کئی سالوں سے سیاسی اتار چڑھاؤ کے
ساتھ ساتھ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ فلاں محکمہ اتنے خسارے میں جارہا ہے۔
خسارے سے نکلنے کا راستہ ؟؟؟ نجکاری کی جائے۔
آئیں سب سے پہلے پاکستان کے چند ایک محکموں کے خسارے کی وجوہات جاننے کی
کوشش کرتے ہیں۔
واپڈا ملک میں بجلی کی پیداوار اور سپلائی کا سرکاری ادارہ ہے۔ بجلی دنیا
بھر میں ہر ایک کی ضرورت ہے۔ امیر ہو یا غریب، تاجر ہو یا بزنس مین، سکول
ہو یا ہسپتال، گھر ہو یا کارخانہ ہر فرد اور جگہ اس کے استعمال کی محتاج ہے۔
بجلی کے پیداوار کے مختلف ذرائع ہیں۔ پانی بجلی پیدا کرنے کا سب سے بڑا اور
سستا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ ہوا، کوئلہ، پیٹرولیم اور ایٹم کے ذریعے بھی
بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے سے نہ صرف یہ کہ
سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے بلکہ ملک بھر میں نہروں کا جال بچا کر زرعی
پیداوار میں بھی اضافہ کیا سکتا ہے۔ ان سب کے باوجود اگر واپڈا کا محکمہ
خسارے میں جارہا ہو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ملک بھر میں ترسیل کا
ذریعہ درست نہیں۔ دوسری وجہ بجلی کی ترسیل کے لیے ناقص میٹریل کا استعمال
جبکہ سب سے بڑی اور اہم وجہ بجلی کی چوری ہے۔ ملک کے بیشتر حصہ میں نہ صرف
گھروں میں چوری کی بجلی استعمال کی جاتی ہے بلکہ بڑے بڑے سرمایہ دار وسیع
پیمانے پر بجلی چوری میں ملوث ہے۔ جب ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا جاتا ہے
تو معمولی رشوت دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے۔
چند سال پاکستان ریلوے کو غیر منافع بخش ادارہ قرار دیا جاتا تھا۔ اگر
دیکھا جائے تو پاکستان میں ریلوے کے ذریعے سفر کرنے والوں کی تعداد دوسرے
ٹرانسپورٹ کے نسبت تقریبا 30 فی صد ہے۔ اس کے باوجود ریلوے کا ادارہ خسارے
میں جارہا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ریلوے کی خستہ حالت کی وجہ سے
مسافروں کی تعداد میں کمی۔ دوسری وجہ ٹریکس کی ناگفتہ بہ حالت اور سنگل
ہونا ہے جو گھنٹوں ضائع کر دیتے ہیں۔ جبکہ سب سے بڑی وجہ تقریبا 35 فی صد
لوگوں کا فری سفر کرنا ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کا ادارہ انتہائی خسارے میں جانے کی وجہ سے
اتصالات کے ہاتھوں بیچا جا چکا ہے۔ خسارے کی وجوہات میں سے ایک وجہ ناقص
سروس تھی۔ ہائی کال چارجز اور کم سہولیات کی وجہ سے بھی اس کا استعمال کم
تھا۔ کیبل بچھانے پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے تھے۔ نجکاری کے بعد
پانچ سالہ منصوبہ کے تحت کیبلز بچھانے کا خرچ انتہائی کم ہوا جبکہ کم قیمت
پر زیادہ سہولیات کی وجہ سے استعمال میں اضافہ ہو تا گیا ۔ آج وہ ایک منافع
بخش ادارہ ہے لیکن منافع کا ملک کی ترقی میں کوئی کردار نہیں۔
اج کل پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے کروڑوں روپے کے خسارے کے مباحثے گرم
ہے۔ ائیر لائن کی نجکاری کی تیاریاں عروج پر ہے۔ پی آئی اے کیوں خسارے میں
ہے؟ قومی ائیر لائن کا یہ خاصہ ہے کہ کبھی ان کی فلائٹ مقررہ وقت پر اڑان
نہیں بھرتی۔ طیاروں کی حالت دیکھ کر پیسینجرز ائندہ کے لیے سفر کرنے سے
توبہ کر تے تھے۔ انٹر نیشنل فلائٹس پر مسافر وں کو انتہائی کم لوڈ کی اجازت
دی جاتی ہے۔ اوور لوڈنگ کی صورت اضافی چارجز قومی ائیر لائن کی جگہ عملے کے
جیبوں کو گرم کر دیتے ہیں۔ جبکہ ایک وجہ وی آئی پیز کی فری سفر در سفر بھی
ہے۔
ایسے میں اگر وطن عزیز کے یہ سونے جیسے قیمتی ادارے خسارے میں نہیں جائیں
گے تو اور کیا ہوگا؟ کیا ان مسائل کا حل صرف نجکاری ہے؟ کیا کوئی کمپنی کسے
غیر منافع بخش ادارے کو خریدنے کا رسک لے سکتی ہے؟ ارباب اقتدار سمیت وطن
عزیز کے تمام سمجھ بوجھ والے افراد سے یہی چند سوال۔۔۔۔ |