خانہ جنگی کا عندیہ تو نہیں؟

ملک میں سنگینی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے جب کہ ایک جمہوری ملک میں فرقہ وارانہ سنگینی زہر ہلاہل کے مترادف ہے اس سے جمہوریت کے تانے بانے اور جمہوری عناصر کمزور ہوں گے، 16 مئی سنہ 2014 کا دن ایک عام ہندوستانی کیلئے باعث مسرت نہیں کہا جا سکتا اسی دن سے رتیں بدل گئیں، موسم بدل گئے ـ معتدل فکر و مزاج کے افراد حوصلہ شکنی کے شکار ہوئے تو فرقہ پرست کے حوصلے قلانچے بھرنے لگے، جسے گفتگو کا سلیقہ نہ تھا افہام و تفہیم پر بھی قادر نہ تھے وہ بھی اپنی ناکام زبان دانی کا مظاہرہ کرنے لگے اور چیخنے لگے حتی کہ "لصوت الحمیر " کی عملی تفسیر بن گئے ـ اگر چیخ و پکار تک ہی محدود رہتے تو قدرے غنیمت تھی اس سے دو قدم آگے بڑھ کر اشتعال انگیزی کو اپنا وطیرہ سمجھ لیا گیا ـ کبھی ھم اشتعال انگیزی میں اوما بھارتی، ایڈوانی جیسے لوگوں کا نام سنا کرتے تھے، لیکن اب تو ان ریٹائرڈ فائر برانڈ کی جگہ "ینگ فائر برانڈ " نے لے لی ہیـ یوگی آدتیہ ناتھ، ساکشی مہاراج، نرنجن جیوتی، سادھوی پراچی اور رام شنکر کٹھیریا جیسے دوئم سوئم درجے کے لیڈران بھی آدھمکے ـ جب کہ ضرورت تو یہ تھی کہ وہ جمہوریت، بقائے باھمی اور مساوات کی فضا سازی کرتے، لیکن ایک خاص مشن کے تحت اشتعال کو اپنا لازمہ خیال کیا گیا جو سراسر جمہوریت کے منافی ہے؛ بلکہ بلفظ دیگر یوں کہہ لیں کہ ان کے ہم خیال افراد، لیڈران بشمول حکومت کے نزدیک جمہوریت اور "لوک تنتر " اہم نہیں؛ بلکہ آر ایس ایس کے افکار زیادہ ہی اہمیت رکھتے ہیں ـ

جے این یو تنازعہ ملک کی تمام یونیورسٹی کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منفرد تنازع ہے جہاں ایک نہتے اور بے بس طالب علم کنہا کمار کی آواز کو بھر پور طریقے سے دبانے اور اس کے نعروں اور بیانات کو غدارء وطن کے زمرے میں ڈال دینے کی حکومتی قوّت کا بھی استعمال کردیا گیا ـ کنہیا کمار (مجھے اس کے سیاسی نظریات سے سروکار نہیں) نے جس طرح سے بھوک، پسماندگی، جہالت، فرقہ پرستی اور ناخواندگی سے اعلان جنگ کیا ہے وہ قابل ستایش ہے اور یہی سوچ ایک سچے ہندوستانی کی بھی ہونی چاہیے، کنہا کمار نے تو بھوک، فرقہ پرستی، منووادی اور ملک میں بڑھتی ہوئی عدم تحمل کی روایت سے آزادی مانگی تھی جو کہ ہر ایک ھندوستانی کا حق ہے، لیکن ذرائع ابلاغ کے کارندوں نے ان عناصر کی صورتِ تشتت کو یک تصویرِ عریاں میں تخلیق کرکے غدارِوطن کہہ دینے میں حجاب محسوس نہ کیا، جب دوسرے لیڈران نے اس مسئلہ کو حل کرانیاور بھگوا نوازی کی مخالفت کی اور باہمی مفاہمت نیز عدلیہ کے توسط سے تصفیہ کی گذارش کی تو بلاتردد انہیں بھی غدار کہہ دیا گیا، خالد عمر اور انربان جیسے بے گناہ کے اہل خانہ کو سرعام دھمکیاں دی جانے لگیں ماں اور بہنوں کو بے حرمت کرنے کی بھی دھمکی ملی آخر وہ کون لوگ ہیں جو احاطۂ عدالت میں ملزم پر جان لیوا حملہ کر ر ہے ہیں یہ کس کے کارندے ہیں؟ کس کے ایماء پر عدالت کے وقار کو مجروح کر رہے ہیں؟ صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہتے ہیں وہ کس کے اشارے پر کام کر رہی ہے؟ کون ہے جو ویڈیو کو فوٹو شاپ کے ذریعہ مکروہ جزو شامل کر رہا ہے؟ آخر کوئی معشوق تو ہے پردۂ زنگاری میں! ایک وزیر سر عام مسلمانوں کو مارنے کاٹنے اور جلا دینے کی بات کر رہا ہے، اس کے شواہد و دلائل موجود ہیں، لیکن وزارت داخلہ عامیانہ صفائی کیساتھ کہتی ہے کہ "ایسا کچھ بھی نہیں کہا گیا " وہیں دوسری ویڈیو موجود ہے جس میں ایک نمائندہ سوال کرتا ہے کہ آخر ایسا کیوں کہہ رہے ہیں تو جواباً سخن سرا ہے کہ "مسلمان بھی سر عام ہماری دیوی ماتاؤں کو گالیاں دیتے ہیں " جناب وزیر بے تدبیر کا الزام اسی وقت درست ھوتا جب اپنے موقف کی تبیین کیلئے دلائل و براہین بھی پیش کرتے، لیکن نہ تو دلائل ہیں اور نہ ہی آزاد بھارت کی ایسی کوئی تاریخ ہے کہ مسلمانوں نے دیوی دیوتاؤں کو برا بھلا کہا ہو ـ دراصل یوپی میں آئندہ سال اسمبلی الیکشن ہے اور ابھی سے ہی اس کی تیاری زور پکڑ رہی ہے جس کا آغاز کٹھیریا نے کر دیا ہے ـ ذرا حقائق کا مطالعہ تو کریں گجرات کا عالمگیر سانحہ پیش آیا لیکن انتقام کیلئے زبان بھی نہ کھولی بھاگلپور، مؤ، ہاشم پورہ، مرادآباد، مظفر نگر جیسے مقامات پر مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی اس وقت کسی مسلم رہنما نے قتل و خون کی بات کی یا پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا؟ اگر کٹھیریا کو ایک سنگھی کے قتل پر اس قدر ملال ہے تو ہریانہ کے پر تشدد تحریک کے نتیجے میں بیس سے زائد عام ہندوؤں کے بہیمانہ قتل پر رگِ حمیت کیوں نہیں گرم ہوتی ہے؟ کئی خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی، لیکن مجرم گرفت سے باہر ہیں ـ کیا کٹھیریا نے اس پر بھی سوال اٹھایا ہے کہ جاٹ تحریک میں مہلوکین کو معاوضہ دیا گیا یا نہیں جس کے املاک نذر آتش کردیے گئے اس کے معاوضہ کی کیا شکل ہوگی ـ ایک "کاریہ کرتا " کی موت تو یاد رہی لیکن بیس سے زائد بے حرمت ماؤوں اور بہنوں کی چیخ ان کے جگر کو مغموم نہ کرسکی! مرکزی حکومت کس فریب میں ہے کہ ان کے وزراء آئے دن اشتعال انگیزی کر رہے ہیں اور کاروائی اور انتباہ کے بجائے پراسرار طریقے سے پہلو بدل لیتی ہے، ان پر نکیل کسنے کی سکت نہ ہو تو "بھارتیتہ اور لوک تنتر " کیلئے اپنی نا اہلی ظاہر کرکے اقتدار سے دستبردار ہوجانا چاہیے ـ

وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ایک بھاجپائی ہونے کے باوجود سنجیدہ اور متین فکر کے سمجھے جاتے ہیں، انھیں ایک ذمہ دار لیڈر بھی شمار کیا جاتا ہے، لیکن وہ بھی اس موقعہ پر فریب خوردگی کے شکار ہوئے کہ اپنی مثبت شبیہ کے مخالف ہوگئے جب کہ آگرہ کے سوگ سمیلن میں کٹھیریا نے کیا کہا سبھی جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے ان تک سوشل میڈیا کے توسط سے ویڈیو اور تصاویر پہنچ چکی ہے ـ جب ملک کا صحافتی طبقہ، اخبارات مالکان اور صحافی بھارتی سماج کا رخ موڑ سکتے ہیں، جب میڈیا کے الزامات کے تحت کنھیا کمار کو جیل جانا پڑ سکتا ہے تو بھلا کیا وجہ ہے کہ انڈین ایکسپریس کی اشاعت کو معتبر نہیں سمجھا جا سکتا ہے؟ پھر مبینہ ویڈیو دیکھ کر بھی وزیر داخلہ اشتعال انگیزی کو کلین چٹ دے رہے ہیں کہ کٹھیریا نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا ہے ـ آخر یہ کس طرح ثابت ہوگا کہ کٹھیریا نے خاص طبقے کو مشتعل کرنے کا کام کیا ہیـ یا پھر وزیر داخلہ جیسے عالی دماغ کے نزدیک اشتعال انگیزی کا پیمانہ اور معیار کچھ اور ہی ہے؟ آخر کسے اشتعال انگیزی کہتے ہیں موجودہ مرکزی حکومت ہمیں اشتعال انگیزی کی تعریف بتادے تو سوا کروڑ مسلمانوں کے علم میں اس اصطلاح کے بھگوا مفہوم کا اضافہ ہوگاـ کیا اس معاملہ کو غیر حساس قرار دے کر وزارت داخلہ خانہ جنگی کی چنگاری اور فرقہ واریت کی آگ ملک کے طول و عرض میں لگانا چاہتی ہے، لیکن یہ وزارت کی خوش فہمی ہوگی کہ مسلمان جذبات سے مغلوب ہیں اور ایسا قدم اٹھالے کہ جس کا سراسر فائدہ انھیں پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں ہو ـ وہ وقت گذر چکا ہے اب تو ہوشمندی اور متانت آچکی ہے جس کا مظاہرہ بہار الیکشن کے موقعہ پر دیکھ لیا گیا ہے!

