ڈاکٹر طاہر القادری کسی تعارف کے محتاج
نہیں ہیں، ان کے والد ڈاکٹر فریدالدین 1918ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے ۔ انہوں
نے عربی و فارسی ادب، فقہ اسلامی اور تصوف و روحانیت کے حصول کے لئے
دنیابھر کا سفر کیا۔ انہوں نے لکھنؤ، حیدرآباد، دہلی، دمشق، بغداد اور
مدینہ منورہ سے اکتساب علم کیا۔وہ قیام پاکستان کی تحریک میں قائد اعظم
محمد علی جناح کے ساتھ بھی شریک سفر رہے ۔ڈاکٹر فریدالدین نے 2 نومبر 1974ء
کو جھنگ میں 56 سال کی عمر میں انتقال کیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری 19فروری 1951ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے تھے ۔1966ء میں
میٹرک کیا۔1969 میں ایف ایس سی(علاوہ ازیں 1963ء تا 1970 ء میں جھنگ سے درس
نظامی)۔ 1970 ء میں بی اے پرائیویٹ پاس کیا 1973 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے
علوم اسلامیہ میں ایم اے کیا۔1975 ء ایل ایل بی اور 1986 ء میں اسلامی
سزاؤں کے قانون میں(پی ایچ ڈی )کی ڈگری حاصل کی ۔
گورنمنٹ کالج میانوالی میں 1973 ء علوم اسلامیہ کے لیکچرر اور 1975 ء میں
استعفیٰ دے دیا۔1976 ء میں ایڈوکیٹ ڈسٹرکٹ کورٹ کے طورپر جھنگ میں پریکٹس
شروع کی ۔1978 ء میں لاہور منتقل ہوئے، پنجاب یونیورسٹی میں اسلامک لا
پڑھاتے رہے ۔1983 ء تک کوہاں پڑھاتے رہے ۔اسی سال حکومت پاکستان کی جانب سے
وفاقی شرعی عدالت کا مشیر فقہ نامزدہوئے ۔
وہ پاکستان میں اسلامی انقلاب کے خواہاں ہیں، اس کے لیے انہوں نے ایک بار
قرآن اور ایک بار اپنے مرشد کے ہاتھ پر اپنی زندگی اسلامی انقلاب کے لیے
وقف کرنے کا عہد کیا ۔ان کے مرشد کریم شیخ سید طاہر علاؤالدین القادری
الگیلانی کے ہیں۔جو سلسلہ نسب میں شیخ سید عبدالقادر جیلانی کی 17 ویں اور
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی 28 ویں پشت سے ہیں۔
اپنے عہد کی تکمیل کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری نے جہدو جہد کا آغاز 1976 ء
میں جھنگ میں نوجوانوں کی’’ تنظیم محاذ حریت ‘‘قائم کر کے کیا ۔پھر 1980 ء
میں’’منہاج القرآن‘‘ اسی تنظیم کا نیا نام رکھا ۔اور اس کا دائرہ کار
بڑھایا ۔آپ کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کی دنیابھر میں شاخیں ہیں، جو
تارکین وطن کی نئی نسل کو اسلام پر کاربند رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہی
ہے ۔
آپ نے 25 مئی 1989 ء کو پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد رکھی ،جس کا بنیادی
مقصد پاکستان میں انسانی حقوق و عدل و انصاف کی فراہمی ،تعلیم اور صحت کی
بنیادی سہولیات کی فراہمی،خواتین کے حقوق کا تحفظ ،کرپشن کا خاتمہ وغیرہ ہے
۔1990 ء میں پاکستان عوامی تحریک نے پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا ۔عوامی
تحریک کے پلیٹ فارم سے 1990 ء میں کوئی سیٹ حاصل نہیں کر سکے ۔لیکن 2002 ء
میں وہ اسمبلی میں پہنچ گئے ۔لیکن انہوں نے جلدہی استعفیٰ دے دیا۔ اسمبلی
سے استعفیٰ دینے والے آپ پاکستان کی تاریخ کے پہلے رکن ہیں۔ آپ نے 41 صفحات
پراس کی وجوہات بھی لکھیں کہ میں نے استعفیٰ کیوں دیا ہے ۔
آپ کے زیراہتمام لاہور میں ہر سال رمضان المبارک میں اجتماعی اعتکاف ہوتا
ہے ۔جسے حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف کہا جاتا ہے
۔
آپ کے ہی زیراہتمام لاہور میں مینار پاکستان کے تاریخی مقام پر ہر سال
میلاد کانفرنس منعقد ہوتی ہے ، کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی میلاد
کانفرنس ہے ۔
آپ کے قائم کردہ گوشہ درود میں لوگ سارا سال دن رات نبی اکرم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روئے زمین پر یہ ایسی واحد
