زمانہ جاہلیت کے وحشیانہ واقعات تو محض کتا
بوں اور دا ستانوں تک محدود تھے لیکن ابھی حال ہی میں شام سے ایک ویڈیو نے
اس دور کی یاد پھر تا زہ کر دی جس میں ایک شامی باغی کو سرکا ری فوج کے
اہلکار کا دل چا ک کر کے کھاتے ہوئے دکھا یا گیا اس ہیبت ناک نظر کو دیکھنے
کے بعد شا م کی صورت حال کا اندزہ بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح شام بر
بادی و تبا ہی کے دھانے پر کھڑا ہے داستان خونچا ں نے شا می شہریوں کو را
ندہ در گا ہ کر دیا ہے پناہ کی تلا ش میں در در ملکوں ملکوں بھٹک رہے ہیں
چند سال قبل ان دو کروڑشا میوں نے کب یہ سو چا ہو گا کہ ان کی خواتین ،بچے
اوربوڑھے کو یوں پو ری دنیا میں ذلیل و خورا ر ہو تے پھریں گے لاکھوں افراد
جان بچانے کے لئے قریبی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں بہت سے
مغربی ممالک اپنی سر حدوں کوخادار تار لگا کر بند کر ہے ہیں انھیں ڈر ہے کہ
اتنی بڑی تعداد میں آنے وا لے پنا ہ گزیں انکی برسوں کی بنا ئی ہو ئی ترقی
و خوشحالی میں حصہ دار بن جا ئینگے رہا ئش ، روز گا ر ، ہسپتال اور اسکولوں
میں ان کی آمد سے ان کی معیار زندگی میں یقینی تبدیلی آئے گی جو زندگی
کوبری طرح متاثر کر ئے گا اس معاملے میں ہنگری اور جر منی قا بل ستا ئش ہیں
جنھوں نے پناہ گزینوں کے لئے اپنی سر حد کو کھول دیا ہے پوری دنیا نے دیکھا
کہ کس طرح جرمن شہریوں نے تا لیاں بجا کر خیر مقدمی گیت کے ساتھ انھیں
ویلکم کیاتھا۔
ملک شام ایک قدیم تہذیبی و ثقا فتی مر کز ہے جس کا موجودہ نام عوامی
جمہوریہ السوریہ ہے اس کی نوے فی صد آبادی مسلما ن اور باقی دیگر مذاہب سے
تعلق رکھتے ہیں اپنی زر خیزی کے با عث یہاں زرعی پیداوار بھی خوب ہو تی ہے
زیتون ، تمبا کو ،جو دالیں اور گندم میں خود کفیل ہے 636ء میں مسلمان یہاں
فا تح کی حیثیت سے دا خل ہو ئے ایک طویل عر صے تک اموی اور پھر عبا سی حکمر
انوں نے یہاں حکومت کی انیسویں صدی میں یہ عثمانی سلطنت کے زیر نگوں رہا
لیکن 1918ء میں فر انسیسی اور بر طا نیہ کے مشترکہ حکومت نے قبضہ کر لیا
لیکن بعد میں فرانس نے پورے طور پر اسکا قبضہ سنبھا ل لیا بس ایک نام نہاد
کٹ پتلی مقامی سربراہ بر سر اقتدار تھا شا می قوم اس غلا می سے بیزار تھی
اس دوران شام میں مزا حمتی کا روائیاں بھی ہو تی رہیں ایک قابض اور محکوم
ملک کے درمیان جو ناروا پا لیساں اپنا ئی جا تی ہیں شام بھی ان سب کا شکا ر
رہا اسی دوران جنگ عظیم شروع ہو ئی فرانس کی توجہ اس پر مبذول رہی لیکن اس
نے شام پر پا بندیاں اور سختیاں بھی مزید تیز کر دی تھیں جس سے شامی با
شندوں میں آزا دی کی جد وجہد میں تیزی آ ئی جنگ عظیم کے خاتمہ پر فرانس کی
اقتصادی حالت سخت خراب تھی اسے شام کو سنبھالنا مشکل ہو گیا یوں شام کو 17
اپریل 1946ء میں آزاد ی مل گئی لیکن وہاں عر صہ تک فوجی حکو مت اور بغاوتیں
جا ری رہیں 23فروی 1966ء کو حا فظ لاسد نے صدر امین حفیظ کا تختہ الٹ کر
اقتدار پر قبضہ کر لیا اس سے قبل وہ تین سال تک وزیر دفاع رہے تھے اقتدار
پر قا بض ہو نے کے بعد انھوں نے رفرینڈم کے ذر یعے عوامی رضا مندی حا صل کی
اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک کئی ریفر ینڈم کرواکر کر ملک پر قا بض رہے
مصر کے ساتھ مل اسرائیل کے خلاف جنگ کی جس میں گولا ن کی پہاڑی کا کچھ حصہ