اشتعال انگیزی اور نفرت آمیز بیانات کا ایک طویل سلسلہ چل پڑا ہے، جسے بیان کرنا ضیاع وقت ہی ہے کوئی سرعام کسی کو گولی مار دینے کی بات کہہ رہا ہے تو کوئی خون کردینے کا اعلان کر رہا ہے ـ کنہیا کمار کو بھاجپایوا مورچہ کے لیڈر کلدیپ وارشنے زبان کاٹ لینے کی دھمکی دے رہے ہیں تو ایک دوسری تنظیم کی طرف سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ کنھیا کو گولی مارنے والے کو 11 لاکھ انعام میں دیا جائے گا ـ زبان کاٹ لینے والے کو اور 11 لاکھ روپے انعام دینے والے کو کب گرفتار کیا جائے گا یہ جواب طلب امر ہے ـ نفرت، ذہنی تشدد، فکری آمریت کیساتھ دماغی درشتی بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے ـ ملک کا سیکولر ڈھانچہ جو اس کی پہچان ہے وہ زمین بوس ہو رہا ہے، لیکن مرکزی حکومت اس خوش فہمی میں غلطاں ہے کہ ملک میں سا لمیت اور فکری اطمینان ہے ـ یہ تصویر کا کربناک پہلو ہے کہ دن بدن گھبراہٹ، عدم اطمینان بڑھتی چلی جا رہی ہے ـ یہ سچ ہے کہ آر ایس ایس کے ناتھورام گوڈسے نے گاندھی جی کا قتل کیا تھا اور اسی آر ایس ایس کا سیاسی دھڑا برسرِ اقتدارہے۔افکار کی نمود بیشک ہوگی، لیکن یہ خیال رکھنا ہوگا کہ وہ ایک عظیم جمہوریت کے پاسبان ہیں اپنی ذمہ داری کو متانت اور وقار کے ساتھ نبھانے کی ضرورت ہے تاکہ جمہوریت کی جو تصویرِ زیبا اور اس جمہوریت کے مثبت قصے مشہورِ عالم ہیں وہ مجروح نہ ہوں ـ جے این یو تنازعہ ہو یا آئے دن اشتعال انگیزی یا خواہ جو بھی ملک مخالف سرگرمیاں ہوں ان سے پورے عالم میں بھارت کے تئیں مثبت پیغامات نہیں مل رہے ہیں ـ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت کی سا لمیت اور اتحاد کو بچائے رکھیں ورنہ وہ دن دور نہیں جب 1947 جیسی ہولناک خون ریزی پھر اس ہندوستان کی مٹی کو سرخ کردے گی ـ اگر یہ سوال ایوان میں کیا جائے کہ آیا آر ایس ایس چاہتی ہے کہ خانہ جنگی ہو؟۔توجواباً وزیراعظم، وزیرداخلہ ممبر پارلیمنٹ بشمول موہن بھاگوت جیسے افراد بھی اس کی اجازت نہ دیں گے تو بھلا کیا وجہ ہے کہ آئے دن اشتعال انگیزی اور جو سچ کا علمبردار ہے اسے "غدار " کہہ کر مطعون کیا جاتا ہے ـ ملک کوافراتفری سے بچایا جائے ورنہ تاریخ کی سیاہی اس ملک کا انتظار کر رہی ہے ـ
Iftikhar Rahmani
About the Author: Iftikhar Rahmani Read More Articles by Iftikhar Rahmani: 35 Articles with 23824 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.