تاریخ قوموں کیلئے رہنما کا کردار ادا کرتی
ہے باشعور قومیں اپنے ماضی کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کے فیصلے کرتی ہیں
تاریخ سے آنکھ چرانے والی قوموں کا مستقبل بھی دھندلا جاتا ہے ہماری (یہاں
ہم سے مراد امت مسلمہ ہے)پستی کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ تاریخ سے
بے رخی بھی ہے وہ شاندار تاریخ جس کی ابتدا’’اقراء‘‘ سے ہوئی ناجانے کیوں
آج وقت کی گرد میں کھو سی گئی یا شاہد ہم خود ہی تاریخ سے جان چھڑانا چاہتے
ہیں ‘پہلی اسلامی ریاست کا آئین شاہد ہم یاد ہی نہیں رکھنا چاہتے ‘مہاجرین
ِمکہ کیلئے انصارِمدینہ کی فراغ دلی کو ہم بھول گئے ‘ہم بھول گئے کہ اسلام
کیا ہے اور اسلامی ریاست کسے کہا جاتا ہے ‘ابو بکر صدیق خلیفہ بنے تو کپڑے
کا کاروبار ترک کردیا‘حضرت عمرؓ کے منہ سے نکلے الفاظ تاریخ کا حصہ بن گئے
‘پوری دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکمران پیدا نہ ہوا جس کی سلطنت22لاکھ
مربع میل تک پھیلی ہو اور وہ راتوں کو گلیوں میں گشت کرے‘تاریخ کسی ایسے
خلیفہ کو جنم دینے میں ناکام رہی جو عمر ؓ جیسا انصاف کر سکے خلفائے راشدین
کا وہ دور جب ایک عام آدمی انصاف کیلئے خلیفہ کو قاضی کے سامنے کھڑا کرنے
کی سکت رکھتا تھا شاہد ہی کسی اور مذہب کے لوگوں کو ورثے میں ملا ہو ‘مجھے
یقین ہے جب علامہ اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کیا تو ان کے ذہن میں
پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ مدینہ کی ریاست سے ماخوز ہوگا ‘متعدد بار جب قائد
اعظم سے پاکستان کے آئین سے متعلق سوال کیا گیا تو’’پاکستان ایک اسلامی
ریاست ہوگی جس کی بنیاد اسلامی آئیڈیلزپر رکھی جائیگی ‘‘ ان کا واضح جواب
ہوتا تھا لیکن ہما رے ’’بڑے ‘‘ ہیں کہ انہیں 1973ء کا آئین سب سے عزیز ہے
وہ اس آئین کیلئے جیل بھی جاسکتے ہیں ہیں اور جلا وطنی بھی کاٹ سکتے ہیں
کیوں ․․․؟کیونکہ یہ آئین اور یہ نظام ان کے بقاء کی علامت ہے یہ نظام ان
کی نسلوں کا محافظ ہے اور بس۔
کچھ روز قبل نیب کی جانب سے ’’معصوم ‘‘لوگوں کو تنگ کرنے کے حوالے سے
وزیراعظم صاحب کے بیان سے مجھے حیرت ہوئی ‘میں ایسے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں
لوگوں کو ضرورجانتا ہوں جو تھانیدار کے مظالم کا نشانہ بنے‘پٹواری کی وحشت
کا سامان بنے ‘سرکاری ملازمین نے جنھیں کچل کر رکھ دیا ‘پروٹوکول جیسی لعنت
جنہیں روز اذیت دیتی ہے لیکن وزیر اعظم صاحب نے کبھی ان لوگوں کو معصوم
نہیں کہا اور نہ ہی متعلقہ اداروں کو کوئی وارننگ دی میں جانتا ہو مستقبل
قریب میں اس کا کوئی امکان بھی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کی ایک
بڑی تعداد ’’غدار‘‘ ہو چکی اسے اس ملک سے ’’نفرت ‘‘ہے اور ارض پاک کی
