یہی سب کچھ اب تک مسلمانوں کے ساتھ ہورہا تھا
(Shams Tabrez Qasmi, India)
یہ پہلا موقع ہے جب میڈیا کی جانبداری ،فرضی
رپوٹنگ ،غلط بیانی اور اینکروں کی جھوٹی بکواس پر ملک کی انصاف پسند عوام
کے ساتھ خود میڈیا اہلکار سوا ل اٹھارہے ہیں ، کلدیپ نیر ،برکھادت ، رویش
کمار،راہل کنول سمیت متعدد نامور صحافی یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ
ہندوستان میں صحافت کی روح پامال ہوچکی ہے ،ٹی وی چینلوں پر حقیقت دکھا یا
جانا ماضی کا قصہ پارینہ بن چکا ہے ،اینکرکٹھ پتلی بن چکے ہیں ،وہ اپنی
زبان سے اپنے من کی بات کرنے کے بجائے دوسروں کے من کی بات کرتے رہتے ہیں ،
ملک کے ماحول کو خراب کرنے ،چنگاری کو شعلہ بنانے معصوموں کو گنہ گار
ٹھہرانے اور کسی کی زندگی کو تباہ و برباد کرنے میں نمایاں کرداریہی میڈیا
ادارے کررہے ہیں ، میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون اور مضبوط جمہوری ملک
کیلئے معاون کہاجاتاہے لیکن اب ان کی حرکتوں سے جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں
۔
یہ باتیں جے این یو تنازع کے بعد کی گئی ہے ،ایک چینل کی فرضی رپوٹنگ کے
ثبوت مل جانے کے بعد خود صحافی حضرات واضح لفظوں میں اس کی مذمت کررہے ہیں
،معاملہ جے این یو کے اسٹوڈینٹنس یونین کے صدر کنہیا کماری پر لگائے فرضی
الزام کا ہے ،9 فروری کو جے این یو میں ایک پروگرام کو نشر کرتے ہوئے مشہور
ہندی چینل زی نیوز نے ایک ویڈویو دکھائی تھی جس میں کنہیا کمار ملک مخالف
نعرے لگارہے تھے ،زی نیوز کی رپوٹ کو حقیقت مانتے ہوئے کنیہا کے خلاف غداری
کا مقدمہ درج کرکے انہیں جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا گیا ،اس کے علاوہ عمر
خالد سمیت دیگر سات طلبہ کو بھی غداری کاملزم ٹھہرا کراکر دہلی پولس نے
گرفتاری کا وارنٹ جار ی کردیا ،دہلی پولس نے دعوی کیا کہ کنہیا کے خلاف
ہمارے پاس مکمل ثبوت ہیں ،وزیر داخلہ نے بھی سخت کاروائی کی یقین دہانی
کرادی ۔لیکن سچائی یہ سامنے آئی کہ جس ویڈیو کی بناپر کنہیا کو غداری کا
ملزم قراردیا گیا ہے وہ ویڈیو فرضی ہے ،کسی اور کی آواز کو ڈپ کر کے تصویر
کنہیا کی لگائی گئی ہے ۔اس حقیقت کا اعتراف زی نیوز کے پروڈیوسرنے بھی کیا
ہے اور اپنے تحفظات کے پیش نظرانہوں نے ملازمت سے استعفی دے دیا ہے ۔
دن کی روشنی کی طرح یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ کنیہا پر لگائے گئے الزامات
فرضی ہیں ،ویڈیو ڈوکٹر ہے ، چینل نے پیسے لیکر صحافت کی روح کو پامال کرنے
والی یہ حرکتیں کی ہے ،میڈیا سے وابستہ افراد اور دوسرے چینل خود اس کی
مذمت کررہے ہیں لیکن میڈیا کی غلط بیانی ،تیل کو تار بناکر پیش کرنا ،الزام
کو حقیقت بنادینا اور ملزم کو مجرم قراردینا بہت پرانی روایت ہے ،فرق صرف
اتناہے کہ اب تک میڈیا کا رویہ صر ف مسلمانوں کے ساتھ خاص تھا، مسلم
نوجوانوں کو دہشت گردبنانے ،انہیں فسادی اور جہادی قراردینے تک محدود تھا
اس لئے کسی کو اس حقیقت کا احساس نہیں ہوپارہاتھا ۔
ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا کی پوری تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی
کسی مسلمان پر دہشت گردی کا الزام لگا میڈیانے اسے سب سے بڑا دہشت گرد قرار
دیا ،کہیں بم بھی پھٹا تو پولس سے ملی کسی اطلا ع سے قبل ہی میڈیا نے کہ
دیا کہ یہ حملہ انڈین مجاہدین اور مسلمانوں کے فلاں گروپ نے کیا ہے، کہیں
بم بلاسٹ ہوا تو میڈیا نے فورا مسلمانوں کو ذمہ ٹھہرادیا تحقیق میں
مسلمانوں کے علاوہ کسی کا نام آیا تو وہ رپوٹ ہی بند کردی گئی ، اب تک
دسیوں مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا ،انہیں جیل کی سلاخوں میں
ڈالاگیا ،نچلی عدالتوں نے بھی ثبوت کے بغیر پولس اطلاع کو حقیقت مانتے ہوئے
انہیں تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ سنادیا ،لیکن جب وہ معاملہ ہائی کورٹ
اور سپریم کورٹ میں آیاتو وہاں ثبوتوں پر توجہ دی گئی ،حقائق کو پیش نظر
رکھاگیا اور جنہیں پولس ،خفیہ ایجسنیاں اور میڈیا نے خطرناک دہشت گرد
قراردیا تھا اسے سپریم کورٹ نے بے گناہ کہ کر باعزت بری کیا ۔رہائی کے بعد
میڈیا نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی ،گرفتاری کی خوب تشہیر کی ، انہیں دنیا
کا سب سے خطرناک دہشت گرد ٹھہرادیا لیکن جب بے گناہ ثابت ہوئے تو ٹی وی
چینلوں اور انگریزی ہندی کے معروف اخبارات نے اس خبر کو فٹ نیوز ارو اندرون
صفحات پر بھی جگہ نہیں دی ۔حالیہ معاملہ میں دیکھ لیجئے جے این یو کے طالب
علم عمر خالد پر غداری کا الزام عائد کرنے کے ساتھ پاکستان جانے کا الزام
بھی لگادیا گیا جبکہ اب تک اس کا پاسپورٹ ہی نہیں بنا ہے اب یہ میڈیا والے
ہی بتائیں کے عمر خالد پاکستان کیسے چلا گیا ۔
بہرحال دیر آید درست آید اچھا ہواکہ لوگوں کواس حقیقت کا واضح طور پر احساس
ہوگیا کہ ٹی وی چینلوں پر جو کچھ دکھایاجاتاہے وہ سچ نہیں ہوتاہے ،اینکرحضرات
جو کچھ بولتے ہیں وہ کسی اور کے خیالات ہوتے ہیں ، میڈیا کے ذریعے دکھایا
گیا ہرمعاملہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتاہے ، جس طرح جے این یو تنازع کی بنیاد
فرضی او رڈاکٹر ویڈیو پر ہے اسی طرح مسلمانوں کو دہشت گردٹھہرائے جانے اور
ثبوت کے بغیر الزام کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی بنیاد بھی فرضی اسٹوری اور
نیوزر وم میں تخلیق کی گئی کہانی پر ہوتی ہے ۔
آج کے اس کالم کا اختتام بیباک صحافی اور مقبول اینکر رویش کمار کی
ایماندارنہ صحافت کوسلام پیش کرکے کرنا چاہتاہوں جنہوں نے میڈیا کی غلط
بیانی اور فرضی رپوٹنگ کی گرفت کی ،اس موضوع پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہا
رکیا ،اپنے خاص شو’’ پرائم ٹائم‘‘ میں اس معاملے کو خوبصورت انداز میں پیش
کرکے میڈیا کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلایا ۔ اینکروں کی غلط روشن کی
مذمت کی ،بیباکی ،سچائی اور ایمانداری کو اپنانے کی تلقین کی ، ہندوستان کو
آج رویش کمار جیسے صحافیوں کی ضرورت ہے جوصحافت برائے صحافت کی روش پر
گامزن ہیں ،سچائی ،بیباکی ،ایمانداری اور تحقیق کی نمایاں مثال ہیں ۔رویش
کمارآپ کو سلام |
|