کسی ملک اور معاشرے کی بقاءاخلاقی روایات
کی پاسداری میں مضمر ہے
اخلاق کیا ہے اور اخلاقی قدریں کیا ہوتی ہیں، معاشرتی زندگی میں اِس کیا
اہمیت و حیثیت ہوتی ہے،چند دنوں سے میڈیا میں یہی گفتگو موضوع بحث
ہے،دانشورانِ قوم، ہمارے رہبرانِ قوم اور حکومتی ذمہ داران کو اخلاق،
اخلاقی قدریں اور اپنی اسلامی روایات و اساس یاد دلانے کی کوشش کر رہے ہیں،
لیکن افسوس کہ یہ ساری بحث و مباحثہ آئین و قانون کی دفعات کے سامنے آکر دم
توڑ دیتی ہے، کیونکہ آئین و قانون کی دفعات حکمرانوں پر اخلاقی روایات اور
قدروں کے اطلاق کا تقاضہ نہیں کرتیں۔
ویسے بھی ہمارے یہاں رواج بن گیا ہے کہ اگر آئین و قانون کی دفعہ اجازت
دیتی ہے تو پھر کسی اخلاقی ضابطے اور روایت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں
ہے،ارباب اقتدار سمیت معاشرے کا یہ مزاج، معاشرے کو تیزی سے معاشرتی انحطاط
کی طرف لے جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے سے ایک دوسرے کا احساس،
ہمدردی، لحاظ و مروت، رواداری، جذبہ قربانی اور خود احتسابی جیسی اعلیٰ
اخلاقی روایات کا مظاہرہ ناپید ہوتا جارہا ہے، ویسے بھی یہ اخلاقی قدریں
اور روایات اُن معاشروں میں لاگو ہوتی ہیں، جہاں ضمیر زندہ ہوتے ہیں، جہاں
آئین و قانونی اجازت کے باوجود اخلاقی قدریں راہ کی دیوار بن کر ایک فرد
اور بالخصوص حکمرانوں کو خود احتسابی کیلئے پیش کرنے پر تیار کرتی ہیں،
امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے بہت سے ممالک میں آج بھی ہمیں اِس کی نظیریں
ملتی ہیں۔
لیکن اگر نہیں ملتی تو ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں نہیں ملتی، المیہ یہ
ہے کہ ہمارے یہاں کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ آگے بڑھ کر خود کو احتساب
کیلئے پیش کر کے ایسی کوئی مثال قائم کرے، پھر ایسی صورتحال میں ہم کیوں
اپنے رہبران ِقوم سے اخلاقی تقاضے پورے کرنے کی توقع رکھتے ہیں، کیوں چاہتے
ہیں کہ وہ اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کریں، تعفن زدہ سڑے ہوئے معاشروں میں
ایسا ہی ہوتا ہے، اب اگر ایک ایسے معاشرے میں صدر مملکت رحمان ملک کی سزا
معاف کردیتے ہیں تو کیا برا کرتے ہیں، اخلاقی قدریں اجازت دیں یا نہ دیں،
آئین و قانون تو اجازت دیتا ہے، لہٰذا ایسی صورت میں حکمرانوں کو اخلاقی
ضابطے اور قدریں یاد دلانے کا کیا فائدہ، ہماری نظر میں یہ کار عبث کے سوا
اور کچھ نہیں۔
کیونکہ پاکستان کا آئین و قانون صدر مملکت کو آئین کی دفعہ 45 کے تحت یہ
اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی کی بھی سزا معاف کرسکتے ہیں، آئین کی یہ دفعہ
انہیں یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی عدالت، ٹربیونل یا دیگر مجاز اتھارٹی کی
جانب سے دی گئی سزا کو معاف، ملتوی، مؤخر،اُس میں تخفیف اور اُسے معطل یا
تبدیل کرسکتے ہیں، البتہ سپریم کورٹ جو آئین کی تشریح کی مجاز اتھارٹی ہے،
ایسے کسی کیس میں صدر کی جانب سے استعمال ہونے والے اِس اختیار کا جائزہ لے
سکتی ہے کہ یہ اختیار کسی بدنیتی کے تحت تو استعمال نہیں کیا گیا، اب یہ
عدالت عظمیٰ کو دیکھنا ہے کہ صدر مملکت نے یہ اختیار سزا کے حتمی مرحلے کی
تکمیل پر استعمال کیا ہے یا اُس سے قبل اور یہ کہ کیا رحمان ملک کے پاس
ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا موقع موجود تھا
یا نہیں؟ اِس کے ساتھ ہی یہ سوالات بھی اپنی جگہ وضاحت طلب ہیں کہ صدر کی
جانب سے سزاﺅں کی معافی کی صورت میں کیا رحمان ملک کی حیثیت ایک سزا یافتہ
مجرم کی نہیں رہی، کیا اُن کو اُن تمام قانونی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا
پڑے گا جس کا عموماً ایک مجرم کو ہوتا ہے اور کیا ایسی صورت میں وہ ایوان
بالا کے رکن رہنے کے اہل رہیں گے؟
بہر حال اِن سارے سوالات کے جوابات تو آنے والے وقت ہی بہتر دے گا، لیکن
یہاں ایک بات تو طے ہے کہ صدر نے جو کچھ کیا،انہیں اُس کا اختیار حاصل تھا،
سزا کی معافی کی سمری پیش کرنا وزیراعظم گیلانی کے دائرہ کار میں تھی،
عدلیہ کے فیصلے کو چند گھنٹوں کے اندر اندر مسترد کر دینے میں بھی بظاہر
کسی آئینی شق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی اور لاہور ہائیکورٹ سے سزا اور سندھ
ہائیکورٹ سے ضمانت کی گنجائش بھی ہمارا قانون فراہم کرتا ہے، لیکن اگر کوئی
مسئلہ ہے تو وہ اخلاقی روایات کا ہے، پامالی ہوئی ہے تو وہ اُن اخلاقی
اصولوں اور قدروں کی ہوئی ہے جو کبھی ہماری میراث، اساس، شناخت اور خاصہ
تھیں۔
یہ حقیقت اظہر الشمس ہے کہ اخلاقیات انسانی معاشروں کو استوار رکھنے والا
بنیادی ستون ہے، انسانی معاشرے کی پوری عمارت، اخلاقیات کے بنیادی ستون پر
ہی استوار ہوتی ہے، آپ کتنا ہی جامع دستور کیوں نہ بنا لیں، کتنی ہی عمدہ
قانون سازی کیوں نہ کرلیں، کتنے ہی خوبصورت قاعدے، ضابطے اور اصول کیوں نہ
وضع کرلیں اور کتنا ہی بے لاگ نظام عدل و انصاف کیوں نہ تشکیل دے لیں، لیکن
اگر اُس کے تانے بانوں میں سے اخلاقیات کا بنیادی عنصر نکال دیا جائے تو
معاشرہ دور جدید کے سارے عمرانی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود ایک ایسے
تاریک جنگل کی مانند ہوتا ہے، جس میں درندوں کا راج اور فرعونی طاقتوں کی
حکمرانی ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ بھی درندہ راج کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہے،آج
ہمارے قومی ادارے داخلی انتشار، فساد اور لوٹ مار کا منظر پیش کر کے قومی
تعمیر کو تقویت دینے کے بجائے قوم کے زوال کا سبب بن رہے ہیں، اس میں کچھ
شک نہیں کہ یہ سب اللہ کی نعمتوں کی سلبی کی ہی ایک صورت ہے، اَمر واقعہ یہ
ہے کہ اعمال کا سارا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے، نیت میں اگر قومی اداروں
کے حقیقی فروغ اور اللہ کی رضا مندی پوری طرح شامل نہ ہو اور مقصد اِن
اداروں کی سربراہی کی آڑ میں اپنی اور اپنی منظور نظر شخصیتوں کو پناہ و
تحفظ دینا اور دنیاوی اغراض ومقاصد ہوں تو ظاہر ہے اِس مقصد کا منطقی نتیجہ
یہی نکلے گا کہ ذاتی کاروبار فروغ پائے گا، زمین، پلاٹ اور جائیداد و پرمٹ
میں اضافہ ہوگا، جاہ حب حال کے سارے مواقع ملیں گے، مگر یہ سب کچھ قومی
اداروں کی تباہی و بربادی کی قیمت پر ہوگا، یاد رہے کہ جب قومی ادارے تباہی
و بربادی کا شکار ہوتے ہیں تو قوم کے مؤثر افراد کی انفرادی خوشحالی بھی
زیادہ دیر قائم تک نہیں رہ سکتی اور وہ بھی قوم کے اجتماعی زوال کی لپیٹ
میں آجاتے ہیں۔
چنانچہ اِن حالات میں سوال یہ ہے کہ ہمارے قومی، ملی اداروں کے سربراہ
اداروں کو اخلاص نیت، بے غرضی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اصول و قواعد