سرحدوں سے باہر نکلنے کیلئے وہ ہر طرح کی قیمت دینے کو تیا ر ہیں ‘پاکستانی
نوجوان ترکی کا ویزہ لے کر یونان کے بارڈر پر گولی کھانے کو تیار ہے لیکن
اسے پاکستان میں رہنا گوارہ نہیں ‘شاہد پاکستانی دنیا کی واحد قوم ہیں جو
اپنی قومیت بدلنے کیلئے ترستے ہیں ‘اگر انہیں یورپی کہہ دیا جائے تو سینہ
چوڑا کر کے چلتے ہیں ‘چائنیزکہ دیا جائے تو عجیب سے خوشی محسوس کرتے ہیں
اور ایسا کیوں نہ کریں ‘اہل پاکستان جانتے ہیں کے سرحدیں پار کرنے کے بعد
انہیں انسان سمجھا جائے گا انہیں کوئی گنوار پولیس والا بیچ سڑک روک کر
ذلیل نہیں کرے گا ‘کوئی چوراہے میں ان سے نکاح نامہ طلب نہیں کرے گا ‘انہیں
جائیداد کے انتقال کیلئے کسی کے رقعے یا رشوت کی ضرورت نہیں ہوگی ‘ماں کے
علاج کیلئے بیوی کا زیور نہیں بیچنا پڑے گا ‘یونیورسٹی میں داخلے کیلئے گھر
گروی نہیں رکھوانا پڑے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں انصاف کیلئے جوتے
نہیں گھسانے پڑیں گے دوسرے ممالک میں یہ اجنبی ہو نگے لیکن کوئی انہیں
بھیڑبکریوں کی طرح ہانکے گا نہیں اس سوچ کی جتنی ذمہ داری عام آدمی پر ہے
اس سے کئی گنا زیا دہ ذمہ دار حکمران ہیں ‘وہ حکمران جو سفید کاٹن پر کالا
ویسٹ کوٹ پہن کر ملک کے سب سے بڑے ادار ے میں بیٹھ کر غریب کے مستقبل کا
فیصلہ کرتے ہیں ‘جو پانچ سال بعد عوام کو اپنا منہ دکھا کر غائب ہو جاتے
ہیں ‘یہ حکمرانی پاکستان میں ‘ کاروبار دبئی ‘یورپ میں اور پیسہ سوئس
بینکوں میں جمع کرتے ہیں ‘جن کی شامیں فائیوسٹار ہوٹلوں میں عوام کے خلاف
سازشوں میں گزرتی ہیں ‘یہ ہر روز عوام کو معاشی چکر میں گھما کر دماغی طور
پر مفلوج کرنے کے نت نئے طریقے دریافت کرتے ہیں ‘دولت اور حکمرانی ہی ان کا
مقصد ہے اور اس مقصد کیلئے یہ کچھ بھی کر گزرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے
ہیں ‘ان میں سے کوئی انقلاب کا نعرہ لگاتا ہے کوئی تبدیلی کا تو کوئی عوام
کے حالات بدلنے کالیکن یہ سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ان کی موجودگی میں نہ
تو انقلاب آسکتا ہے اورنہ کسی تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے عوامی حالات کی
بہتری میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی طبقہ ہے یہ سب لاحاصل سفر کے محروم مسافر
ہیں یہ تمام تر محنت اپنی کھیتی کو اجاڑنے کیلئے کر رہے ہیں یہ اپنے ہاتھوں
سے اپنی بستی تباہ کر رہے ہیں ‘یہ دن رات سر سبر و شاداب زمین کو بنجر کرنے
کیلئے کوشاں ہیں یہ لوگ دورِ حاضر کے نیرو ہیں میری دعا ہے کہ ان کا انجام
نیرو جیسا نہ ہو لیکن اُن بد عاؤں کا کیا ہوگا جو روزانہ کروڑوں لوگوں کے
دلوں سے حکمرانوں کیلئے نکلتی ہیں ․․․! |