فلسطین میں تیسرا انتقاضہ ’’انتقاضہ القدس‘‘
یکم اکتوبر سے اب تک جاری ہے ۔ اس میں ہرآنے والے دن میں فلسطینی
بچے،نوجوان،بوڑھے ،عورتیں اور طالب علم اپنا خون پیش کررہے ہیں ۔ فلسطینیوں
کی قربانیاں لازوال حیثیت کی حامل ہیں ۔مزاحمت کے اس دور سے اسرائیل اور اس
کے حمایتی ممالک انگشت بدنداں ہیں اور اس وقت پوری دنیا کی جدید ترین
ٹیکنالوجی سے لیس اور وحشت وبربریت کا بازار گرم کرنے کے باوجود اسرائیل
فلسطینی سنگ بازوں کے جذبہ حریت کو دبانے میں نہ صرف ناکام ہوچکاہے بلکہ
اپنے سکولوں اورکالجوں میں حفاظتی اقداما ت کررہاہے ۔ گذشتہ تین دہائیوں سے
تاریخ کی سب سے مکار،عیار،دھوکہ دہی میں ماہر،جھوٹ وفریب اور ظلم وبربریت
جیسے القابات اور پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والی یہودی قوم سے
فلسطینی قوم پتھروں اورغلیلوں کی مدد سے نبردآزما ہے ۔ فلسطینیوں کی تاریخ
ایک ایسی تاریخ ہے جو ہمیں فضائے بدر کی یاد دلاتی ہے اورمسلمانوں کو باور
کرواتی ہے کہ مسلمان کبھی بھی ظاہری مال واسباب سے نہیں لڑتا بلکہ اس کا
مال واسباب اس کا اﷲ پر ایمان ہے ۔
80ء کی دہائی کے وسط کے بعد بیت المقدس کی جدوجہد آزادی نے ایک نئی کروٹ
لی۔دنیا کوگمان تھا کہ غزہ کی پٹی میں واقع خیمہ بستی’’جالیا‘‘میں دانستہ
طور پر ایک اسرائیلی ٹرک تلے کچلے جانے والے 4فلسطینی مزدوروں کی شہادت پر
فلسطینیوں کایہ شدیدردعمل وقتی ہے جس نے آس پاس کے چند شہروں کو اپنی لپیٹ
میں لے لیا ہے اور عوامی احتجاجی تحریک شروع ہوگئی ہے۔لیکن فلسطینیوں نے
برس ہابرس اسی سرفروشانہ روش پر قائم رہ کر دنیا کو باور کروا دیا کہ آج
بھی امت مسلمہ زندہ ہے اور مسلمانوں کی رگوں میں اسلامی غیرت وحمیت باقی ہے۔
یہ اصل میں فلسطین کی اسلامی بیداری تھی ۔اسی اسلامی مزاحمتی تحریک کو
’’انتقاضہ اولیٰ ‘‘کا نام دیاگیا۔انتقاضہ اولیٰ عشرہ بھر چلی لیکن یہ اپنی
تاثیر میں اس قدر شدید تھی کہ قہر وتشدداور عیاری ومکاری کی ناکامی کے بعد
اسرائیل اور اس کے حواری اس تحریک کے دوررس نتائج بھانپ گئے تھے ،چناں چہ
اس نے فلسطینی قوم سے مذاکرات میں ہی عافیت جانی۔اگلے چند برسوں میں1991ء
کی میڈریڈ امن کانفرنس، امریکی بھاگ دوڑ کے نتیجے میں اوسلو مذاکرات،1993ء
میں یاسر عرفات کااسحاق رابن سے تاریخی مصافحہ اور غزہ کی ایک بلدیہ
نما’’فلسطینی اتھارٹی‘‘کاقیام اسی انتقاضہ اولیٰ کی مرہون منت ہیں۔انتقاضہ
اولیٰ کے دوران 1500کے قریب فلسطینی شہید جبکہ 1,50,000کے قریب فلسطینیوں
کو گرفتار کیا گیا تھا۔200سے زائد اسرائیلی جہنم رسید ہوئے تھے۔ سنہ 2000ء
میں انتقاضہ ثانی شروع ہوتاہے۔جس کی بنیادی وجہ اس وقت کی اسرائیلی اپوزیشن
پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ایریل شیرون نے اسرائیل کاہیروبننے اور
وزیراعظم بننے کے لئے یہ شر انگیزاعلان کیاکہ وہ احاطہ مسجداقصیٰ میں گھس
کر’’مزعومہ ہیکل‘‘ کا سنگ بنیادرکھے گا۔ایریل شیرون بڑی تعدادمیں اسرائیلی
فوج کی حفاظت میں مسجد کے اندرداخل ہونے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن اس پریہ
واضح ہوچکاتھا کہ مطلوبہ جگہ پہنچنے کے لئے اسے فلسطینیوں کی لاشوں سے
گذرناہوگا۔فلسطینیوں نے یہ ثابت کردیاکہ جب تک ایک بھی فلسطینی کی رگوں
سانس کی رمق باقی ہے وہ مسجد اقصیٰ کادفاع کریں گے۔گویاکہ مسجد اقصیٰ کے
