افغان صدر اشرف غنی کا افغان فوج پر عدم اعتماد

 افغان صدر اشرف غنی خود اپنی فوج پر اعتماد نہیں کرتے اور کئی مرتبہ اس کا برملا اظہار بھی کرچکے ہیں ۔ 2009میں جب امریکہ نے اعلان کیا کہ افغانستان پر قبضے کے گیارہویں سال امریکا اپنا جنگی مشن اپنی تربیت یافتہ افغان فوج کے سپرد کر رہا ہے اور امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے ۔ لہذا ایک پرایک کے تحت اس کام کا آغاز کیا گیا اپنی طرف سے اس وقت کے ایک امریکی فوجی جو The Joint Afghan -NATO Integal Board ( JANIB) for transition کے کمانڈر تھے کو نمائندہ مقرر کیا اور افغانستان کی طرف سے اشرف غنی نمائندہ کے طور پر سامنے آئے تاکہ انخلا کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ ایک مرتبہ اس سلسلے میں اقدامات کا آغاز کردیا گیا جس کے بارے میں امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ ’ یہ ایک اچھا موقع ہے کہ نیٹو اپنی ذمہ داریاں افغان فوج کے حوالے کرے ، ہمیں امید ہے کہ وہ اس تبدیلی کو اہم ذمہ داری سمجھیں گے اور افغان فوج اپنی مشن میں کامیاب ہوگی ، لیکن اشرف غنی کو اپنی فوج پر اعتماد نہیں ہے۔)امریکی جنرل کا یہ بیان بہت اہم تھا کیونکہ اشرف غنی اس وقتانتقال اقتدار پراجیکٹ کے سربراہ بھی تھے ، لیکن افغان فوج پر اعتماد نہیں رکھتے تھے کہ وہ واقعی ایک فوج ہے اور اسے فوج کا نام دیا جاسکتا ہے۔

2014ء میں جب عبداﷲ اور اشرف غنی نے افغانستان کے مسند اقتدار پر براجمان ہوئے تو اسی دن سیکورٹی معاہدے کے نام پر افغانستان میں امریکا کے دائمی جنگی اڈوں کے دستاویز پر دستخط کرالئے گئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑ کر چلیں جائیں ۔2015میں افغان صدر اشرف غنی پاکستان کے دورے پر اائے تو پاکستان فوج سے اپیل کی کہ وہ ہماری فوج کو جنگی تربیت دیں۔کچھ عرصہ بعد افغان فوج کے ایک وفد کو فوجی تریننگ کی غرض سے پاکستان بھیج دیا گیا ، جس کا واضح مطلب یہ لیا گیا کہ وہ امریکی افواج کی ٹر یننگ سے مطئمن نہیں تھے اس لئے پاکستان جس کا شمار دنیا کی ماہر ترین افواج میں ہوتا ہے ان کی ٹریننگ سے اشرف غنی کو کچھ اطمینان ہوا۔2015ء میں دونوں افغانی سربراہان امریکی دورے پر گئے اور افغانستان میں امریکی فوج رکھنے کی اپیل کی اور افغانستان میں امریکی کردار کو سراہا جس پر کانگریس نے ان کی تعریف کی اور افغانستان میں محدود تعداد میں امریکی فوجی رکھنے کی منظوری مل گئی جس کے مطابق کم سے کم دس ہزار فوجی افغانستان میں تاحکم ثانی رہیں گے۔یہی وہ حقائق ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان کو اپنی افغان فوج پر کلی اعتماد نہیں ہے ۔ صوبہ قندوز میں شکست کے موقع پر تین دن تک طالبان صوبہ قندوز میں رہے ، پھر جب وہ حکمت عملی کے تحت پسپا ہوئے اور افغان حکومت نے انکوئری کروائی تو انکوئری کمیٹی کے سربراہ نے اعتراف کیا کہ قیادت کا فقدان تھا کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔صوبہ قندوز کو امارات اسلامیہ ( افغان طالبان) نے عزم آپریشن کا نام دیا تھا۔ اس کے کمانڈر مولوی رحمت تھے جنھوں نے تین دن تک صوبہ قندوز پر قبضہ کئے رکھا۔