عرصہء دراز سے بلوچستان بدامنی کی زد میں
ہے۔یہاں اندرونی اور بیرونی دونوں عناصر سرگرم عمل ہیں بیرونی اپنے فائدے
کے لئے کام کر رہے ہیں اور اندرونی اپنی سرداری اور بالا دستی کی خاطر۔
بیرونی قوتوں کا مقصد بلوچستان کو ترقی نہ کرنے دینا ہے کہ ایک تو پاکستان
کو کمزور کیا جائے اور دوسرے خطے میں ان کی بالا دستی قائم ہو۔ جتنایہ صوبہ
قدرتی اور معدنی ذخائر سے مالامال ہے اسی طرح یہا ں دشمن بھی کئی قسم کے
برسر پیکارہیں۔کسی کو یہاں معدنیات سے دلچسپی ہے ،کسی کو اس کے کھلے صحراؤں
میں اپنا فائدہ نظر آتا ہے اورکسی کو بندرگاہ سے اپنا مفاد وابستہ نظر آتا
ہے اور انہی فوائد کی خاطر وہ مقامی آبادی میں سے اپنے کارندے تلاش کرتے
ہیں اور غربت میں پسے ہوئے اس صوبے سے انہیں ایسے لوگ بآسانی دستیاب ہو
جاتے ہیں۔ یہاں کے سردار خود یورپ کی بڑی بڑی یونیورسیٹیوں سے پڑ ھ کرآتے
ہیں لیکن اپنے عوام کو جنگ و جدل میں ڈال کر انہیں قبیلے اور جاگیر کی عزت
وناموس میں الجھا لیتے ہیں اور انہیں اپنے مقاصدکے لیے استعمال کرتے ہیں
۔انہیں پڑھا لکھا بلوچ نہیں چاہیے جو ان سے اپنے حقوق مانگے لہٰذا یوں ان
کی جا گیروں میں اکثریت ان پڑھ ہی رہ جاتی ہے اور ان سرداروں کو ہی اپنا ان
داتا سمجھتی ہے اور ان کے تابع فرمان رہتی ہے لیکن جب وقت کے ساتھ ساتھ
تعلیم کچھ عام لوگوں تک بھی پہنچی تو ان لوگوں نے تعلیمی اداروں پر بھی کام
کیا اور پڑھے لکھے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ بطور لیڈر شامل کیا ایسا ہی ایک
شخص ڈاکٹر منان بلوچ تھا جس نے بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور
محکمہء صحت میں سر کاری نوکری اختیار کی لیکن کچھ عرصے بعد یہ کہہ کر نوکری
چھوڑ دی کہ اسے حکومت پاکستان کی نوکری نہیں کرنی اور یوں وہ مکمل طور پر
اور کھلم کھلا علحدگی پسندوں کے ساتھ جا ملا اور بلوچستان نیشنل فرنت کا
سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا ۔ وہ بلوچستان لبریشن فرنٹ میں بھی دوسرا اہم
ترین شخص تھا ۔یہی ڈاکٹر منان بلوچ 30 جنوری کو سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں
اپنے چار ساتھیوں سمیت مارا گیا جس پر بلوچ علحدگی پسندوں نے چالیس روزہ
سوگ کا اعلان کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ان کے ایجنڈے پر بڑے زور وشور
سے کام کر رہا تھالیکن اس کی موت کے بعد انہوں نے اسے انسانی حقوق کے
معاملے کے طور پر اُچھالنا شروع کر دیا ۔ڈاکٹر منان کی ان کے لیے خدمات
واقعی قابل ذکر ہیں لیکن ریاستِ پاکستان سے اُس کی غداری میں بھی کوئی شک و
شبہ نہیں۔چونکہ وہ ڈاکٹر تھا اس لئے عام لو گو ں تک اس کی پہنچ بہت آسان
تھی جس کا ا س نے خوب فا ئدہ اٹھایا اور ان لوگوں میں بھی فساد کا بیج بو
تا رہا۔اس کے لئے اس نے آئی ڈی پی کیمپوں میں بھی کام کیا اور ان کے حالات
کا خو ب فائدہ اٹھایا، یہ بھی کہا گیا کہ وہ ڈاکٹر وں کے اس گر و پ میں بھی
شا مل رہا جس نے انسانی اعضاء نکال کر فروخت کر نے کا کام کیا ۔ڈاکٹر منان
کے ہیبرو ایمگرنٹ ایڈسوسانٹی سے بھی گہرے تعلقات تھے جسں کا ثبوت نیو یارک
ٹائمز میں شائع ہونے والا وہ مضمون تھا جسں میں جان سولسکی کی رہائی میں اس
کے کردار کی تعریف کی گئی تھی یاد رہے جان سو لسکی جو اقوام متحدہ کے ادارہ