محافظ نمازی اس دن موت کے لئے گھروں سے تیار ہوکرنکلے تھے۔ صیہونی فوج نے
اپنی ظالمانہ روش برقرار رکھتے ہوئے اندھادھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں
مسجد اقصیٰ،اس کے اردگرد سڑکیں ،بازاراور گلیاں خون مسلم سے رنگین
ہوگئیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں نے بہادری کے کارہائے سرانجام دئیے۔اس روز خون
اتنا بہا کہ شیرون ہیرو اور الیکشن جیتنے کے لئے ایک مضبوط امیدوار بن
گیالہذا اسے ہیکل کی بنیاد کی ضرورت ہی نہ رہی۔لیکن یہ واقعہ فلسطینیوں کو
’’انتقاضہ دوم‘‘ کی بنیاد فراہم کرگیااور اس کی آگ بیت المقدس سے بڑھتی
ہوئی فلسطین کے دوسرے شہروں تک جاپہنچی اور بالآخر ایک ایسے لاوا کی شکل
اختیار کرگئی جسے قابو کرنا کسی سیاست یامصلحت کے بس کی بات نہ رہی۔اس روز
7فلسطینی شہید جبکہ 300سے زائد زخمی ہوئے۔جھڑپوں میں 70سے زائد اسرائیلی
زخمی ہوئے۔اسی انتقاضہ کو ’’اقصیٰ انتقاضہ‘‘بھی کہاجاتاہے۔
تیسرے انتقاضہ کو شروع ہوئے 4ماہ کا عرصہ ہوچکاہے ۔ یکم اکتوبر سے لے کراب
تک 180 فلسطینیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔مرکزاطلاعات فلسطین
کے مطابق فلسطینی شہداء کے خاندانوں پر مشتمل سوسائٹی کی جانب سے جاری کردہ
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اتوار کے روز مغربی کنارے کے شہروں جنین،
بیت لحم اور بیت المقدس میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 5فلسطینی شہید ہوئے
جس کے بعد انتفاضہ القدس میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 180 ہوگئی
ہے۔180میں سے 49شہداء کا تعلق بچوں سے ہے جنہیں ابھی جنگ کامفہوم بھی نہیں
پتہ تھا۔گذشتہ ساڑھے پانچ ماہ میں 17فلسطینی خواتین کو بھی اسرائیلی بربریت
کا سامنا کرنا پڑا اور شہادت کے رتبے پر فائز ہوئیں ۔ ماہ فروری میں اب تک
13 فلسطینیوں کو شہید کیاجاچکاہے جن میں 6 بچے اور ایک 17 سالہ لڑکی کلزار
العویوی بھی شامل ہے۔ یوں فروری کے دوران اسرائیلی دہشت گردی کا نشانہ بننے
والوں میں 46 فی صد بچے ہیں۔یہ توصرف اور صرف وہ نقصان ہے جو جان کاہے ۔ اس
سے ہٹ کر اگر مالی نقصان کا اندازہ کیا جائے تو یہ ناممکن نہیں تو مشکل
ضرور ہوگا۔لیکن فلسطینیوں کی قربانیوں اور جذبہ حریت کی وجہ سے ہی آج
اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو سلامتی کونسل
کے مشرق وسطیٰ کے اجلاس میں کہنا پڑاتھا کہ فلسطینی اسرائیلی قبضے کی وجہ
سے مایوسی کا شکار ہیں ۔ دوسری جانب فرانسیسی وزیر خارجہ لاواں فابیوس نے
کہا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات بحال کرانے کی کوششیں
ناکام ہوگئیں تو فرانس خود مختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔جرمن ویب
سائٹ کے مطابق بین الاقوامی کانفرنس منعقدکروانے کا مقصد اسرائیل اور
فلسطین کے درمیان تنازعے کے طے شدہ دو ریاستی حل کو عملی شکل دینا ہے۔ اگر
یہ کانفرنس ناکام رہی تو فرانس فلسطین کی آزاد اور خود مختار ریاست کے وجود
کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لے گا۔ویٹی کن نے بھی باضابطہ طور پر فلسطین کو
ریاست تسلیم کرلیاہے اور ان کے علاوہ بھی کئی ممالک فلسطین کو ریاست تسلیم
کرچکے ہیں ۔
ڈاکٹر عطاونہ استنبول میں قائم پولیٹیکل ڈویلپمنٹ ویڑن سینٹرکے ڈائریکٹر