جگہ ہے، جسے تاریخ میں پہلی بار ڈاکٹر طاہرالقادری نے قائم کیا۔
دنیا کا سب سے بڑا غیر سرکاری تعلیمی نیٹ ورک بھی آپ نے قائم کیا ہے ۔اس کے
تحت پاکستان میں 600 سے زائد تعلیمی ادارے قائم ہیں، جن کے نصاب میں دین و
دنیا اور موجودہ عہد کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے ۔
انہوں نے 1000 کے قریب کتب لکھیں ہیں اور اتنے کم عرصے میں اتنی تعداد میں
کتب لکھنا بھی ان کا شاندار کارنامہ ہے، جن میں سے 500 شائع ہو چکی ہیں،
باقی زیر طبع ہیں۔ان کی مشہور کتابوں میں سے ایک عرفان القرآن (اردو،
انگریزی ترجمہ قرآن مجید)ہے عرفان القرآن کے نام سے آپ نے قرآن مجید کا
سلیس اردو اور انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
وہ ترجمہ ہو کر تفسیری شان کا حامل ہے اور عام قاری کو تفاسیر سے بے نیاز
کر دیتا ہے ۔دوسری کتاب المنہاج السوی من الحدیث النبوی ہے ۔سیرت الرسول ﷺ
کے نام سے آپ کی تصنیف اردو زبان میں سیرت نبوی کی سب سے ضخیم کتاب ہے ۔جو
12 جلدوں پر مبنی ہے ۔ اس میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حالات
زندگی اور ان کی سیرت سے آج کے دور میں رہنمائی کے پہلوؤں پر کام کیا گیا
ہے ۔
علاوہ ازیں منہاج ویلفیئر فاونڈیشن کے تحت فلاح کا ادارہ کام کررہا ہے ۔
ان کے قائم کردہ ادارے سے منہاج القرآن اور دختران اسلام کے نام سے ماہنامے
شائع ہوتے ہیں ۔
انہیں 1994ء میں 130 سال عمر پانے والے چکوال کے معروف بزرگ سید رسول شاہ
خاکی نے پہلی بار اور بعد ازاں 2004ء میں عرب علماء کی طرف سے شیخ الاسلام
کا خطاب دیا گیا۔
موجودہ تاریخ میں کوئی ایک فرد اتنے مختصر وقت میں ہمہ جہت قسم کے اتنے
کارنامے سر نجام نہیں دے سکا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کس فرقے(مذہب،مسالک وغیرہ وغیرہ اسلام کی کسی بھی شاخ )
سے تعلق رکھتے ہیں، اس بارے مختصر لیکن دلچسپ صوررت حال درج ذیل ہے ۔ان کے
مخالفین ان کو بریلوی مسلک کا ایک عالم سمجھتے ہیں، حالانکہ ان کا کہنا ہے
کہ وہ فرقہ پرستی کے خلاف ہیں اور اہل سنت سے تعلق ہے ۔دیو بندی ان کو
بریلوی عالم کہتے ہیں، دوسری طرف بریلوی علماء نے ان کو اہل سنت جماعت سے
خارج قرار دیا ہوا ہے، ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے دیوبندی امام کے پیچھے
نماز پڑھنے کو جائز کہا ہے ۔یزید کو لعنتی کہنے پر ڈاکٹر ذاکر نائیک اور
ڈاکٹر اسرار احمد جیسے علماء نے ا ن کی مخالفت کی ہے ۔
ان پر بعض بے تکے الزام بھی ہیں، مثلاََ ایک الزام جو ان کے مخالفین لگاتے
ہیں کہ ڈاکٹر صاحب عیسائیوں سے بھی حسن سلوک کا کہتے ہیں اور شعیہ سے بھی
بعض علما ء نے اس پر ڈاکٹر پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہے وہ شائد اسکو
بھول جاتے ہیں کہ یہ تو سنت رسول ﷺ ہے۔
ان پر اہل سنت جماعت کی طرف سے بھی فتوی ہے کہ ان کی اقتدا میں نماز جائز
نہیں ہے وغیرہ ۔مزے کی بات ہے کہ بریلوی ،دیوبندی،اہل حدیث ،اور بعض شیعہ
علماء نے بھی ان کی مخالفت کی ہے ۔اس سے بھی زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ ان
کے مخالفین ان کو اپنے مخالف مسلک سے جوڑتے رہتے ہیں ۔
ایک طرف ڈاکٹر صاحب نے خود بے شمار کتابیں لکھیں، اسی طرح ان کے ناقدیں نے
بھی ان کی مخالفت میں بے شمار کتب لکھیں ۔ان کی مخالفت مذہبی طبقے کے ساتھ
ساتھ غیر مذہبی لکھاریوں نے بھی بے شمار کالم لکھے ،جن میں سے بہت سے محمد
نواز کھرل نے اپنی کتاب متنازعہ ترین شخصیت میں جمع کر دیئے ہیں ۔دوسری طرف
ادارہ منہاج القرآن کی طرف سے ہر الزام کے رد کے علاوہ دلائل سے مفصل جواب
دئیے گے ہیں ۔اس طرح جناب نواز کھرل کی کتاب کانام تو درست ہے۔ لیکن انہوں
نے یک طرفہ مواد ہی جمع کیا ہے ۔اگر وہ دونوں اطراف کے دلائل دیتے تو بہتر
ہوتا ۔ |