برائے مہاجرین میں کام کر رہا تھا کو بلوچ علحد گی پسندوں نے اغواء کیا تھا
اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق یہ اغواء براہمداغ بگٹی نے کیا
تھا اسے چار اپریل کو رہا کرا لیا گیا تھاجس میں ڈاکٹر منان اور ایچ آئی اے
کے درمیان رابطہ رہا۔ڈاکٹر منان جس کی ہلاکت کو بلوچ قوم پرست انسانی حقوق
کا معاملہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں مسلسل پاکستان کے خلاف سرگرم عمل
رہا۔اُس نے پاک چین اقتصادی راہداری کو متنازعہ بنانے میں بلوچستان میں بھر
پور طور پر کام کیااور یہ نکتہء نظر پھیلانے کی شدید کو شش کی کہ اس منصوبے
کے تحت بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے بنائے بھی گئے تو ان کا مقصد اس صوبے
میں غیر ملکی اور فوجی گرفت قائم اور مضبوط کرنا ہے ساتھ ہی ان منصوبوں کے
لئے پاکستان کے دوسرے صوبوں سے لوگ لا کر بسائے جائیں گے اور یوں بلوچوں کو
اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے گا یعنی وہ مکمل طور پر منفی ذہنیت کے ذریعے
منفی پراپیگنڈاکرتا رہااور ایک طرف چند بلوچ سرداروں کا مہرہ بنا رہاکہ
بلوچستان میں ترقی نہ ہواور ان کی سرداری قائم رہے اور دوسری طرف بھارت اور
اسرائیل جیسے ملکوں کا مقصد بھی پورا ہوتا رہے کہ بلوچستان پسماندہ رہے اور
پاکستان کے لیے امن و امان اور سا لمیت کا مسئلہ مو جود رہے ۔ڈاکٹر منان تو
مارا گیا لیکن جو سوچ اس نے اور اس جیسے لوگوں نے بلوچستان میں پیدا کی اور
پھیلائی ظاہر ہے کہ وہ اب بھی کام کر رہی ہے۔ اسی لیے محب وطن سیاسی قوتوں
اور تنظیموں کو آگے بڑھ کر اس سوچ کا خاتمہ کرنے کے لئے کام کرنا چاہیے اور
کرنا پڑے گا۔حکومت کو بھی بلوچستان میں پر خلوص کوششوں کے ذریعے حقیقی ترقی
کے لئے اقدامات کرنا ہونگے اور سب سے اہم یہ کہ اس ترقی کے ثمرات بلوچستان
کے عام افراد تک پہنچانا ہوں گے اور اس میں وہاں کے ہرچھوٹے بڑے شہرکو شامل
کرنا ہو گا۔تعلیم کو سرداروں کی قید سے آزاد کر کے وہاں کے عام قبائل تک
پہنچانا ہو گا اور احساس محرومی کے خاتمے کے لیے عملی اور موئثر اقدامات
کرنا ہونگے اور وہاں کے جغرافیائی حالات کی مشکلات کو ذہن میں رکھ کر وہاں
کے عوام کے بارے میں سوچنا اور کام کرنا ہو گا ۔اگر وہاں کی معدنیات کو
چاہے وہ قیمتی ہیں یا کم قیمت صوبے کے لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بنا
دیا جائے اسی طرح زرخیز علاقوں کے باغات کو تر جیحی بنیادوں پر ترقی دی
جائے اور بجائے ہمیشہ اُسے خام مال رکھنے کے مصنوعات کی شکل دی جائے تو
اُسے پاکستان کے دوسرے صوبوں کے برابر لایا جا سکتا ہے۔سیاسی قوتوں کو بھی
پوائنٹ سکورنگ کی بجائے عملی کام کرنا چاہیے اور یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنا
چاہیے کہ پاکستان کے دوسرے علاقے بھی سب کے سب ترقی یافتہ نہیں ہیں بلکہ
یہاں بھی انتہائی پسماندگی موجود ہے لہٰذا کسی ایک علاقے کی پسماندگی کو
اپنے فائدے کے لیے اُچھالنا نہیں چاہیے ہاں اگر واقعی ہمیں وہاں کے عوام کو
فائدہ پہنچانا ہے تو آگے بڑھ کر اپنا حصہ ڈالنا چاہیے اور اسی صورت میں ہم
ڈاکٹر منان اور اس جیسے دوسرے لوگوں کے منفی نظریات کا ڈٹ کر مقابلہ کر
سکتے ہیں۔ |