بجٹ 2016:حقیقت کم خواب زیادہ

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے سلسلہ وار پروگرام ’’من کی بات ‘‘میں کل طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے یہ جملہ کہاتھاکہ کل ہمارا امتحان ہے جسے سواسو کڑور اہل وطن لیں گے نریندرمودی کے اس جملہ کا یہ مطلب لیا گیا کہ این ڈی اے حکومت ا پنے اس بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہونچانے کی کوشش کرے گی ،سرکاری منصوبوں کے نفاذ پر توجہ دی جائے گی ،بڑھتی مہنگائی کو کم کرنے کے اسباب اپنائے جائیں گے ،غریبوں اور متوسط طبقہ کے شہریوں کی خاص رعایت کی جائے گی، بحٹ پیش کرنے سے قبل کسانوں کی حمایت میں ریلیاں منعقد کرکے بھی یہی تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ اس بجٹ میں کسانوں کو خاص طور پر یاد رکھا جائے گا انہیں مکمل مراعا ت دی جائے گی،میڈیا اہلکار اور تجزیہ نگار بھی یہی تجزیہ کررہے تھے کہ رواں بجٹ میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی کسانوں کیلئے نوید مسرت لیکر آئیں گے، لیکن بجٹ پیش ہونے کے بعدیہ تمام امید یں منقطع ہوگئی ، تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے ،غریب اور متوسط طبقہ کے شہری مکمل طور پر مایو س ہوگئے ۔

وزیر خزانہ ارون جیٹلی کا یہ دوسرا بجٹ ہے لیکن یہ بجٹ گذشتہ دوبجٹ سے بھی ناقص ہے اور اس میں ان بجٹوں کا کوئی عکس نظر آرہاہے ،اسمارٹ سٹی، انڈسٹریل کوریڈور، بندرگاہوں کی تعمیر، ڈیجیٹل انڈیا، نربھیا فنڈ، مہنگائی فنڈ، صاف بھارت مہم جیسی باتوں کو تقریبا بھلا دیا گیا ہے، جنہیں نئی حکومت کے اہم ترین منصوبہ کے طور پر پیش کیا گیاتھا،حکومت کے کاروبار اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے جیسے وعدے کا بھی یہاں کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔اسی طرح جائیداد اور کمپنی ٹیکس کے معاملے میں خاص مراعات اور ٹیکس کے فریم ورک میں تبدیلی کی طرف قدم اٹھانے کی باتیں بھی نظر انداز کردی گئی ہیں،اس کے علاوہ امیروں پر کئی طرح کے فیس لگادئیے گئے ہیں،ایک لحاظ سے کسان فیس بھی ان پر مسلط کیا گیا ہے،یہ الگ بات ہے کہ ان پر لگائے گئے فیس کی ادائیگی عوام کے جیب سے ہی ہوگی، دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ غریبوں پر ٹیکس لگاکر امیروں کو فائدہ پہونچانے کی کوشش کی گئی ہے ،بجٹ میں ’’اسٹارٹ اپ‘‘ انڈیا کے نعرے پر بھی خاص توجہ نہیں نظر آتی ہے جسے حال ہی میں بہت زور شور کے ساتھ اہم ترین منصوبہ کے طور پر شروع کیا گیا ہے۔

اس بجٹ میں متوسط طبقے کو بھی خوش کرنے اور اسے اپنا ووٹ بینک بنانے کی کوششیں نہیں کی گئی ہے،یاد کیجئے نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی رہنے کے دوران متوسط طبقہ کی تعمیروترقی کی بات کیا کرتے تھے اورجناب جیٹلی بھی اپوزیشن میں رہتے ہوئے انکم ٹیکس چھوٹ کی حد 5 لاکھ روپے تک کرنے کی باتیں کیا کرتے تھے،لیکن شاید زمینی حقائق نے انہیں اس کی چھوٹ نہیں دی یا پھر کانگریس کو بدنام کرنے کی خاطر دیگر جملوں کی طرح وہ اس کا بھی استعمال کررہے تھے،انکم ٹیکس کی چھوٹ کی حد جوں کی توں رہنے دی گئی،جو کچھ کرایہ اور پہلی بار مکان خریدنے والوں کے ٹیکس میں چھوٹ بڑھانے کا اعلان کیا گیا ہے جس کا اثر بھی خاص نہیں ہونے والا ہے،علاوہ ازیں سروس ٹیکس کی شرح میں نصف فیصد کے اضافہ کی بات کی گئی ہے جس سے کھانا ،پینا، سفر، بجلی ،فون بل اور تمام چیزیں مہنگی ہو جائیں گی،اس مہنگائی کا درد بھی سب سے زیادہ متوسط طبقہ کے شہریوں اور عام آدمی کو جھیلنا پڑے گااور غریبوں کیلئے کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

