زن مرید اسمبلی

مرید رونے کا ہنر لے کر پیدا ہوا اور بولنا سیکھنے تک صرف رو، روکرہی بات کرتا تھا۔ شادی ہوئی تو گونگا بھی ہوگیااور روہانسا بھی۔نصیبو شوہرگریزعورت تھی۔ شادی کی انگوٹھی غلط (درمیانی) انگلی میں اس لئے پہنتی تھی کیونکہ شادی غلط آدمی سے ہوگئی ۔مرید نے دفتر سے اپنی دلہن کو فون کیا :سنو امی آ رہی ہیں۔ کچھ بنا لینا۔ دلہن نے منہ بنا لیا۔۔۔یہ لطیفہ نہیں حقیقت ہے۔مردجانتے ہیں کہ شوہراوربیوی پربننے والے لطیفے۔لطیفے نہیں ہوتے۔شوہروں کی زندگی بالکل راحت کے گانے ’’تیری آنکھوں کےدریا کا اترنا بھی ضروری تھا ۔محبت بھی ضروری تھی بچھڑا بھی ضروری تھا ‘‘۔جیسی ہوتی ہے

پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی تصویر

مرید نے دفتر سے اپنی دلہن کو فون کیا :سنو امی آ رہی ہیں۔ کچھ بنا لینا۔ دلہن نے منہ بنا لیا۔ مریددفترسےگھر پہنچا توامی کا منہ بھی بنا ہوا تھا۔ ہوٹل سے کھانا منگوایا ۔ ماں کورسوئی میں اور دلہن کوبیڈ روم میں پیش کیا۔رات بھر امی سے باتیں کیں۔تازہ صبح بیدارتوہوئی لیکن دلہن کا منہ رات سے باسی تھا۔مرید اپنا سا منہ لے کردفترچلا گیا۔ پنجاب حکومت کانصابی نعرہ’’مار نہیں پیار‘‘مرید نے اپنے گھرپر لاگو کررکھا تھا کیونکہ گھرانسان کی پہلی درس گاہ ہوتا ہے۔

مغل شہنشاہ اکبر کے نورتن میں سے سرفہرست ابوالفضل تھا۔جس نے اکبرکویقین دلایا کہ آپ علما سے زیادہ بہترمذہب جانتے ہیں۔اسی خوش فہمی میں اکبر نے دین الٰہی متعارف کروادیا ۔سورج، گائے، آگ اورپانی کی پوجاکرنا،ماتھے پرقشقہ (زعفران یا صندل سےدو نشان) بنانا،سود،جوااورشراب نوشی کی اجازت ،داڑھی پرپابندی ،بادشاہ کوسجدہ تعظیم،شیطان پورہ( بازارحسن)کا قیام اورختنہ پرپابندی جیسی رسومات دین الہی کا حصہ تھیں۔اکبرکا خیال تھا کہ روح کھوپڑی کے درمیان سےنکلتی ہے اسی لئے وہ صرف سرکے درمیانی بال کٹواتا تھا۔
کھوپڑیاں انسانوں کو میٹرکردیتی ہیں۔مرید نےیوم تولید سےشب عروس تک ہرسبق ماں سےسیکھا تھا۔وہ رونے کا ہنر لے کر پیدا ہوا اور بولنا سیکھنے تک صرف رو، روکرہی بات کرتا تھا۔ شادی ہوئی تو گونگا بھی ہوگیااور روہانسا بھی۔نصیبو جس روز حجلہ عروسی میں آئی ۔توماں ۔مرید کی زندگی سے نکل گئی۔ وہ شوہر گریز عورت شادی کی انگوٹھی غلط (درمیانی) انگلی میں اس لئے پہنتی تھی کیونکہ شادی غلط آدمی سے ہوگئی ۔مرید کوجگ راتا تھا ۔دفترمیں جلد ہی سوگیا۔ اچانک باس آگئے۔ڈانٹ ڈپٹ کی اور بولےجہنم میں جاؤ۔مرید گھر چلا آیا۔
نصیبو:اگرمیں تین چار دن تمہیں نظرنہ آؤں تو کیسا لگے گا۔؟
مرید: بہت اچھا ۔
نصیبو پھرہفتہ سے منگل تک نظر نہیں آئی۔ بدھ کومرید کی آنکھوں کی سوجن اتری تو تھوڑی تھوڑی نظر آئی۔
یہ لطیفہ نہیں حقیقت ہے۔مردجانتے ہیں کہ شوہراوربیوی پربننے والے لطیفے۔لطیفے نہیں ہوتے۔شوہروں کی زندگی بالکل راحت کے گانے ’’تیری آنکھوں کےدریا کا اترنا بھی ضروری تھا ۔محبت بھی ضروری تھی بچھڑا بھی ضروری تھا ‘‘۔جیسی ہوتی ہے۔کہتے ہیں کہ جورن مرید نہیں۔ یا تووہ جھوٹا ہے یا پھرشوہرنہیں۔ شادی ایسی ورکشاپ ہے جہاں شوہرورک پرہوتے ہیں اوربیوی شاپ پر۔شادی خواہ کزن سے ہی ہوجائے۔ بلڈ کا رشتہ بھی بلڈ پریشربن جاتا ہے۔پھرڈسپرین کی ٹی وی کمرشل کی طرح بیوی کی ہربات ’’سردرد۔سردرد‘‘سنائی دیتی ہے۔ایسےشوہرنام کےمرید نہ بھی ہوں کام کےمریدضرورہوتے ہیں۔جبری مرید۔جو شادی کے خرکار کیمپ میں جبری مشقت کرتے ہیں۔شوہرکہیں شیخ مرید ہیں، کہیں میاں مرید ، کہیں مریدجٹ اورکہیں رانا مرید۔
بیوی :شکر ہے آپ گھرآگئے
شوہر:کیوں۔کیا ہوا۔؟
بیوی :باہرگلی میں بہت شورتھا کہ کوئی رن مرید گٹرمیں گرگیا ہے
شوہر:فٹےمنہ تیرا۔ رن مرید نہیں۔ لوگ رانا مرید کہہ رہے تھے۔

