محمد شفیع خان (مرحوم)استاد محترم۔۔۔۔
(Abid Siddique, Rawalakot AJK)
’’ملتان میں کمال کی گرمی پڑتی ہے‘‘یہ وہ
الفاظ ہیں جو ہر روز اسکول میں دوران لیکچر ان کی زبان پر آتے تھے۔کلاس میں
بیٹھے ہر طالب علم کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ یہ الفاظ ان کی زبان پر بار بار
آئیں کیونکہ اس کے بعد وہ تیس منٹ تک ملتان پر ہی بات کیا کرتے تھے۔محمد
شفیع خان (مرحوم) صرف معلم ہی نہیں تھے بلکہ معاشرے کا ایسا آئینہ بھی تھے
جس میں سب کچھ واضع دکھائی دیتا تھا۔وہ گہرائی میں جا کر بات کرتے تھے اور
ان کی بہت ساری باتوں کی سمجھ ان کے شاگردوں کو اپنی عملی زندگی میں جا کر
آتی تھی۔ملتان کا تذکرہ درحقیقت ان کی زندگی میں گذرے ان لمحات کی عکاسی
کرتا تھا جو انہوں نے ملتان میں دوران تدریس گذارے تھے۔گھر سے بائر شاید وہ
پہلی بار ملتان ہی گے جس کا وہ ہمیشہ ذکر کرتے تھے۔
محمد شفیع خان (مرحوم) ہورنہ میرہ (پوٹھیر ) سے تعلق رکھتے تھے ،پیشہ کے
اعتبار سے وہ معلم تھے ۔ان کے والد محترم بھی اسی پیشہ سے وابستہ رہے یوں
یہ پیشہ انہیں وراثت میں ملا اور پھر ورثے میں چھوڑا بھی،وہ انگریزی کے
استاد تھے اور اپنے مضمون پر کمال کی گرفت تھی ۔وہ آج کے زمانے سے ہٹ کر
روایات کے عادی تھے ،ہر روز ڈیڑھ سے دو گھنٹے فالتو پڑھاتے تھے وہ اگر یہ
کہ دیں کہ کہ کل اسکول ٹائم سے ایک گھنٹہ پہلے پڑھانا ہے تو کسی بھی طالب
علم کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اسکول سے غیر حاضر ہو جائے۔کلاس میں وہ ایک
مخصوص انداز میں داخل ہوتے تھے ۔شلوار قیمض اور چپل پہنتے تھے اور چپل
پہننے سے لے کر قدم اٹھانے اور چلنے کا ایک مخصوص انداز ہوتا تھا جو باقی
اساتذہ سے نمایاں اور منفرد تھا۔کلاس میں آتے ہی وہ کلاس روم میں نظر
دوڑاتے تھے اور کئی میز سے یا زمین پر سے چاک کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں اٹھاتے
اور پھر اسے سنٹر سے توڑ دیتے تھے جس سے ایک آواز پیدا ہوتی تھی جو اکثر
خاموشی کو توڑتی تھی۔اپنے پاؤں سے تختہ سیاہ کے سامنے اپنے لیے رکھی گی
کرسی کو ہٹاتے تھے اور پھر وہ تختہ سیاہ پر کوئی ایک لفظ لکھتے تھے جس کے
گرد ہی ان کا پورا لیکچر گھومتا تھا۔خود ایک جگہ کھڑے ہو کر نہیں پڑھاتے
تھے بلکہ چکر کاٹتے رہتے تھے ۔کلاس پر ان کی کمال کی گرفت تھی ۔کوئی
طالبعلم اپنی توجہ ہٹانے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا ۔پڑھانے سے لے کر مار پیٹ
تک کا بھی ان کا اپنا ہی طریقہ ہوتا تھا ۔وہ اپنے شاگردوں کوہمیشہ بڑا آدمی
بننے کی تلقین کرتے تھے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی بہت خیال
رکھتے تھے ۔سزا دینے کے ان کے مختلف طریقے تھے ۔ایک بار ترنوٹی اور کوٹیڑہ
کے طلبہ کے درمیان کسی بات پر تلخی ہوئی اور شکایت ان تک پہنچ گئی ۔ان