آزاد کر وایاصدر حا فظ ایک طویل عر صے تک بیمار رہنے کے بعد انتقال کے گئے
اور اب ان کے بیٹے بشرالسداس وقت شام کے صدرہیں کہا جا سکتا ہے کہ شام میں
اس وقت مورثی حاکمیت قائم ہے اسد حکومت کو اس وقت اپنے ملک میں خانہ جنگی
اورمزاحمت کا سامنا ہے جس میں زیادہ ترذمہ دار اسد حکومت کی پالیسیاں ہیں
جس نے وہاں کے عوام کو ان سے متنفر کر دیا جس پر حکومت نے مسائل کو حل کر
نے کے بجا ئے فوج کے ساتھ مل کر مز ید سختی سے کچلنے کی کو شش کی ۔ 2011ء
میں جب اسد حکومت کے خلاف شامی عوام نے علم بغاوت بلند کیا تھا تو تما م
دنیا کے جمہوریت پسند وں نے اس کی حما یت کی اس لئے کہ اسد حکو مت کی مطلق
النانی میں روز بروز اضا فہ ہو تا جا رہا تھا فوج کے ہا تھوں عوام کو
اذییتں پہنچا ئی جا رہی تھی جیلیں عوام سے بھر نے لگی تھیں لیکن کچھ عر صے
بعد اس لڑائی میں انتہا پسند گروہ نظر آنے لگے جو اسد حکومت کے خاتمے اور
اپنی حاکمیت کے خواب دیکھ رہی تھی یہ انتہا پسند جما عتیں اپنی نظر یئے اور
سلوک سے دنیا بھر میں دہشت گردوں کی صف میں شا مل ہیں ان میں داعش کے نام
سے کون واقف نہیں جس کے رہنما ابو بکر بغدادی نے خودکومسلمانوں کا خلیفہ
قرا دے کر سب سے بیعت کا حکم دیا حزب اﷲ کی امن ملیشیا بھی اس جنگ میں پیش
پیش ہے اس وقت شام کی سر زمین بمباری و تباہی کا منظر پیش کر رہی ہے عالم
اسلام میں اس پر اتنی تشویش دکھا ئی نہیں دیتی جتنی دکھا ئی دی جا نی چا
ہئے عرب ممالک پر امن تصفیہ کروانے میں کو ئی کردار ادا نہیں کرنا چا ہتے
نہ ہی اسد حکومت کو قبول کر نے میں دلچسپی رکھتے ہیں ایسی کو ئی تجویز نہیں
جس سے ریا ست کو متحد کیا جاسکے تر کی اپنی سر حد کے قریب اسد حکومت کو
برداشت نہیں کرنا چا ہتی تو سعودی بھی ترکی کا حامی ہے سعودی اور ترک
اسدحکومت کو مٹانے پر سارا زور لگا رہے ہیں تو روس اور ایران اسد کا ساتھ
دے رہی ہیں ان عرب ممالک کا ساتھ دینے کو بر طا نیہ،ا مریکہ اور روس بھی
پیش پیش ہے شام پر اپنے مفا دات کے لئے فضا ئی بمباری بھی جا ری ہے یہ
ممالک ا پنے حملے کے الگ الگ جواز پیش کر رہے ہیں چند دھا ئی قبل کی تاریخ
گواہ ہے کہ جہاں جہاں مسلم مما لک میں خانہ جنگی شروع ہو ئی وہاں اب تک پھر
کبھی امن وامان نہ ہو سکا خواہ وہ عراق میں صدر صدام حسین کی حکومت ہو ،مصر
کے حسنی مبارک یا پھر لیبیا کے معمعر قذافی ہوں ملک اجڑنے کے بعد ایک
مستحکم حکو مت قائم نہیں ہو سکی ہے اس تما م جنگ میں داعش کی سفا کا نہ کا
روا ئیاں اور انٹر نیٹ پر دیکھی دل دہلانے والی ویڈیوز جن میں وہ پکڑے جا
نے والے قیدیوں کے سر قلم کر تے دکھا ئی دیتے ہیں ۔لگتاہے کہ ائندہ کئی بر
سوں تک شام کی سر زمین اسی طرح خون سے سرخ رہے گی حریف و حلیب ممالک د ور
سے اس بازی کوجیتنے کی کوشش کر تے رہیں گے سودو زیاں کے اس کھیل میں سب
زیادہ گھا ٹا ان بے بس وبے گناہ شامی عوام کاہے جو نہ اپنے وطن میں رہ سکتے
ہیں نہ انھیں کہیں اور جا ئے پناہ نصیب ہے ایک جانب خار دار کا نٹو ں کے
بارڈر ہیں تو دوسری طرف اسد فوج اور داعش جیسی دہشت گرداور شدت پسند جماعت
کی خوف ناک طرز حکمرانی کا خطرہ ہے جو ابھی محض مسند خلافت کی آروز کے بزور
اپنی ویڈیو ز سے دنیا کو دہلا ئے دے رہا ہے کیا ؟طا قت و مفادات کے اس کھیل
میں دنیا کو پھر زما نہ جا ہلیت میں پہنچا دیا جا ئے گا ۔ |