خون ہی خون ہر طرف، اس کرۂ ارض کا ایک
ایساخطہ جہاں زمین کا شاید ہی کوئی ٹکڑا ایسا بچا ہو جہاں لہو کے قطرے نہ
گرے ہوں۔ اس جنگ زدہ سرزمین پر چند سال کے دوران چار لاکھ کے قریب افراد کی
جان لی گئی ہے، جن میں سے ایک تہائی تعداد بچوں کی ہے، جنھیں شام کی سر
زمین پر پیدا ہونے کی پاداش میں بے رحمی سے مار دیا گیا۔ یہ صورت حال
انسانی حقوق کے علم برداروں کے منہ پر تمانچہ ہے۔ کوئی بم باری سے مارا گیا
تو کسی کو بھڑکتی آگ میں پھینک دیا گیا، کسی کے سر کو جسم سے الگ کیا گیا
اور کئی بچے سخت سردی میں میں کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے کی وجہ سے
اس دنیا سے رخصت ہوئے، لیکن فکر کسے ہے۔ فکر ہے تو اس بات کی کہ اس خطے پر
اب کون سا گروہ حکومت کرے گا، فتح کس کو ملے گی، بازی کون لے جائے گا۔ یہ
مناظر بتانے کے لیے کافی ہے کہ ذکر ہے شام کا۔
انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے ’آبزرویٹری‘ نے اپنی
رپورٹ میں بتایا ہے کہ شام میں گزشتہ پانچ برسوں سے جاری لڑائی میں تین
لاکھ 70 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں سے دو لاکھ 70 افراد کی ہلاکت
کی تصدیق ہوچکی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاکتوں کے پراسرار واقعات کے
باعث تمام مارے جانے والے افراد کی تصدیق نہیں ہو سکتی، کیوں کہ کئی جنگ
زدہ شہروں تک انسانی حقوق کے کارکنوں کی رسائی ممکن نہیں۔
شام سے آنے والی ہوائیں ہر روز کسی سانحے کی خبر لاتی ہیں، لیکن اب اس دیس
سے ایک اچھی خبر آئی ہے، جو امید دیتی ہے کہ وہاں جاری آگ و خون کا کھیل
ختم ہوجائے گا اور شامی عوام ایک ایسی فضا میں سکون کا سانس لے سکیں گے جو
بارود، خون کی بو اور خوف سے بسی نہیں ہوگی۔ اور وہ خبر یہ ہے کہ شام کی
حکومت اور حزب اختلاف نے امریکا اور روس کے زیراہتمام جنگ بندی کا معاہدہ
قبول کرلیا ہے۔ شامی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت شامی فوج
مسلح آپریشن نہیں کرے گی۔ تاہم داعش، القاعدہ اور ان سے جُڑی تنظیموں کے
خلاف کاؤنٹر ٹیررازم آپریشن جاری رکھا جائے گا۔ دوسری طرف حزب اختلاف کی
تنظیموں کے قومی اتحاد نے مشروط طور پر جنگ بندی کو قبول کرلیا ہے۔ حزب
اختلاف کی مذاکراتی کمیٹی نے جنگ بندی کے لیے حزب اختلاف کے زیرقبضہ اٹھارہ
علاقوں کا محاصرہ ختم کرنے، قیدیوں کی رہائی اور فضائی اور توپ خانے سے
گولہ باری بند کرنے کے مطالبات پیش کیے ہیں۔ یہ معاہدہ ستائیس فروری کی رات
بارہ بجے سے نافذالعمل ہوگا اور اس کا اطلاق داعش، القاعدہ اور اس سے منسلک
النصرہ فرنٹ کے خلاف کارروائیوں پر نہیں ہوگا۔
شام میں خانہ جنگی کا آغاز مارچ 2011 سے ہوا تھا، جو رفتہ رفتہ خوف ناک شکل
اختیار کرتی گئی۔ یوں تو دنیا کے مختلف ممالک میں اس نوعیت کی صورت حال ان
ملکوں کو تباہ اور وہاں کے لاکھوں باسیوں کو نگل چکی ہے، لیکن شام کا
معاملہ اس لحاظ سے زیادہ بھیانک تھا کہ وہاں ہونے والی خانہ جنگی نے مذہبی
اور فرقہ وارانہ روپ دھار لیا، مزید یہ کہ اس جنگ میں عالمی طاقتوں سمیت
کئی ممالک کود پڑے، جس سے صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ اس خانہ جنگی
نے مسلم دنیا پر جو منفی اثرات مرتب کیے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ دنیا
بھر سے مسلم نوجوان فریقین میں سے کسی ایک کی حمایت میں لڑنے کے لیے شام
جاپہنچے، اور اپنے اپنے فرقے کی حمایت میں برسرپیکار ہوگئے۔ اس صورت حال کے
باعث پاکستان میں بھی تناؤ کی فضا پیدا ہوگئی۔ اور خود اہل شام پر تو اس
خانہ جنگی کے دوران ہر روز قیامت گزری، جہاں لاکھوں لوگوں کی زندگی کے چراغ
گل ہوئے اور ایک کروڑ دس لاکھ افراد کو بے گھر ہونا پڑا، جن میں سے چالیس
لاکھ افراد نے مصائب اٹھانے کے بعد دوسرے ممالک کی اجنبی سرزمینوں پر پناہ
حاصل کی ہے۔
اس جنگ کے نتیجے میں داعش جیسے عفریت نے جنم لیا، جس نے ظلم اور جہالت کے
نئے باب رقم کرکے اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
اس معاہدے سے جہاں یہ امید ہوئی ہے کہ شام کے عوام جو برسوں سے قیامت کا
سامنا کر رہے ہیں انھیں امن میسر آئے گا، وہیں یہ آس بھی بندھی ہے کہ شام
کا امن داعش اور اس جیسی انتہاپسند جماعتوں اور گروہوں کے لیے موت کا پیغام
لے کر آئے گا۔ اگر فریقین اور امریکا اور روس سمیت اس جنگ کا حصہ بن جانے
والے دیگر ممالک نے دانش مندی اور نیک نیتی سے کام لیتے ہوئے اس معاہدے پر
عمل درآمد کو یقینی بنایا، تو بے گھر اور بے وطن ہوکر کسمپرسی کی زندگی بسر
کرنے والے لاکھوں شامیوں کو اپنے وطن واپسی کا موقع میسر آئے گا۔ ساتھ ہی
مسلم دنیا، خاص طور پر پاکستان، میں اس جنگ کے باعث فروغ پاتی فرقہ پرستی
اور انتہاپسندی کی لہر بھی کم زور ہوگی۔
خانہ جنگی نے شام جیسے خوب صورت اور تاریخی آثار سے مالامال ملک کو جس طرح
تباہ کیا ہے، اس کا ازالہ شاید ہی ممکن ہوسکے۔ شام کی تباہی کی داستان
پاکستانیوں سمیت ہر قوم کے لیے سبق آموز ہے، جو بتاتی ہے کہ جب کسی ملک کے
حکم راں خود کو عوام پر مسلط رکھنے کی ضد اپنا لیں اور ان کے مخالفین اپنی
بات منوانے کے لیے دوسری اقوام کا سہارا لینے سے دریغ نہ کریں تو وہی کچھ
ہوتا ہے جو شام میں ہوا۔ |