علاقوں کے طلبہ کے بارے میں ان کی پہلے سے ہی رائے کوئی اچھی نہیں تھی۔کہنے
لگے کہ اپ سب مغرب کی طرف منہ کر کے کلاس روم کے دروازے میں کھڑے ہو جائیں
۔سب سے آگے کوٹیرہ کے لڑکوں کو کھڑا کیا کیونکہ وہ قد بت سے بڑے لگتے تھے ۔پھر
ترتیب سے باقی کھڑے ہو گے۔سب سے پیچھے والے کو کہا کہ اب تم دھکا دو ۔جب
پیچھے والے نے دھکا دیا تو سب ایک دوسرے پر گر پڑے تو کہنے لگے کہ ’’تم سب
دھکا اسٹارٹ ہو،جا تینوں رب دی آس‘‘اس کے بعد کبھی پھر یہ نوبت نہیں آئی
لیکن کئی بار یہ احساس ضرور دلایا کہ ’’جا تینوں رب دی آس‘‘ان ٹرکوں کے
پیچھے لکھا ہوتا ہے جو کٹھارہ ہوتے ہیں اور لمبے روٹ پر چلتے ہیں ۔ان کی یہ
بات مجھے اب تک یاد ہے اور وہ طالب علم جن کے بارے میں وہ یہ کہتے تھے
واقعی دیار غیر ’’لمبے روٹ‘‘ پر ہی چلتے گے۔
آپ کے ہزاروں کی تعداد میں شاگرد رہے ہیں ۔انگریزی زبان وادب اپ کی پہچان
بن چکا تھا اور آپ یہی نہیں کہ کلاس میں بلکہ چلتے پھرتے بھی یہ کوشش کرتے
تھے کہ کوئی ان سے کچھ سیکھ لے۔آپ کا سلام کرنے اور دوسروں سے اظہار تعلق
کا بھی طریقہ قدرے مختلف تھا۔اپ کو جس کسی کے ساتھ کچھ لگاؤ ہو جاے خاص کر
اپنے شاگردوں میں سے، تو اپنے ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی اس کے ہاتھ دے کر
اپنا ہاتھ کچھ ہوا میں رکھ لیتے تھے ۔ساتھ چلنے والے کی اتنی ہمت نہیں ہوتی
تھی کہ وہ از خود اپنا ہاتھ چھوڑا لے جب تک اپ خود اس بات کا اشارہ نہ دیں
۔یہ آپ کی شخصیت کا کمال تھا کہ آپ کے شاگردوں میں سے کوئی آپ کے سامنے
بولنے کی جرات نہیں کرتا تھا ۔لیکن آپ بہت خوش ہوتے تھے جب آپ کے علم میں
یہ بات آئے کہ آپ کا کوئی شاگرد کسی بڑے عہدے پر پہنچ گیا یا وہ کوئی بڑا
کام کر رہا ہے۔2004 میں’’دھرتی ‘‘ جب ماہانہ میگزین تھا تب وہ ہمارے دفتر
آئے اور آتے ہی کہا کہ ’’چائے کہاں سے منگواتے ہیں ‘‘ میں نے کہا کہ آپ
تشریف رکھیں میں منگوا دیتا ہوں ،کہنے لگے نہیں چائے کے پیسے میں خود دوں
گا تب منگوائیں گے ،چائے آئی تو اس وقت تک نہیں پی جب تک پیسے دیتے ۔کہنے
لگے کہ ’’میرے شاگردوں میں سے اس فیلڈ میں کم آئے تھے لیکن آج مجھے خوشی
ہوئی کہ نالائق شاگرد نے بھی لائق کام شروع کیا‘‘۔پھر میری حوصلہ افزائی کی
اور کہنے لگے کہ’’ رک نہیں جانا آگے بڑھنے کے لیے جینا‘‘۔جب روزنامہ دھرتی
شروع کیا تو پھر ان کے جذبات اسی طرح کے تھے اور کئی بار اچھے اچھے مشورے
دیے ۔ کہتے تھے کہ اداریہ مشاورت کے بغیر نہیں لکھا جاتا اس بات کا خیال
رکھنا۔وہ ’’دھرتی ‘‘ کے پہلے دن کے قاری تھے اور وفات سے چھ ماہ قبل تک
بلاناغہ پڑھتے رہے۔طویل عرصے تک علیل رہے لیکن وہ تھے بہت باہمت ،بیماری کا
ڈٹ کر مقابلہ کیا اور گذشتہ ہفتے قضائے الٰہی سے رخصت پا گے ۔دعا ہے کہ
اللہ تعالیٰ انہیں جنتالفردوس میں جگہ عطا کرے اور لواحقین کو صبر وجمیل
عطا ہو۔ |
|