عوام سب کچھ سمجھ گئے
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
نئی حکومت نے آتے ہی منادی کی کہ ہم کرپشن
کا خاتمہ کر دیں گے ۔ توانائی کا بحران ٹال دیں گے ۔ہم ملک میں شہد کی
نہریں بہا دیں گے ۔ ہم ملک کا خزانہ لوٹنے والوں کا سخت احتساب کریں گے ۔
کسی کو ملک کا خزانہ لوٹنے نہیں دیں گے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ تو معمول کی
باتیں تھیں ۔ جو ہر آنے والی حکومت اپنی سیاست پر چار چاند لگانے کے لیے
اور عوام کے دل جیتنے کے لیے کیا کرتی تھی ۔ لیکن اہل ِ بصیرت جانتے تھے کہ
کچھ نہیں ہونے والا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہی رہے گا ۔ کچھ نہیں بدلے گا ۔
کرپشن اور لوٹ مار جوں کی توں جار ی رہے گی ۔ کیوں کہ یہ مسئلہ تو کئی
سالوں پرانا تھا ۔ ہر حکومت آنے سے پہلے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے دعوے کرتی
۔ لیکن جب وہ حکومت رخصت ہوتی تو یہ کرپشن پہلے سے بڑھ چکی ہوتی ۔ اس لیے
اب کی بار بھی سلجھے ہوئے لوگ سمجھ چکے تھے کہ یہ مسئلہ بالکل ختم نہیں
ہوگا ۔ چاہے اس کے لیے جتنی بھی باتیں کی جائیں ۔
بہر حال ۔۔۔ نئی حکومت نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو اس نے احتسابی ادارے
کو حکومت کی مخالف جماعتوں کی تحقیقات اور جانچ پڑتال پر لگا دیا ۔ اس
احتسابی ادار ے کو اختیارات دیے گئے کہ وہ مخالف جماعتوں کے معزز لوگوں کی
بد عنوانیوں کے سلسلے میں خوب چھین بین کرے ۔ تاکہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ
ہو ۔ دیانت داری کے چرچے ہوں اور ہر کوئی حکومت کی امانت داری پر واہ واہ
کرے ۔ حکومت پر داد و تحسین کی بارشیں ہوں اور اس کی عوامی پذیرائی میں دن
دوگنی رات چوگنی ترقی ہو ۔ احتسابی ادارے نے خوب تحقیقات کیں ۔ حکومت مخالف
جماعتوں کے کئی لوگوں کی مالی بد عنوانی کے پول کھولے ۔ جس پر مخالف
جماعتیں چیخنے لگیں ۔ یہ چیخیں حزب اقتدار جماعت کو خوش گوار محسوس ہونے
لگیں ۔ کیوں کہ مخالف چیخے تو خوشی ہوتی ہے ۔ اس لیے خوب خوش ہوئی ۔ جب کہ
حز ب ِ اختلاف جماعتوں کے برے دن شروع ہوگئے تھے ۔ انھوں نے کئی طریقوں سے
بر سر ِ اقتدار معززین کو باور کرانے کی کوشش کی کہ آپ اچھا نہیں کر رہے ۔
آخر ہم اور آپ ایک ہی تو ہیں ۔ کرپشن ہم بھی کرتے ہیں ، آپ بھی کرتے ہیں ۔
بد عنوانی کے ہم بھی مرتکب ہیں ، آپ بھی ہیں ۔ جب ہم اور آپ ایک ہی ہیں تو
ہم پر یہ افتاد کیوں کر ؟ مت بھولیے کہ آج آپ سیاہ و سفید کے مالک ہیں ، کل
ہم ہوں گے ۔ آج آپ ہماری چیخوں پر مت ہنسیے۔ ورنہ کل ہم آپ کی چیخوں پر
قہقہے لگائیں گے ۔ بہتر یہی ہے کہ "مک مکا" کر لیا جائے ۔ کرپشن نہ ختم
ہونے والی چیز ہے ۔ اس لیے ہم پر کچھ رحم کیجیے۔ ہم مل کر احتسابی ادارے کے
اختیارات محدود کر دیتے ہیں ۔ ویسے بھی پارلیمنٹ پر ہمارا تصرف ہے ۔ قوانین
جب ہم بناتے ہیں تو توڑ بھی سکتے ہیں ۔ جب ہم اس احتسابی ادارے کے اختیارات
