کعب بن اشرف ایک یہودی نبی کریم صل
اﷲ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور قریش کومسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا۔یہ
یہودی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو اور انکے واسطے سے اﷲ کو اذیت دیتا تھا۔
رسول پاک ﷺ کو ظاہر ہے، اس طرح کی باتوں سے ایذا پہنچتی تھی۔ لیکن چونکہ
رسول اﷲ ﷺ کا ہر کام ، انکی زبان مبارک سے نکلنے والا ہر لفظ گویا وحی کی
صورت ہوتا تھا، تو وہ خود سے فیصلہ نہ کر سکتے تھے۔ جب تک حکم ربی نہیں آیا
تھا، آپ ﷺ خاموش تھے۔ لیکن حضرت عمر فاروق ؓ کئی بار اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور
اپنی تلوار کو نیام سے نکال کر لہرا کر بارگاہِ رسالت میں عرض کی تھی کہ ان
کو حکم دیا جائے وہ اس شاتمِ رسول، گستاخِ رسول ﷺ کا سر تن سے جدا کر کے آپ
ﷺ کے قدموں میں ڈال دیں۔لیکن جب تک رب کا حکم نہیں آیا تھا ، آپ ﷺ انہیں یہ
اجازت کیسے دے سکتے تھے۔ پھر جب اذن ہوا تھا آپ ﷺ باقاعدہ صحابہ کرام ؓ کی
محفل میں پوچھا کہ کون ہو گا جو اس کو رضائے الٰہی اور رضائے محمد مصطفی ﷺ
کے لیے جہنم واصل کرے۔ کئی صحابہ کرام یقیناً اٹھ کھڑے ہوئے ہوں گے، لیکن
یہ سعادت بزورِ بازو نیست۔ قرعہ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کے نام نکلا۔ آپ ؓ
گئے، اس کا سر تن سے جدا کیا اور پھر رسول پاک ﷺ کو اطلاع دی کہ اس مردود و
گستاخِ رسول ﷺ کو اس کے کیفر کردار تک پہنچا دیا ہے۔ رسول پاک ﷺ نے حضرت
محمد بن مسلمہ ؓ کے لے دعائے خیر فرمائی۔
اسی طرح ایک اور ایک اور یہودی ابو رافع نے بھی رسول پاک ﷺ کی شان میں
گستاخی شروع کی ہوئی تھی۔ اور اپنے اس یہودی مردود کی پیروی میں لگا ہوا
تھا۔ رسول پاک ﷺ کی شان میں گستاخانہ باتیں پھیلاتا تھا۔ اور رسول پاک ﷺ کے
خلاف ہونے والی سازشوں میں آپ ﷺ کے دشمنوں کا ساتھ دیتا تھا۔صحابہ کرام ؓ
تو کب کے اس کا سر تن سے جدا کرکے اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر چکے ہوتے لیکن
آپ ﷺ کی وجہ سے خاموش تھے۔ پھر جیسے ہی حکم الٰہی آیا تو رسول پاک ﷺ نے اس
یہودی کو قتل کرنے کے لیے چند انصار کو نامزد فرمایا۔ جن کی تعداد تین تھی۔
ان کا امیر انہی میں سے ایک حضرت عبد اﷲ بن عتیک کو مقررفرمایا۔جب یہ
جانبازغازی کامیاب ہو کر واپس لوٹے تو اس وقت رسول پاک ﷺ خطبہ ارشاد فرما
رہے تھے۔ جونہی رسول اﷲ ﷺ کی نظر مبارک ان صحابہ کرام پر پڑی ، پکار اٹھے۔
افلحت الوجوہ۔ یہ چہرے کامیاب ہو گئے۔
آقا علیہ السلام اپنے جانثار صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے، چودھویں کے
روشن چاندکے گرداگرد ستاروں کی حسین محفل۔۔۔ ایک قتل کا مقدمہ درپیش تھا،
ایک باندی کو کسی نے قتل کردیا تھا اور قاتل کا کچھ پتہ نہ تھا، مقدمہ کی
صورت حال پیچیدہ ہورہی تھی، جب کسی طرح قاتل کا نشان معلوم نہ ہوا تو آقا
علیہ السلام نے اہل مجلس سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"جس شخص نے بھی یہ کام کیا ہے، اور میرا اس پر حق ہے تو اسے میں اﷲ کی قسم
دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے"
آقا علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر ایک نابینا شخص اس حالت
میں کھڑا ہوگیا کہ اس کا بدن کانپ رہا تھا، اور کہنے لگا کہ:
"یارسول اﷲ میں اس کا قاتل ہوں، یہ میری ام ولد تھی اور اس کی میرے ساتھ
بہت محبت اور رفاقت تھی، اس سے میرے دو موتیوں جیسے خوبصورت بچے بھی تھے،
لیکن یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کیا کرتی اور آپ کو
برا بھلا کہا کرتی تھی، میں اسے روکتا مگر یہ نہ رکتی، میں اسے دھمکاتا
پریہ باز نہ آتی۔ کل رات اس نے آپ کا ذکر کیا اور آپ کی شان اقدس میں
گستاخی کی تو میں نے ایک چھری اٹھائی اور اس کے پیٹ پر رکھ کر اس چھری پر
اپنا بوجھ ڈال دیا یہاں تک کہ یہ مر گئی"۔نابینا صحابی یہ سارا واقعہ سنا
