے ایک طرف تو کرپشن کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کا گلا گھونٹا گیا۔ دوسرے اپنے مخالفین خاص کر PML N کی توپوں اور میڈیا کا رخ اپنے طرف کر لیا۔ سوشل میڈیا پر بھی اس کاروائی کو تنقید کا سامنا ہے۔ بلا جواز ترامیم کے باعث صوبائی احتساب کمیشن کے DGجنرل (ر) محمد حامد نے اپنے عہدے سے استفیٰ دے دیا ۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب حکمران جماعت کے ضیاء اﷲ اور ساجد جدون کو کرپشن کے الزام میں پکڑا گیا تو افسر شاہی اور سیاستدانوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ کوئی ایسا قانون بنایا جائے جسمیں DGکے اختیارات کو کم کر کے کرپٹ سیاستدانوں اور افسر شاہی کے سروں پر جو تلوار لٹک رہی ہے اسے ہٹایا جاسکے اور وہ اسمیں کامیاب ہو گئے۔ جنرل حامد کے بقول جنہیں چند ماہ قبل سے اس کی بو آ رہی تھی نے عمران خان سے مل کر ان خدشات کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ افسر شاہی گھبرائی ہوئی ہے۔ اور وہ کام نہیں کر پا رہی۔ جنرل ریٹائرڈ محمد حامد کے بقول PTIکے اوپر اب جس طرح کا پریشر آ رہا ہے وہ سوچیں گے ضرور کہ ہمارا کرپشن کے خلاف جو نعرہ تھا اب ہم اسکے لئے عوام کے سامنے کیسے Justifyکریں گے۔ اگر عمران خان کی بات کا یقین بھی کرلیا جائے کہ افسر شاہی کے باعث ہمیں DGکے اختیارات کم کرنے پڑے تو پھر اسکا مطلب یہ ہوا کہ وہ بھی اس روائتی سیاست کا شکار ہو چکے ہیں۔ جو ماضی اور حال میں ہمارے سیاستدانوں کا وطیرہ رہی ہے۔ یعنی الیکشن منشور میں جو کچھ کہا جاتا ہے اسے الیکش کے بعد کھڈے لائن لگا کے کرپٹ سیاستدانوں اور افسر شاہی کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ عوام جائیں بھاڑ میں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت دہشت گردی نہیں کرپشن ہے۔ اس کے بارے میں سب سے زیادہ آواز بھی عمران خان نے ہی اٹھائی ہے اور یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ انکے صوبے میں کرپشن کا گراف اتنا اونچا نہیں ہے جتنا کہ دوسرے صوبوں میں ہے لیکن ابھی بھی بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے انکے اپنے مستفیٰ ہونے والے DGکا یہ دعویٰ کہ 100میں سے 60روپے کرپشن کی نظر ہو جاتے ہیں غور طلب ہے۔ پھر آخر عمران خان بیک فٹ پر کیوں چلے گئے۔ بلدیاتی نمائندوں اور DGکے اختیارات کے سلسلے میں انکا پیچھے ہٹنا انکی اور انکی جماعت کی ساخت کو بری طرح خراب کر چکا ہے۔ آج بھی انکے صوبے میں تقریباً سرکاری ٹھیکوں میں انکی جماعت کے ایم پی ایز، کارکن ،ڈائرکٹ یا ان ڈائرکٹ شامل ہیں۔ ٹھیکے ستر فیصد زیادہ نرخ پر دئے جا رہے ہیں بلدیاتی اداروں ایریگیشن، سی اینڈ ڈبلیو، صحت ، مال ، تعلیم، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن وغیری میں اقر باء پروری، ناانصافی و دیگر کرپش حسب سابقہ قائم و دائم ہے ۔ اینٹی کرپشن کا ادارہ اسی روائتی سستی اور ہٹ دھرمی کا شکار ہے انکی کاروائی کلرک ، چپڑاسی ، پٹواری تک محدود ہے۔ایسے میں اگر انکا اپنا قائم کردہ احتسابی ادارہ کچھ اچھے کام کر رہا تھاتو اسے روکنا دانش مندی کا فیصلہ ہر گز نہیں کہلائے گا۔ کڑے احتسابی نظام کے بغیر یہ ملک اور سیاسی جماعتیں ترقی نہیں کر سکتی۔ ہمارے ملک میں کرپشن کا ناسور بری طرح پھل پھول رہا ہے۔ لیکن ہمارے احتسابی ادارے عضو معطل بنے ہوئے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ خود کرپشن میں مبتلا ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ جب احتسابی اداروں میں ہر آنے والی حکومت اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر سیاسی بھرتیاں ، تقرریاں اور ترقیاں کرے گی تو بہتری کیسے آئے گی۔کرپشن کا خاتمہ یا سد باب کیسے ہوگا۔ جس طرح اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کے ادارے کسی بھی بڑے افسر کے خلاف کا روائی کے لئے (جو وہ شاذو ناذر ہی کرتے ہیں)اپنے اعلیٰ افسران سے اجازت لیتے ہیں اسی طرح کی ترامیم کے ذریعے اب کے پی کے احتسابی ادارے کو کسی بیوروکریٹ یا سیاست دان کے خلاف کروائی سے پہلے چیف سیکر ٹری کو اطلاع کرنی ہوگی۔ احتساب کمیشن کے مطابق یہ اطلاع کے بجائے اجازت ہے۔ اس ترمیم کے بعداحتساب کمیشن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے مخالفین کو زبان کھولنے کی اجازت دے دی۔ عمران خان جو پہلے اپنے احتساب کمیشن کی کاروائیوں کی تعریف اور کریڈٹ لیتے نہیں تھکتے تھے اب یہ کریڈٹ ڈسکریڈٹ میں تبدیل ہو گیا۔ پی پی پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے احتسابی ترامیم کے بعد موقع غنیمت جانتے ہوئے بیان داغاکہ صوبائی حکومت اور عمران خان نے احتساب کمیشن کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنایا انہوں نے صوبہ میں ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کی تعیناتی کو بھی بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے بر عکس قرار دیا جسمیں انہوں نے مذکورہ شخص کو عوام کی انکوائری کا کام سونپنے سے منع کیا تھا۔

ہمارے احتسابی اداروں کی کارکردگی تمام صوبوں میں ناگفتہ بہ ہے۔ انٹی کرپشن اور FIA کے ادارے عوام پہ بوجھ ہیں ان کے وجود میں آنے کے بعد سے کرپشن کو کنٹرول کی بجائے ان دو اداروں کے باعث کرپٹ اداروں، افراد کو کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ ایسے میں کے پی کے میں ایک آزاد احتسابی ادارے کا قیام عمرام خان کی حکومت کا بہترین کارنامہ تھا جس کے اچھے نتائج آرہے تھے۔ PTI کو ایسے ہی واضح تبدیلی کے اقدامات کی ضرورت بھی تھی لیکن جس طرح سے بلدیاتی نمائندوں اور احتساب کمیشن کو بے اثر کر دیا گیا ہے وہ اس بات کی علامت ہے کہ عمران خا ن بھی سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو رہے ہیں ان کے صوبے میں پولیس کے ادارے میں اچھے ایماندار افسران کی تعیناتیاں، DRC کا قیام نوکریوں میں کس حد تک میرٹ کو مدنظر رکھنا، قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے 50 کروڑ کے فنڈز کا قیام اور ماہانہ 30 ہزار روپیہ اعزازیہ، شجرکاری مہم ، محکمہ تعلیم، صحت، بلدیہ میں چند انقلابی اقدامات حوصلہ افزاء ہیں لیکن سیاستدان، افسر شاہی اور اداروں میں موجود کرپشن کا ختمہ کئے بغیر تبدیلی کے نعرہ کا دعویٰ مؤثر نہیں ہو سکتا اس کے لئے PTi کوئی ایسا نظام ادارہ وجود میں لانا ہوگا جو سیاسی مصلحتوں، اجازت ناموں اور پریشر سے آزاد ہو ۔
Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 138070 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.