کہتے ہیں کہ خواتین کو رنگ نکھارنے والی کریم اور شیمپوبیچنے والوں کےعلاوہ کوئی بیوقوف نہیں بنا سکتا۔ نصیبو بھی اتنی ہی بے وقوف تھی۔ شوہر کی کمائی کا زیادہ حصہ فضول خرچی میں اڑا دیتی تاکہ وہ دوسری عورت کا سوچے بھی ناں۔نصیبو کی یہ دانائی ایسی آرزو کو توڑنے کے لئے تھی جو مرید نے کبھی باندھی بھی نہ تھی۔ بالکل گانے کے دوسرے شعر’’ضروری تھا کہ ہم طواف آرزو کرتے۔ مگر پھر آرزوں کا بکھرنا بھی ضروری تھا‘‘۔کی طرح ۔۔ مرید سماج میں عورتوں کی برابری کا علمبردار تھا کیونکہ اس کی عورت بہت آگے نکل چکی تھی۔ساس آتی توجی جی کرتا پھرتا۔ وہ جنمی ماں کوامی اورساس کو امی جی کہتا۔ابا اور سسر پر بھی یہی فارمولہ ایپلائی کرتا۔بیوی مرشدکےمرتبے پرفائزتھی ۔تبھی تووہ اپنے مرید کواے جی کہہ کربلاتی’’ابھے گدھے۔‘‘
مرید ایک باراونٹ کا گوشت لایا۔خود پکایاتو اچانک بچے ضد پکڑگئے:ابا یہ کس جانورکا گوشت ہے۔؟
باپ نے بہت ٹالا آخربولا۔ یہ اس جانورکا ہے جوکبھی کبھارآپ کی امی مجھے کہہ کربلاتی ہے۔
بچے چیخ اٹھے۔اوئے نہ کھانا۔ گدھے کا ہے۔

ایسے بے بس مریدوں کے لئےقانون سازی درکارتھی لیکن پنجاب اسمبلی بھی نصیبو نکلی۔تحفط حقوق مرداں کے بجائے ۔تحفظ حقوق نسواں بل پاس کردیا۔اب پنجابی خواتین پر تشدد، نفسیاتی وجذباتی دباؤاورمعاشی استحصال نہیں ہوسکے گا۔تشددپسندوں کوعدالت خواتین سے دوررکھ سکے گی۔انہیں جی پی ایس ٹریکنگ بریسلٹ پہنا کر دو دن تک گھر سے نکالاجاسکے گا۔’’کڑا‘‘اتارنےپرمزید ایک سال سزا ہو گی ۔مرد ۔ خاتون کو بے گھر بھی نہیں کرسکے گا۔