کر خاموش ہو چکے تھے۔معاملہ بہت نازک اور کیس سیدھا سیدھا "دہشت گردی" بلکہ
"فوجی عدالت" کا تھا۔ایک شخص نے قانون ہاتھ میں لے لیا تھا۔از خود مدعی اور
از خود جج" بنتے ہوئے ایک انسان کو قتل کردیا تھا۔۔"حکومت کی رٹ" چیلنج
ہوچکی تھی۔حکومت بھی کسی چیف، صدر یا وزیر اعظم کی نہیں کی نہیں، خود سرکار
دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی۔۔۔ "محض مذہبی جذبات" کی بناء پر ایک انسان کو
قتل کیا جاچکا تھا۔"مذہبی جنونیت" کی روک تھام شاید بہت ضروری تھی اور
"جذباتیت" کا قلع قمع بھی۔۔۔۔پھر وہ لب ہلے جو "ان ھو الا وحی یوحی" کی سند
لئے ہوئے تھے۔جن کا ہلنا بھی وحی، جن کا خاموش رہنا بھی وحی تھا، جن سے
نکلے ہوئے الفاظ قیامت تک کے لئے قانون بن جاتے تھے، جن کا غصہ بھی برحق
اور جن کا رحم بھی برحق تھا، جو جان بوجھ کر باطل کہہ نہیں سکتے تھے اور
خطا پر ان کا رب ان کو باقی رہنے نہیں دیتا تھا۔۔۔۔!!سب کان ہمہ تن گوش
تھے۔فضا میں ایک آواز گونجی، وہی آواز جو سراپا حق تھی۔۔۔
"الا۔۔۔! اشھدوا۔۔۔! ان دمھا ھدر""سنو۔۔۔! گواہ ہو جاؤ۔۔۔۔! اس لونڈی کا
خون رائگاں ہے"(اس کا کوئی قصاص نہیں)۔
مولانا شیرانی صاحب کہتے ہیں کہ ممتاز قادری کا فعل، گو کہ مذہبی جذبات میں
کیا گیا تھا، غیر قانونی تھا کیونکہ ممتاز قادری نے قانون اپنے ہاتھ میں
لیا تھا اور ممتاز قادری کو سزا اس لئے ملی کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر
نہیں ہے۔ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ چونکہ اﷲ تعالیٰ ہی پوری کائنات کا
بلا شرکتِ غیرے حاکم ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی
مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا، وہ ایک مقدس امانت
ہے۔۔۔۔ مولانا شیرانی صاحب، بتائیں کہ غازی ممتاز قادری شہید نے تو وہ
اختیار استعمال کیا جو اﷲ اور اسکے پیارے رسول ﷺ نے اس کو تفویض کیا۔ تو
کہاں آئین کی خلاف ورزی ہوئی؟
سلمان تاثیر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ چونکہ گستاخی رسول ﷺ کا قانون
ایسا ہے جو کہ غلط استعمال ہو سکتا ہے، اس کے اثرات معاشرے پر غلط پڑ سکتے
ہیں اس لیے اس میں ترمیم کی ضرور ت ہے یا اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ میرا
عوام سے سوال ہے کہ اگر سلمان تاثیر یہ کہتا ہے کہ چونکہ اپنے چہروں پر
گھونگنٹ نکلنا یا چادر سے چہرے کو ڈھانپنا معاشرے میں بے راہ روی پھیلا رہا
ہے، روزے رکھنے سے انسان کی صحت کمزور ہو جاتی ہے تو قرآن کی آیات کو تبدیل
کرنے کی ضرورت ہے، تو کیا حکومت وقت یہ بھی کر گزرتی؟ شاید ۔۔ لیکن پھر نہ
تو اس حکومت کے لیے اور نہ ہی اس حکومت کو چلانے کے لیے اس کے پاس افرادی
قوت باقی رہ جاتی، جو بھی سلمان کے اس بیان کی تصدیق کرکے حامی بھرتا۔چونکہ
سلمان تاثیر نے گستاخی کی تھی، قانون اسلام کو تبدیل کرنے کی بات صریحاً
گستاخی ہے۔ اور جب حکومت کوئی فیصلہ نہیں لے گی تو فیصلہ لے وہ عشق۔۔ جو دل
سے نکلتا ہے۔ جو نکلتا ہے اور عرش کو ہلا دیتا ہے۔ اور پھر اﷲ کے دربار سے
فیصلہ آتا ہے فلاں بندہ سرخروئی حاصل کرے گا۔ باقی سب صرف اس کے جنازے میں
شرکت کرنے کے لیے ہی رہ جائیں گے۔
تومیرے پیارے قارئین۔ جو یہ کہتا ہے کہ غازی ممتاز قادری شہید نے قانون
ہاتھ میں لیا تو کیا ہوا۔ اس نے سلمان تاثیر کو قتل کیا، حق پر یا نا حق
پر۔ دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ شہید قادری کے دل میں جذبہ کیا تھا۔ وہ جذبہ
عشق تھا۔ عشق محمد مصطفٰی ﷺ۔ مولانا حنیف قادری کی باتوں می وہ آیا یا
نہیں، لیکن اس کا جذبہ عشق ہی اس کے عشق کی گواہی دے گا۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ
دنیا میں کوئی پتہ تک بھی اﷲ کی رضا کے بغیر نہیں ہل سکتا تو ممتاز قادری
کے جنازے میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ کیسے پہنچ گئے؟ جنازے بے شک
فیصلہ نہ کریں، لیکن اﷲ کا حکم تو پھر بھی سب سے افضل ہے۔ |