کراچی میں بدھ کے روز ٹارگٹ کلنگ کے مختلف
علاقوں میں رونما ہونے والے واقعات نے ایک بار پھر شہر میں امن و امان کی
صورتحال مخدوش بنا دی ہے۔ ان واقعات میں 28افراد جاں بحق اور دو درجن سے
زائد زخمی ہوئے۔ شہر کے کئی علاقوں میں تجارتی مراکز بند کردیئے گئے جبکہ
تمام تعلیمی ادارے بند اور امتحانات ملتوی کردیئے گئے ہیں۔ اس دوران مختلف
علاقوں میں سات گاڑیاں بھی نذر آتش کردی گئیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے ٹارگٹ
کلنگ کی نئی سفاکانہ لہر کا نوٹس لیتے ہوئے رینجرز کو مکمل اختیارات دے
دیئے ہیں اور رینجرز اور پولیس کے گشت میں اضافہ کی ہدایت کردی ہے۔ ٹارگٹ
کلنگ کی تازہ مگر خوفناک لہر میں اے این پی اور جماعت اسلامی سمیت کئی
جماعتوں کے کارکنوں کی ہلاکت کا مطلب شہر کو سیاسی تصادم کی طرف لے جانے کی
دانستہ کوشش لگتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے دفاتر کو آتشزنی کا نشانہ بنانا اس
کی غمازی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس ضمن میں گورنر سندھ سے ملاقات بھی کی
ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ عناصر کراچی کی صورتحال خراب کرنا چاہتے ہیں عام
حلقے بھی اس کی تائید کرتے ہیں مگر وزیر اعلیٰ سے سوال کرنا ضروری سمجھتے
ہیں کہ جب آپ یہ جانتے ہیں تو ان عناصر کی نشاندہی اور انہیں قانون کی گرفت
میں لانے کا اپنا فریضہ ادا کرنے سے کیوں قاصر ہیں۔ ان حلقوں کا یہ کہنا
بھی بے جا نہیں کہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے انسان پہلے ہیں اور کسی سیاسی
پارٹی کے کارکن بعد میں۔ ان کے ورثاء کو انصاف ملنا چاہئے یہ کسی اور کی
نہیں خود حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح انسانی خون بہانے والے ناقابل
معافی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں وہ قاتل اور مجرم پہلے ہیں قطع نظر اس کے کہ
وہ کسی بھی جماعت یا گروپ کے زیر سایہ ہیں۔ لہٰذا ان کو قرار واقعی سزا
دلوانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ رینجرز کو مکمل اختیارات دیا جانا اور
رینجرز اور پولیس کے گشت میں اضافہ اسی صورت میں سود مند اقدام قرار پاسکتا
ہے کہ وقفے وقفے سے شہر کا امن و امان داؤ پر لگانے والوں کا مؤثر انداز
میں راستہ روکا جائے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب قانون شکن افراد یا عناصر کے
خلاف بلا امتیاز کارروائی ہو۔ مصلحتوں اور اقتدار بچانے کی خواہش سے مغلوب
حکومت ایسا ہرگز نہیں کر سکتی۔ ''مفاہمتی پالیسی'' کے تحت اور سب کچھ ہو
سکتا ہے تو اتحادی قوّتوں سے جرائم پیشہ بالخصوص انسانی جانوں سے کھیلنے
والوں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لئے مفاہمت کیوں نہیں ہو سکتی۔ بہت کچھ
ہو چکا ہے اب حکومت عوام کے مفادات کے تحفظ کی بہر صورت ضمانت دے۔ ایسا
نہیں کر سکتی تو اسے فیصلہ کرلینا چاہئے کہ اقتدار میں رہنا ہے یا نہیں؟
انسانی جانوں کو لاحق خطرات املاک کو نقصان اور تجارتی مراکز کی بار بار
بندش سیاسی معاشی اور معاشرتی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ حکومت نام کی کوئی چیز
ہے تو وہ اپنے وجود کا احساس دلائے۔ |