محدود کر دیں گے تو آپ اور ہم دونوں فائدے میں رہیں گے ۔
مگر حکومت مخالفین کا درد نہ سمجھ سکی یا سمجھنے سے قاصر تھی ۔ حکومت بس اس
پر خوش تھی کہ ہمارے مخالفین دب رہے ہیں ۔ ان کی عوامی پذیرائی پر آنچیں
آرہی ہیں ۔ یہ آنچیں ان کے لیے اس طرح مفید ہوں گی کہ اگلے پانچ سالوں کے
لیے ایک بار پھر وہ سیاہ و سفید کے مالک بن کر ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے
۔ اقتدار میں آتے ہی حکومت کے معززین سمجھنے لگے کہ ان میں تو کوئی خامی ہے
ہی نہیں ۔ حزب ِ اختلاف کی جماعتیں بس یوں ہی تنقید کرتی ہیں ۔ کیوں کہ ان
کا کام ہی تنقید کرنا ہوتا ہے ۔ ہم میں کوئی کم زوری نہیں ہے ۔ ہم غلطیوں
سے مبرا ہیں ۔ ہم نے وہ کچھ کیا ، جو اس سے پہلے کوئی اس ملک میں نہ کر سکا
۔ ویسے بھی اقتدار میں آنے کے بعد لوگوں کو اپنی غلطیاں نظر نہیں آتیں ۔ نہ
جانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ملک کے معززین اقتدار میں آنے کے بعد خود کو
بہترین اور اپنے مخالفین کو بد ترین سمجھنے لگتے ہیں ۔
پھر رفتہ رفتہ منظر بدلنے لگا ۔ حکومت مخالفین کاحکومت کو جاری کردہ انتباہ
حقیقت کا روپ دھارنے لگا ۔ مخالفین کی یہ باتیں بالکل سچ تھیں کہ بدعنوانی
کے مرتکب آپ بھی ہیں ، ہم بھی ہیں ۔ کرپشن ہم بھی کرتے ہیں ، آپ بھی کرتے
ہیں ۔ ا حتسابی ادارے نے اپنی تحقیقات کا رخ حزب ِ اقتدار جماعت کی طرف کر
دیا ۔ حکومت کے معززین پہلے حیران اور پھر پریشان ہو گئے ۔ حیران اس لیے کہ
اس ادارے کی اتنی ہمت کیسے ہوگئی کہ وہ ہم پر ہاتھ ڈال رہا ہے ۔ پریشان اس
لیے کہ اب ہمار ا کیا ہوگا ؟ ہم اپنے دامن میں لگے داغ کیسے دھوئیں گے ؟
حکومت کی حیرانی اور پریشانی بڑھی تو بڑھتی چلی گئی ۔ کیوں کہ اب بہت سے
ایسے لوگوں کا احتساب ہونے جار ہا تھا ، جو ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے
بیٹھے تھے ۔ حیرانی اور پریشانی اتنی بڑھی کہ غیض اور غضب کا ظہور ہوگیا ۔
ملک کے سب سے طاقت ور ترین شخص نے کھلم کھلا اس احتسابی ادارے کو وارننگ دے
دی کہ یہ ادارہ اپنے دائرے میں رہے ، ورنہ کارر وائی کریں گے ۔ یہ بڑی عجیب
بات تھی ۔ ایک طرف حکومت نے ہی اس ادارے کے چئیر مین کا انتخاب کیا تھا ۔
دوسری طرف حکومت ہی اسے اپنے دائرہ ِ کار میں رہنے کی تنبیہ کر رہی تھی ۔
اور تنبیہ بھی سب کے سامنے ، یعنی جلسہ ِ عام میں ۔ حالاں کہ اگر اپنے
متعین کردہ کسی شخص کا قصور ہو تو اسے بند دروازوں میں چھپ چھپ کر تنبیہ کی
جاتی ہے ، تاکہ سبکی نہ ہو ۔ اب میڈیا کو محسوس ہوا کہ دال میں کچھ کا لا
ہے ۔ جب سب کے سامنے ایک احتسابی ادرے کو اپنے دائرہ ِ کار میں رہنے کی
تنبیہ کی جارہی ہے تو کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوا ہے ، جو حکومت کی دانست میں
نہیں ہونا چاہیے تھے ۔ بالآخر "اس حمام میں سب ہی ننگے" اور " کس کی دم پر
پاؤں آیا ہے " جیسے محاوارات جنم لینے لگے ۔ اس طرح عوام سب کچھ سمجھ گئے
!! |
|