دین اکبری کاخالق ۔۔ابوالفضل قتل ہوگیاتھا۔علما نے شہنشاہ کومرتدقراردے دیا ۔دین اکبری ۔اکبر کے ساتھ ہی چل بسا۔ آج اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا شیرانی اور جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ۔ خواتین بل کی مخالفت کر چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ’’1973کے آئین کے تناظر میں‘‘عمران خان کو ووٹ دینا بھی حرام کہہ چکے ہیں اور مولانا شیرانی تو پہلی بیوی کی اجازت کےبغیر دوسری شادی کے حامی ہیں۔مجھ کُندذہن کوتو ایسے بیانات ۔سے سعادت حسن منٹو کا افسانہ’’نیا قانون‘‘یاد آتا ہے۔

مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ’’پنجاب اسمبلی زن مریدوں کا گھرہے۔ پنجابی شوہر مظلوم اوران کامستقبل خوفناک نظرآ رہا ہے۔وزیراعلی پنجاب۔ خادم اعلی اس لئےہیں کیونکہ وہ اپنے گھرکے خادم اعلیٰ ہیں۔ایسے بل کوہماری زبان میں زن مرید کہتے ہیں۔ممبران اسمبلی اگر سیدھا سیدھا مرد کوعورت اورعورت کومرد کہہ دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔

آج کل مولانا اوربعض لیگی وزرا بیانات سے انتاکشاری کھیل رہے ہیں۔لیکن مجھے لگتا ہے کہ 1973 کےآئین کے تناظر میں پنجاب کا ہر ایم پی اے اب ممبر آف زن مرید اسمبلی ہے۔لیگی ایم پی اے میاں طاہر جمیل زنانہ بل پر مولانا کے ردعمل کا ۔مردانہ واردفاع کر رہے ہیں ۔انہوں نےزن مرید کہنے پر تحریک استحقاق جمع کرادی ہے اور مولانا سے معافی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔دعوی ہے کہ پورے ایوان کا استحقاق مجروح ہواہے۔اسلامی نظریاتی کونسل نے حقوق نسواں بل کو مسترد کرکے پنجاب اسمبلی کو کفارہ ادا کرنے کی ہدایت کی ہے۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے اس بل پر اپنا حصہ یوں ڈالا ہے کہ ’’قانون پہلے پاس ہو جاتا تو عمران خان کوکڑا بھی لگ سکتا تھا‘‘۔مجھے تو گانے کے اگلے مصرعے یاد آ ر ہے ہیں۔’’مگر اب یاد آتا ہے وہ باتیں تھیں محض باتیں ۔۔کہیں باتوں ہی باتوں میں مکرنا بھی ضروری تھا‘‘۔

پنجاب میں جانے کون سا ابو الفضل تھا۔جس نے شہنشاہ کو تحفظ حقوق نسواں کا مشورہ دیا۔حالانکہ ضرورت تو’’ تحفظ حقوق مرداں‘‘بل کی تھی۔وہی مرد جو عورت پر ہاتھ اٹھائے تو ظالم ۔پٹ جائے تو بزدل۔ عورت کے سامنے بولے تو بدزبان ۔چپ رہے تو بے غیرت۔گھر سے باہر رہے تو آوراہ۔گھر میں رہے تو ناکارہ ۔ ماں کی مانے تو چمچہ اور بیوی کی مانے تو جورو کا غلام۔ آخری اطلاع تو یہ ہے کہ مولانا کے خلاف تحریک استحقاق کو حکومتی سطح پر دبا دیا جائے گا کیونکہ مولانا کی حکومت کو ضرورت ہے۔ پنجاب اسمبلی شائد اب زن مرید ہی رہےگی۔زن مرید اسمبلی کےممبران استحقاق بھی مجروح رہے گا اور جذبات بھی۔جبکہ گانے کے آخری بول ہیں۔’’تیرے دل کے نکالے ہم، کہاں بھٹکے ، کہاں پہنچے۔۔۔۔ مگر بھٹکے تو یاد آیا بھٹکنا بھی ضروری تھا‘‘۔
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 95121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.