تشویش درست․․․لیکن

ہر عمل کا ردِعمل ہوتا ہے، لیکن ہم نہیں مانتے۔شام کے شہری انسانی حقوق سے محروم ہیں، لیکن ہم نہیں مانتے۔ برما کے مسلمانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوا لیکن ہم نہیں مانتے۔ یمن میں مسائل کی اصل وجہ ہم جانتے ہیں، لیکن ہم نہیں مانتے۔ پاکستان میں ڈرون حملوں نے شدت پسندی میں اضافہ کیا، لیکن ہم نہیں مانتے۔ دہشت گردوں کی کھیپ کی کھیپ کیوں کر پیدا ہورہی ہے، ہم جانتے ہیں، لیکن ہم نہیں مانتے۔

ہم تو فقط اتنا مانتے ہیں کہ اب باقاعدہ طور پر اقوام کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہاکہ داعش کی سرگرمیاں تشویش ناک ہیں اور داعش برصغیر میں بھی اپنا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ان کے اس بیان پر دل سے نکلتا ہے کہ بڑی دیر کی مہرباں مانتے مانتے۔ بہرکیف خبر مختصراً یہ ہے کہ بھارتی میڈیا کے مطابق ایک بیان میں بان کی مون نے کہا ہے کہ داعش کی سرگرمیاں تشویش ناک ہیں، عراق اور شام میں تنظیم کی سرگرمیاں انتہائی خطرناک ہوچکی ہیں جس سے خطے میں امن غارت ہورہا ہے۔ داعش برصغیر میں بھی خطرہ پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے، پاکستان اور بھارت کی سرحدیں اس کا نشانہ ہوسکتی ہیں، دیگر تنظیموں کا لبادہ اوڑھ کر بھی داعش دونوں ممالک کے لیے خطرات پیدا کرسکتی ہے۔ دونوں ممالک کو مذاکرات کے ذریعے ہرممکن دوطرفہ اختلافات ختم کرنا ہوں گے۔ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی پہل کرنا ہوگی تاکہ خطے میں دہشت گردوں کو رسائی حاصل نہ ہو اور انھیں برصغیر میں اپنی تخریبی کارروائیاں پھیلانے کے لیے زمین نہ مل سکے۔ پاکستان دہشت گردی مخالف جنگ میں صف اول پر کھڑا رہا ہے اور اس نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے حد قربانیاں دی ہیں جنھیں اقوام متحدہ نظر انداز نہیں کرسکتی۔ تاہم اس کے لیے ایسے حالات ہیں کہ اسے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بھی دہشت گردی کے خلاف کھل کر آگے آنا ہوگا۔

بان کی مون صاحب! آپ کی تشویش صد فی صد درست ہے۔ لیکن آپ کو، تمام ممالک کے سربراہان اور اقوامِ متحدہ میں بیٹھے ان لوگوں کو جو قوموں کی تقدیر کے فیصلے چند لمحوں میں کر دیتے ہیں، سوچنا ہوگا کہ آخر یہ کس عمل کا ردِعمل ہے جو انتہاپسندی کے اور دہشت گردی کے فروغ کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ دنیا پر اپنی حکومت کا خواب دیکھنے والے معصوم ذہنوں کی برین واشنگ کررہے ہیں۔ اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کے لیے جن لوگوں کا استعمال کیا جاتا ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں وہ صرف مذہب کے نام پر یہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔۔۔! نہیں ہرگز نہیں۔ کتنے ہی ایسے دہشت گرد قانون کی گرفت میں آئے ہیں جنھیں دین کی الف ب بھی معلوم نہیں، لیکن وہ دہشت گردی اسلام کے نام کو استعمال کرتے ہوئے کرتے رہے ہیں اور مسلمانوں کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں اگر ظلم زیادتی حد سے بڑھ جائے تو انتقام کا مادہ نسلوں میں نفرت سرایت کرجاتا ہے۔ یہ لوگ بھی اسی نفرت کا شکار ہیں۔
زیادہ دور کیوں جائیں ہمارے ملک میں ہی ڈرون حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی نے متاثرہ آبادی میں نفرت اور بغاوت کی آگ بھڑکا دی تھی۔ ان ناانصافیوں کو حساب لگا لیجیے جو پاکستان بننے کے بعد کئی سالوں تک بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ہوتی رہیں، جن کی وجہ سے آج ہمارا یہ صوبہ آگ میں جل رہا ہے۔ ہم تو ان ناانصافیوں کی وجہ سے ہی ملک کو دو ٹکڑے ہوتا دیکھ چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے برصغیر میں داعش کے خطرے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن انھیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ داعش ہو یا کوئی اور انتہاپسند تنظیم، ایسی تنظیمیں خاص ماحول میں پنپتی ہیں۔ شام اور عراق کی فضا داعش کے لیے بہت موزوں تھی، اس لیے یہ تنظیم وہاں اپنی جڑیں مضبوط کرنے یہاں تک کہ ایک خطہ زمین پر قبضہ کرنے میں کام یاب ہوگئی۔ ان ممالک کے عوام ناانصافیاں اور ظلم جھیل رہے تھے اور جھیل رہے ہیں، سو وہاں نفرت کے بیج کو تناور درخت بنانے کے لیے دہشت گردوں کو کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑی ہوگی۔

کچھ ایسے ہی حالات اس وقت برصغیر کے بھی ہیں۔

بھارت جو اس خطے کا سب سے بڑا ملک ہے اس وقت ہندوانتہاپسندی کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ مودی سرکار مسلمانوں کو دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے، گائے ذبح کرنے کا الزام لگا کر مسلمانوں کو کاٹ ڈالنا معمول ہوچکا ہے، مسلمان اداکاروں کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے، بھارت کے مسلمان، جن کی آبادی بیس کروڑ کے قریب ہے، خوف اور مایوسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم اور تشدد کا سلسلہ ایک بار پھر زور پکڑ چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر نصف صدی سے اقوام متحدہ میں اپنے حل ہونے کا انتظار کر رہا ہے، مگر اقوام عالم کا اہم ترین ادارہ اس مسئلے کو بھلائے بیٹھا ہے۔ جمہوریت کا دعوے دار ملک کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر رہا ہے، لیکن اس ظلم کے خلاف کہیں کوئی آواز نہیں اُٹھ رہی۔

اس خطے کے ایک اور ملک برما میں روہنگیا مسلمانوں کا جس طرح قتل عام کیا گیا ہے، وہ انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دیا جاچکا ہے، لیکن ان کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

اس خطے کے ایک اور اہم ملک بنگلادیش میں ملک کی ایک اہم جماعت، جماعت اسلامی کو بُری طرح کچلا جارہا ہے اور اس کے راہ نماؤں کو اس الزام میں پھانسی پر لٹکایا جارہا ہے کہ بنگلادیش کے قیام کے وقت انھوں نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ اس صورت حال میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے بنگلادیشی مسلمان کس ذہنی کیفیت کا شکار ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

کیا یہ سب حالات برصغیر میں انتہاپسندی کے فروغ اور داعش جیسی تنظیموں کے قدم جمانے کے لیے کافی نہیں؟ ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انتہاپسند تنظیموں کے لیے راستہ کون ہم وار کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ کی حیثیت سے بان کی مون کو برصغیر کے ان حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور اس خطے کے مظلوم مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے، برصغیر میں موجود داعش اور اس جیسی دوسری تنظیموں کے خطرے سے نجات کے لیے اس خطے کے مختلف ممالک میں ظلم وجبر کا شکار کروڑوں مسلمانوں کو اس صورت حال سے نجات دلانا ضروری ہے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311948 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.