آئیں ،اس ترقی کا جشن منائیں!
(Shafique Shakir, Hyderabad)
آجکل ایک بات جس کا پاکستان میں سرکاری طور پر خوب چرچا ہے وہ یہ کہ " پاکستان شاندار ترقی کی سیڑھیاں پار کر چکا ہے۔" اب خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ لیکن جب بار بار یہ الفاظ ہمارے کانوں سے ٹکراتے ہیں تو ہمیں اپنی آنکھوں کی بصارت کی کمزوری کا وہم سا ہونے لگتا ہے کہ اگر آنکھوں کا نور سلامت ہے تو پھر ہمیں ترقی کی یہ خوبصورت دیوی کہیں نظر کیوں نہیں آتی!ج |
|
|
معلوم نہیں یہ کہاوت کس نے مشہورکردی کہ
"جھوٹ کے پاوَں نہیں ہوتے۔" ہمارے ہاں تو جھوٹ کے پاوَں بھی ہوتے ہیں اور
بڑے مضبوط ہوتے ہیں جن سے وہ پہلے کے قائم تمام خطوط کو مٹا کر آگے بڑھ
جاتا ہے۔آجکل ایک بات جس کا پاکستان میں سرکاری طور پر خوب چرچا ہے وہ یہ
کہ " پاکستان شاندار ترقی کی سیڑھیاں پار کر چکا ہے۔" اب خدا بہتر جانتا ہے
کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ لیکن جب بار بار یہ الفاظ ہمارے کانوں سے ٹکراتے ہیں
تو ہمیں اپنی آنکھوں کی بصارت کی کمزوری کا وہم سا ہونے لگتا ہے کہ اگر
آنکھوں کا نور سلامت ہے تو پھر ہمیں ترقی کی یہ خوبصورت دیوی کہیں نظر کیوں
نہیں آتی!جناب وزیراعظم بھی ترقی کی نوید سنارہے ہیں، ہمارے انتہائی نیک
وزیر خزانہ بھی وہی بات کررہے ہیں، سندھ کے دو سادات سید قائم علی شاہ اور
سید مرادعلی شاہ صاحب بھی سندھ میں ہونے والی تاریخی ترقی کی بشارتیں دے
رہے ہیں۔اب بھی اگر ہم جیسوں کو ملک میں کوئی ترقی نظر نہیں آرہی تو پھر
اپنی آنکھیں چیک کروانے کا مشورہ اتنا نامعقول بھی نہیں۔اور مزید یہ کہ بعض
عالمی ادارے بھی تو ترقی کے ان دعوائوں پر مہر تصدیق ثبت کررہے ہیں جن
اداروں کے پولز اور سروے کے نتائج بلا قیمت عوام سے شیئر کیے جارہے ہیں جو
یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان اس وقت ترقی کے سنہرے دور سے گذررہاہے۔پھر بھی
عوام کو اگر اس ترقی کی جیتی جاگتی تصویر نظر نہیں آتی تو اسے حکمرانوں کو
کوسنے کی بجائےاپنے دماغ یا آنکھوں کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔دوسری طرف
پاکستان میں غربت کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی خبریں اور سپریم کورٹ میں
جج صاحبان کے ریمارکس ایک اور ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔لیکن ہمارے حکمران بضد
ہیں کہ پاکستان میں ریکارڈ ترقی ہوئی ہے۔یہ کونسی ترقی ہے جس میں تمام قومی
ادارے نیلام کرنے پڑجارہے ہیں۔اگر ترقی ہوئی ہے تو عالمی مالیاتی اداروں کے
سامنے مزید قرضوں کے لئے کیوں دامن پھیلایا جا رہا ہے۔یہ کونسی ترقی ہے جس
میں غریب لوگوں کے لئے دوائیاں مہانگی کردی گئی ہیں۔غریب عوام پر نت نئے
ٹیکس اس لئے لگائے جارہے ہیں کہ یہی حقیقی ترقی ہے۔یہ ترقی کی کونسی قبیل
ہے جس میں تھر میں روزانہ کئی معصوم بچے بھوک سے سسک کر دم توڑ دیتے
ہیں،بوڑھے شناختی کارڈ حاصل کرنے لئے بنی قطاروں میں کچل کر موت کارڈ لے
لیتے ہیں۔ملک میں ترقی ہے تب والدین بے روزگاری اور بھوک سے تنگ آکر اپنے
ہی جگرگوشوں کا گلہ گھونٹنے پر مجبور ہیں۔کتنے ہی انسانی وجود معاشی بدحالی
سے شکست کھاکر اپنی ہی آنتوں میں خود زہر انڈیل دیتے ہیں۔یہ کونسی
دیومالائی ترقی ہے جو ہونے کے باوجودکہیں ڈونڈھےنظر نہیں آتی۔یہ ترقی کا
کونسا ماڈل ہے جس میں عالیشان میٹرو شاہراہوں کے کنارے ہی موجود گٹر اپنے
ڈھکنوں سے محروم روزانہ کسی نہ کسی معصوم کو نگل لیتے ہیں۔ترقی کی یہ