بجٹ میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ کسانوں کی آمدنی 2022 تک دوگنا ہوجائے گی لیکن ان وعدوں کو پوراکرنے کے اقدامات دوردورتک نظر نہیں آرہے ہیں،لالو پرساد کی زبان میں کہا جائے تو مودی سرکاری نے ان دنوں کا بجٹ بھی پیش کردیا ہے جب اس کا وجود ہی نہیں ہوگا مطلب 2019 میں ہونے والے لوک سبھا میں بی جے پی اقتدار میں واپسی نہیں کرسکے گی ایسے میں 2022 تک وعدوں کو دراز کرنا اور بجٹ میں طویل مدت کا تذکرہ بے فائدہ اور لالی پاپ دکھانے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ،کانگریس کے جنرل سکریٹری دگ وجے نے بھی خوب چٹکی لی اور ٹوئٹر کرکے کہاکہ 2014 میں انتخاب کے دوران مودی جی صرف 60 مہینے کا وقت مانگ رہے تھے اور 2022 تک کا وعدہ کررہے ہیں ۔

جس منریگا کو حکومت کوستی رہی ہے اور مودی جی کانگریس کی ساٹھ سال کی ناکامی کا دستاویزبتاتے رہے ہیں، اس میں گزشتہ دو بجٹ کے مقابلے زیادہ زور دیا گیا ہے،تاہم اس فنڈ میں بھی محض 4000 کروڑ روپے کا ہی اضافہ کیا گیا ہے،ویسے بھی جس 38500 کروڑ روپے کے الاٹمنٹ کو بے مثال بتایا جا رہا ہے، اس سے زیادہ قریب 39000کروڑ روپے سے زیادہ کا الاٹمنٹ یو پی اے کی حکومت میں ہی ہو چکا ہے۔

فصل بیمہ اور کسانوں کو قرض دینے کی باتیں بھی کی گئی ہیں، لیکن بینکوں کی خستہ حالی کے پیش نظر اس کا کتنا فائدہ ملے گا، یہ کہنا مشکل ہے، وزیر اعظم آبپاشی منصوبہ بندی اور وزیر اعظم دیہی سڑک منصوبہ بندی کے فنڈ میں کچھ اضافہ کیا گیا ہے ،اسی طرح دیہات میں بی پی ایل خاندانوں کے لئے ایل پی جی کنکشن کے فنڈ میں 2000ملین روپے مختص کئے گئے ہیں ،دیہی علاقوں اور چھوٹے صنعتوں کے لئے بھی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے،لیکن ان تمام سے دیہی آمدنی میں کتنا اضافہ ہوگا اور اس کا کتنا حصہ ان غریبوں کو مہنگائی سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتلائے گا ۔بجٹ میں تمام دیہات کو 2018بجلی فراہمی کا بھی وعدہ کیا گیا ہے ، ہوائی جہاز اور ریل کے ذریعے نقل و حمل میں بھی سرمایہ کاری بڑھا دی گئی ہے،لیکن ان منصوبوں میں اگر سرکاری بینکوں سے فنڈز جمع کرنے کی فکر ہے تو وہ بھی مشکوک سی لگتی ہے۔

بجٹ کے ذریعہ حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم پر امیر پروری کا الزام لگنے کے بجائے غریب پروری کیلئے ہماری ستائش کی جائے گی ،اس بجٹ کو غریبوں کو حق میں مفید ماناجائے گالیکن حقائق اس کے برعکس ثابت ہوئے اور اس کوشش میں حکومت کی تدبیریں الٹی پرگئی ہیں ، اسٹاک مارکیٹ کا رخ بھی یہی بتا رہا ہے کہ مودی جی کی یہ کوشش بہتوں کو راس نہیں آئی ہے،ریل بجٹ کی طرح یہ بجٹ بھی مہنگاترین بجٹ ثابت ہوا ہے اور غریبوں کی تقدیر بدلنے کا دعوی کرنے والی حکومت دن بہ دن غریبوں کا جینا مشکل کررہی ہے ،ان کی زندگی کو کٹھن اور دشوار بنارہی ہے ۔بجٹ 2016-17 سے سب سے زیادہ مایوسی غریبوں ،کسانوں اور متوسط طبقہ کے شہریوں کو ہوئی ہے ،مختصرلفظوں میں یہ کہئے کہ ریل بجٹ کی طرح عام بجٹ بھی عوام پر اثر انداز نہیں ہوسکا اور نہ ہی عوا می فائد ے کیلئے کسی چیز کا التزام کیا گیا ۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 181137 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More