عموماََ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ افغان فوج میں کمزوری کی بنیادی وجوہات میں امریکی فوج پر انحصار شامل ہے ، دوئم جب امریکہ افغانستان پر قابض ہوا تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں تھا کہ وہ افغانستان کو ترقیاتی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرے گا ، ایک محب الوطن فوج ہی اپنی سرزمین کی حفاظت کر سکتی ہے ،لیکن افغانستان کی فوج میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ملک کے طول و عرض سے غیر تعلیم یافتہ ، ڈالروں کی چمک اور فرقہ واریت کی بنا پر شامل ہوئے ، انھیں باقاعدہ فوجی تربیت نہیں دی گئی کہ وہ ایک پیشہ وارنہ فوج بن سکتے بلکہ ایمرجنسی میں انھیں وردی پہنا کر بندوق تھما دی گئی اور ان کے ذمے زیادہ تر امریکی مراکز کی دیکھ بھال اور حفاظت کی ڈیوٹیاں لگا دیں گئیں۔ ایک پیشہ وارنہ تربیت فوج اور ایک وقتی و عارضی نوعیت کے تحت صرف افرد کی بھرتی سے کسی ملک کا دفاع نہیں کیا جاسکتا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ امارات اسلامیہ کیجانب سے جہاں جہاں افغانن فوج کے ساتھ زمینی ٹکراؤ ہوا افغان فوج کو پیچھے ہٹنا پرا ور امریکی فوج پر انحصاکرنا پڑا ۔ یہ بھی ایک اہم وجہ ہے اشرف غنی اپنی فوج پر اعتماد نہیں کر پا رہے۔افغانستان میں ساڑھے تین لاکھ افغان فورس موجود ہے لیکن صدر افغانستان دس ہزار امریکوں کو ان پر فوقیت دیتے ہیں۔ امریکہ کی خارجہ امور کے وزیر ہنری کسنجر نینائن الیون کے واقعے کے بعد کہا تھا کہ امریکہ دنیا کی سپر پاور طاقت ہے اگر انتقام لینے کیلئے افغانستان پر حملہ نہیں کیا گیا تو ایک سپر پاور کی توہین ہوگی ، افغانستان پر امریکی حملے ناگزیر ہیں دہشت گردوں سے انتقام لیا جائے گا اور اس میں کا میابی ہوگی۔ ہنری کسنجر کی طرح بہت سے امریکی عہدے دار اور مغرب اس خوش فہمی تھے کہ کامیابی ان کا مقدر بنے گی۔اس لئے امریکی صدر بش نے افغانستان پر مزائیلوں سے حملہ کردیا اپنے خطاب میں کہا کہ اس معرکہ میں ہم ہی کامیابی حاصل کریں گے اور ہمیں تھکاؤٹ بھی محسوس نہیں ہوگی ، ہمیں دنیا کیکوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ، ہمارا دشمن جہاں بھی ہوگا ، ہم اسے نیست و نابود کردیں گے۔2001میں درجنوں ممالک کی فوج افغانستان پر حملہ آور ہوگئی ، کابل میں کٹھ پتلی حکومت مسلط کرکے سابق کمانڈروں اور افغان نیشنل فوج ، پولیس اور پھر حکومتی حامی ملیشیا کے اہلکاروں پر مشتمل لشکر تشکیل دیکر انھیں مسلح کرکے افغانستان میں بے روزگاروں کی ایک بہت بڑی تعداد بھرتی کرلی۔امریکہ اس خوش فہمی رہا کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مکمل کامیابی حاصل کرلیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور انھیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد افغان طالبان نے امریکہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور امریکی فوجی حکام نے مزید فوجی اورفوجی وسائل بھیجنے کا مطالبہ کردیا 2011ء میں امریکی کمانڈڑ مایک مولن نے کہا "مجھے نہیں معلوم کہ یہ جنگ کس طرح ختم ہوگی لیکن ہم جانتے ہیں کہ گذشتہ ساڑھے تین برسوں سے صورتحال خراب ہے اور طالبان اب بہتر پوزیشن میں ہیں انہوں نے امریکی حکومت کو ایک خط لکھا کہ ہم اپنا مقصد افغان عوام کا تحفظ بھول گئے ہیں اب ہمارے فوجیوں کی تمام تر توجہ اپنی حفاظت پر مرکوز ہے۔"