انوکھی قسم جس میں اورینج ٹرین جیسے شاہی منصوبوں پر تو ارب روپے خرچ ہورہے
ہیں مگر کسی گاوَں کی ہسپتال میں سانپ ڈسنے کے علاج کے لئے ٹیکا میسر نہیں
بے رحم بھوک کے وکڑ سے بدحال کوئی آدمی بڑی حسرت سے ترقی کی اس خوبصورت
دیوی کو تک رہا ہے جس کے پاس اس کے پیٹ کے دوزخ کو بجھانے کا کوئی سامان
نہیں۔سردی سے ٹھٹھرنے والا قمیص سے محروم بچہ اس ترقی کو گھورتا ہی جارہا
ہے جس میں اس کے لئے تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا اور سر چھپانے کے لئے چھت
نہیں۔چھوٹے شہروں اور دیہات کی ٹوٹی ہوئی بدنصیب سڑکیں اس عظیم الشان ترقی
پر محو رقص ہیں جس میں ان کی مرمت کے لئے کوئی رقم نہیں۔دیہات تو کیا شہروں
کے لوگ اکیسویں صدی میں پینے کا پانی تلاش کررہے ہیں جسے بھی موجودہ ترقی
کا راکاس نگل گیا ہے۔دیہات کے سکول اور ہسپتال آثار قدیمہ کا منظر بنے اس
شاندار ترقی کے گیت گارہے ہیں۔پھر جب ترقی مکمل ہوگئی تو پی آئے اے کا کیا
کام ؟ اسے بیچ دینا ہی کار خیر ہے جو ترقی کی وجہ سے ہر پاکستانی کے ہاتھ
میں اب ایک جہاز ہے۔جب مکمل ترقی کے سبب آئندہ کئی صدیوں تک کسی منصوبے کے
لئے لوہے کی ضرورت ہی نہ رہی تو پاکستان کی اکلوتی اسٹیل مل کے نخرے کیوں
اٹھائیں،اسے بیچ دینا ہی کار ثواب ہے۔جب ملک بجلی کے معاملے میں اس ترقی کی
وجہ سے خود کفیل ہو چکا اور چور چکی عوام تمام فضول بجلی پانی کے بجائے پی
جاتی ہے تو حیسکو،فیسکو اور کیسکو وغیرہ کے پاپڑ حکومت کیوں بیلے۔اچھا ہے
کہ اونے پونے بیچ کر اجر عظیم کمایا جائے۔جب ایل پی جی ترقی کی وجہ سےقطر
سے نازل ہونے کو ہے تو او جی ڈی سی ایل کے بقیہ شیئر حکومت کے پاس رکھنے کی
کیا منطق! جتنا جلد ہوسکے بیچ کر کلمہ شکر پڑھا جائے کہ شاندار ترقی کی وجہ
سے اب ہمیں تیل اور گئس جیسی فضول چیزوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔اسلام آباد
میں موجود کنونشنل سینٹر جیسی دقیانوسی چیزیں پسماندہ قوموں کی میراث ہوا
کرتی ہیں، ہم جیسی ترقی یافتہ قوموں میں ایسی فضول چیزوں کا کیا کام! اس کو
بیچنا ہی حقیقی ترقی کا تقاضا ہے۔سرکاری اسکولوں کو بھی اب بیچ دینا ہے جو
غریبوں کے تمام بچے علم و تحقیق کی تمام بلندیاں پا چکے مزید تعلیم کی اب
ضرورت فی الحال باقی نہیں رہی۔پھر بھی اگر کوئ غریب اپنے اولاد کی مزید
تعلیم کا فضول شوق رکھتا ہو تو ترقی کی وجہ سے اس کے پاس اتنا طلسمی خزانہ
آگیا ہے کہ وہ پرائویٹ اسکولوں کی گردن ٹوڑ فیسیں آرام سے برداشت کر سکتا
ہے۔رہا معاملہ سرکاری ہسپتالوں کو بیچنے کا تو اس میں کون سی عربی اور
فارسی ہے جو سمجھ میں نہیں آرہی۔موجودہ ترقی عوام کی صحت پر کوئی آنچ نہیں
آنے دیگی۔ویسے بھی کہاوت ہے کہ " صحت ہزار نعمت ہے۔" سو عوام کو اپنی صحت
کے لئے اگر ہزاروں روپے نجی ہسپتالوں میں خرچ کرنا بھی پڑیں تو کونسی قیامت
آجائیگی! جان تو آخر اپنی ہے۔ویسے آبادی پر کنٹرول بھی تو ترقی کا بنیادی
تقاضا ہے،یہ پاکستانی قوم ایسی ہٹ دھرم ہے کہ ویسے تو یہ اس اصول پر عمل
کرتی ہی نہیں ، سرکاری ہسپتالیں بیچ دینگے تو آبادی پر کنٹرول خود بخود
ہوجائیگا۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری! کچھ دنوں کے بعد شاید یہ
خوشخبری بھی ہماری سماعتوں میں رس گھولے کہ ہماری تازہ ترقی کی وجہ سے اب
ہمیں چاند پر جانے کی ضرورت نہیں ،چاند خود ہمارے پاس آجائیگا۔
پاکستان کی پوری رعایا کو بشمول میرے یہ عظیم طلسماتی ترقی مبارک ہو، آئیں
اس شاندار ترقی کا جشن منائیں!
|
|