کے مطابق چلانے پر کیوں تیار نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب فرد اور افراد
ایک بار نفسی خرابیوں اور اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو قدرت کے
ایک ایسے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں جس سے نکلنے کی ساری راہیں بند ہوجاتی
ہیں، یہ دراصل قدرت کا سب سے بڑا عذاب ہے، اس لیے کہ قومی ملی اداروں میں
قوم کی اجتماعی قوت شامل ہوتی ہے، باالفاظ دیگرقوم نام ہی اجتماعی اداروں
کے بقاء و استحکام کا ہے، کسی قوم کیلئے اِس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا
ہے کہ اس کے سربراہ اور ذمہ داران اخلاقی بیماریوں میں گرفتار ہوکر اپنے
اصل مرتبے و مقام اور ذمہ داریوں کو بھول جائیں۔
یہ حقیقت آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہم قومی اور اخلاقی زوال کی ساری
حدود تجاوز کرچکے ہیں، معیشت، معاشرت اور سیاست کے ماحول میں اخلاقی
خرابیوں نے ہمیں اسفل السافلین میں پھینک دیا ہے، آج ہمارے ملک میں جو
حالات چل رہے ہیں اُس میں ہر طرف اقرباء پروری، رشوت، لوٹ مار اور کرپشن کا
بازار گرم ہے، ان ناسوروں نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے،
اوپر سے ہمارے ارباب اقتدار کا طرز عمل، الامان والحفیظ ، لوگ حرام کھانے
کو منہ کھولے بیٹھے ہیں، دوڑ لگی ہوئی ہے کہ جتنا روپیہ سمیٹا جاسکتا ہے
سمیٹ لو، خواہ اس کیلئے کتنا ہی جھوٹ، فریب اور دھوکہ کیوں نہ کرنا پڑے، کر
گزرو، اَمر واقعہ یہ ہے کہ بد سے بد تر حکمرانوں نے بھی پاکستانی معاشرے کی
اخلاقی قدروں کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا موجودہ حکومت کے دور میں
پہنچا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں جو فساد پھیلا ہوا ہے وہ دراصل اسی ذہنیت اور طرز فکر
کا شاخسانہ ہے، جب تک ہم اور ہمارے حکمران اپنی سوچ نہیں بدلیں گے ہماری
حالت نہیں بدلے گی، تاریخ عالم اِس بات کی شاہد ہے جن قوموں نے اپنے مضبوط
اخلاق اور اعلیٰ سیرت و کردار کا مظاہرہ کیا، وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں
ہمیشہ سربلند اور غالب رہیں اور جن قوموں نے کمزور اخلاق اور گھٹیا سیرت و
کردار کا نمونہ پیش کیا،وہ دنیا میں ذلیل و خوار اور محکوم ہوکر صفحہ ہستی
سے مٹ گئیں، حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک اور معاشرے کی بقاء و تحفظ اخلاقی
روایات کی پاسداری میں مضمر ہے،جس قوم اور معاشرے کے لوگ اخلاقیات سے عاری
ہوجاتے ہیں، وہ معاشرہ اور ملک کھوکھلا اور دیوالیہ ہوجاتا ہے، پھر اسے
تاریخ کا قصہ پارینہ بننے سے مادی طاقتیں بھی نہیں روک سکتیں، عصر حاضر میں
مختلف ممالک جو مادی اور نیوکلیائی اعتبار سے خود کو خواہ جتنا بھی مضبوط
کیوں نہ سمجھتے ہوں، مگر اُن کی اندرونی حالت حد درجہ ناگفتہ بہ ہے، کی
صورت حال اور مثال ہمارے سامنے موجود ہے، لہٰذا اس تناظر میں اخلاقیات ہی
آئینی و قانونی اختیار کو تہذیب و سائشتگی عطا کرتا ہے،حکمرانوں کی ضد،
اَنا اور خودسری کو لگام دے کر انہیں آئین، قانون اور ضابطے کا پابند بناتا
ہے اور بے اصولی کی تلوار سے اخلاقی روایات پر چر کے لگانے سے روک کر صاحب
اقتدار کو تہذیب و اخلاق کے دائرے میں رکھتا اور اختیار کو شتر بے مہار
نہیں ہونے دیتا۔ |