اب تک ایک ہزار ارب ڈالر سے زئد اخراجات صرف ہوچکے ہیں لیکن اب تک کوئی خاص قابل ذکر کامیابی ہمیں نہیں ملی ہے ، اب ہمیں ایسے اموپر غور کرنا چایت جو ہمیں ان گھمبیر حالات سے نکالیں۔بلا شبہ امریکہ کو افغان جنگ کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے گذشتہ14برسوں میں امریکہ کے شار سو سے چھ ٹریلین ڈالر اخراجات صرف ہوچکے ہیں اگر تمام امریکی شہریوں پر اتنی خطیر رقم تقسیم کریں تو فی کس 77ہزار دالر مل سکتے تھے گو کہ اس جنگ میں فی کس امریکی کا 77ہزار ڈالر کا انقصان ہو اور ایسے امریکہ کی تاریخ کی مہنگی ترین جنگ قراردی جاتی ہے۔سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اپنی کتاب (Duty) میں برطانیہ کے سابق سفیر شیرارڈ کوپر کولز نے اپنی کتاب ( Kabul's Latters) میں افغانستان کے حوالے سے لکھا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے نہ صرف امریکہ اور نیٹو نے سنگین غلطی کی بلکہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے بھی تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا کہ آنکھیں بند کرکے امریکہ کی حمایت کی اور اس طرح غیر معقول فیصلوں کے باعث ایک عالمی پالیسی ساز ادارت کو بد ترین شکست سے دوچار کیا۔امریکہ اپنے میڈیا پر زر کثیر خرچ کر رہا ہے تاکہ اس کی شکست کے اسباب کو چھپایا جاسکے۔ اور اپنی تہذیب کو دوسروں پر مسلط کرنے اور اقتصادی اور فوجی پالیسیوں کو معیشت اور قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ اس وقت دنیا کے 90فیصد ایسے 5بڑے (Hypermedia companies) ہیں جو امریکی مفادا کا تحفظ کر رہی ہیں اور اس کے مالی کنٹرول بی ، اس لئے میڈیا بھی بھرپور طاقت کے ساتھ کوشش کرتا رہتا ہے کہ امریکی شکست اور منفی حقائق کو امریکی حکومت کی خواہشات کے مطابق شائع کرے۔ ( افغان طالبان ) ہر سال موسم بہار کی آمد کے ساتھ ساتھ نئے نام اور نئی حکمت عملی کے ساتھ افغان و امریکی فوجیوں کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں۔ رواں سال بھی بھی طالبان نے اپنی کاروائیاں تیز اور منظم کرنیکا اعلان کیا ہے اگر چہ بڑے آپریشن نہیں کئے لیکن گوریلا جنگ میں افغان حکومت کا کافی نقصان پہنچایا جا چکا ہے ۔ افغان طالبان کے مطابق ابتدائی رواں سال کے تین مہینوں میں دو ہزار آٹھ سو سولہ 2816حملے کئے جا چکے ہیں جن کے نتیجے میں 6375اہلکار اور زخمی ہوگئے ہیں جس میں 53غیر ملکی فوجی بھی شامل ہیں ان میں 848 ٹینک اور فوجی گاڑیاں کی تناہ کرنیکا دعوی بھی کیا گیا ہے جبکہ افغان طالبان نے339مجاہدین کی ہلاکت و زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے ۔بدخشاں کے نمائندوں نے مخلوط حکومت کے سربراہ پر زور دیا تھا کہ بدخشاں کے بارہ اضلاع پر حکومت کا کنٹرول کمزور ہوتا جارہا ہے جن پر کسی بھی وقت مخالفین قبضہ کرسکتے ہیں لہذا ان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ اسی طرح صوبہ ہلمند میں بھی کابل حکومت کی جانب سے ذولفقار آپریشن شروع کیا تھا جیسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ وزرات دفاع کے ڈپٹی ترجمان دولت وزیری نے دعوی کیا تھا کہ طالبان کو سنگین سے نکال دیا گیا تھا لیکن اخبار نے وہاں کے رہائشیوں سے تصدیق کی کہ کابل حکومت کے دعوے درست نہیں ہیں، سنگین افغان طالبان قبضہ کرچکے ہیں۔افغان طالبان کی کاروائیاں شد و مد سے جاری ہیں ۔اور افغان حکومت اس کو چھپانے کی بھرپور کوشش کرتی ہے کسی بھی ملک کی زمین پر اگر کوئی غیر ملکی جارحیت کرکے قبضہ کرتا ہے تو وہاں کی عوام میں ایسے گروہ پیدا ہوجاتے ہیں جو اپنی سرزمیں میں غلامانہ طرز زندگی نہیں گزارنا چاہتے اس لئے وہ ایک عسکری جدوجہد شروع کردیتے ہیں ، ہندوستان کی تقسیم کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جس میں انگریزوں کے خلاف جنگیں لڑی گئیں گوریلا وار میں انگریزوں کو نقصان پہنچایا گیا ۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 662955 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.