جنرل ہیں اور فلسطین کی مجموعی صورت حال پر گہری بصیرت رکھتے ہیں۔ان کا
انتقاضہ القدس کے حوالے سے کہنا تھا کہ’’ مسجد اقصیٰ کے حوالے سے انتفاضہ
کا پیغام یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول اور اہل اسلام کے دلوں کی دھڑکن
ہے۔ یہی وہ مقدس مقام ہے جس نے فلسطینیوں کو عزم وعزیمت کے ولولے سے سرشار
کیا ہے۔ انہیں ایک تشخص دیا اور اپنے دفاع اور مقدسات کے دفاع کے لیے
لڑمرنے کی ہمت عطا کی ہے۔یہودی آباد کاری اور آباد کاروں کے حوالے سے
انتفاضہ کا پیغام بھی واضح ہے۔ یہودیوں کویہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ
وہ ارض فلسطین اور فلسطینی قوم پر اپنی مکروہ چھاپ نہیں لگا سکتے ہیں۔
یہودی چاہے جتنا بھی فلسطینی اراضی کو ہتھیائیں اور ان کی کتنی بڑی تعداد
فلسطین میں کیوں نہ جمع ہوجائے مگر وہ فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے
محروم نہیں رکھ سکتے۔ وہ فلسطین کے مالک نہیں بن سکتے۔ فلسطین میں ان کا
کوئی مستقبل نہیں اور نہ ہی انہیں وہاں اپنے بقاء کی امیدرکھنی چاہیے۔
انہیں ایک نا ایک دن وہاں سے نکلنا ہے۔دوسری تحریک انتفاضہ نے غزہ کی پٹی
سے یہودیوں کو نکال باہرکیا اور اب مغربی کنارے اور بیت المقدس سے یہودیوں
کو بے دخل کیے جانے کا وقت آگیا ہے۔‘‘
اس وقت عالم اسلام جس طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ جہاں خوارج واسلام دشمن
قوتیں اسلامی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کررہی ہیں اور ظلم
وستم کا نشانہ بھی پوری دنیا میں مسلمان ہی بن رہے ہیں ۔جہاد کودہشت گردی
کی علامت بنادیاگیا ہے ۔ اسرائیلی کسی فلسطینی بچے کو شہید کردیں تو سیلف
ڈیفنس کانام دے کر اسرائیل کی حمایت کی جاتی ہے اور اگر کوئی فلسطینی سنگ
بار ٹینک کو پتھر ماردے تو وہ دہشت گرد بن جاتا ہے ۔کشمیر میں کشمیر ی اپنی
آزادی کی خاطر بھارتی فوج کے خلاف لڑیں تو وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جبکہ
بھارتی فوج کو تمغوں سے نوازاجاتا ہے ۔عراق وشام اوربرماوافغانستان میں
مسلمانوں پرہی عرصہ حیات تنگ ہوچکاہے ۔ فلسطین ایک حریت کانام ہے ،ایک ایسی
جدوجہد کا نام ہے جس نے وقت کی جدید ترین ریاست کو تگنی کا ناچ نچاکررکھا
ہوا ہے ۔داعش وتحریک طالبان پاکستان جیسی دہشت گرد تنظیمیں اسلام کا لبادہ
اوڑھے دشمن عناصر کا ایجنڈا پورا کرنے کی سرتوڑ کوشش میں ہیں ۔ ایسے میں
سعودی عرب ،ترکی اور پاکستان جیسے اسلامی ممالک کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا
ہونا نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ سپرپاور کی اجارہ داری ختم کرنے کی طرف ایک
قدم بھی ہے ۔ جہاں یہ اسلامی ممالک اپنے ممالک اور دیگر اسلامی ممالک میں
امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔ وہیں
انہیں فلسطین میں ہونے والے اسرائیلی مظالم کو بھی دیکھنا ہوگا ۔ اور اقوام
متحدہ کو مجبور کرنا ہوگا کہ کشمیر وفلسطین کے مسلمانوں کو ان کا حق
دیاجائے ۔ اقوام متحدہ نے آج تک مسلمانوں کا کوئی بھی کام ٹھیک طرح سے نہیں
کیا او رنہ ہی کوئی ایسا فیصلہ کیا ہے جس سے مسلمانوں کے رستے زخموں پر
مرہم رکھی جاسکے ۔ ایسے میں فلسطینیوں اورکشمیریوں کی اپنی آزادی کے لئے
بندوق اٹھا نا نہ صرف جائز ہے بلکہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے ۔ |