اسلام اور دہشت گردی

اسلام عیسائیت کے بعد دنیا کادوسرا مذہب ہے ۔ مشرق وسطیٰ،شمالی افریقہ اور ایشیا ء کے علاقوں میں غالب اکثریت اسلام کے ماننے والے ہیں جبکہ چین،مشرقی یورپ اورروس میں بھی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی آباد ہے ۔مسلم مہاجرین کی بھی ایک بڑی تعداد یورپ میں آبادہے ۔ جہاں عیسائیت کے بعد سب سے بڑامذہب اسلام ہے ۔یورپ کے دانش ور ،حکمران طبقہ اور دیگر عیسائیت پسندلوگ اسلام کی اشاعت سے خائف ہیں ۔اسی لئے آج کی جدیددنیا میں سب سے زیادہ ظلم اسلام کے نام لیواؤں پر ہورہاہے اور اسلام کو بدنام کرنے کی ہرروز ایک نئی سازش تیارہوتی ہے ۔اسلامی ممالک میں امیرترین ممالک میں امن کی صورت حال کو مخدوش کرکے اسلام دشمن قوتیں اپنا آپ مضبوط کررہی ہیں ۔اسلام کو دہشت گردوں کا مذہب بلایا جاتا ہے اور اسلام پسندوں کو انتہاپسند کہہ کرپکاراجاتاہے ۔حالانکہ اسلام ایک امن وآشتی کاعلمبردار دین ہے ۔اسلام کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام پسندوں نے جب بھی کسی ملک پرحکومت کی وہاں جتنے حقوق مسلمانوں کو دئیے اتنے ہی بنیادی حقوق دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کوبھی دئیے ۔تاریخ میں تویہاں تک بات موجود ہے کہ جب کسی ملک کے لوگوں کی حفاظت مسلمان نہ کرسکے تو وہاں کے لوگوں کو جزیہ واپس کردیاگیا کہ ہم آپ کی حفاظت نہیں کرسکے اس لئے یہ آپ کی رقم ہم واپس کررہے ہیں ۔

دہشت گردی وہ عفریت ہے جس سے پاکستانی بہت عرصے سے نبردآزما ہیں ۔اب چونکہ فوج اورسیاست دان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوچکے ہیں اور ضرب عضب سے دہشت گردی کے اس جن پرکافی حد تک قابو پایاجاچکاہے ۔دہشت گردی ایک ایسا لفظ ہے جسے میڈیا نے پروپیگنڈہ کرکرکے مسلمانوں کے لئے خاص کردیا ہے ۔آج اگر دنیا میں کہیں بھی دہشت گردانہ کاروائی ہوتی ہے تو میڈیائی وار کے تحت اکثریت کے ذہنوں میں دہشت گرد مسلمان ہی بیٹھ جاتے ہیں بلکہ کچھ تو اس کا اظہاربھی کردیتے ہیں کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی مسلمان ہی ہوگا۔کیااس لفظ کی بنیاد مسلمان بنے؟آئیے ذرا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔1790ء میں فرانسیسی انقلاب کے دوران 1793ء اور 94ء کو دہشت کے سال قراردیاگیایوں دنیا میں دہشت گردی کا لفظ پہلی بارمنظم طورپر استعمال کیا گیا ۔فرانسیسی انقلاب کے دوران 5لاکھ افراد کو گرفتار کیاگیا جن میں سے چالیس ہزار کو قتل کیاگیا اور دولاکھ کو بھوکا رکھ کر ماردیاگیا۔اس لئے ان سالوں کو دہشت کا سال کہا جاتا ہے۔1880ء میں سینٹ پیٹرز برگ میں دودھماکے ہوئے جن میں 22افراد ہلاک ہوئے ۔ ان دھماکوں میں ایک روسی ملوث تھا جو کہ مسلمان نہیں تھا۔1886ء میں مارکیٹ شکاگومیں ایک لیبر ریلی کے دوران دھماکہ ہواجس میں 12افرادہلاک ہوئے ،سات پولیس افسران زخمی ہوئے لیکن بعد میں ان کی اکثریت ہلاک ہوگئی ۔ اس کارواوئی کو سرانجام دینے والوں میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔6ستمبر 1901ء کوامریکی صدر ایک فرینک نامی شخص کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔ فرینک بھی مسلمان نہیں تھا۔ 1910ء میں لاس اینجلس کی ٹائمز اخبار کی عمارت میں دھماکہ ہوا جس میں 21کے قریب افراد ہلاک ہوئے جوکہ جوزف اور جیمز نامی دوافراد نے کئے جو کہ مسلمان نہیں تھے ۔16اپریل1925ء کو بلغاریہ کے مقام صوفیا کے ایک چرچ پرحملہ ہوا جس میں دس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور پانچ سوسے زائد افراد زخمی ہوئے ۔ یہ دھماکہ بلغاریہ کی کیمونسٹ پارٹی کی طرف سے کیا گیاتھا اور وہ مسلمان نہیں تھے ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد 1941ء سے لے کر 1948ء تک ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی طرف سے 260کے قریب دہشت گردانہ کاروائیاں کی گئیں وہ مسلمان نہیں تھے ۔یہودیوں کے بقول ہٹلر نے 60لاکھ سے زائد یہودیوں کو قتل کیا ۔ کیا ہٹلر مسلمان تھا ؟آج خود کش حملوں کا الزام مسلمانوں پر لگتا ہے لیکن اس کو عام کرنے والے مسلمان نہیں تھے اور جنہوں نے شروع کیا وہ بچوں کو اس کام کے لئے استعمال کرتے تھے۔1984ء میں ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھارتی فورسز نے سکھوں کی مقدس ترین جگہ گولڈن ٹیمپل میں کاروائی کی اور کئی سکھ بھارتی فورسز نے ہلاک کئے اور کئی سوکو گرفتارکرکے عقوبت خانوں میں سزائیں دی گئیں جس کے نتیجے میں بھارتی وزیراعظم قتل ہوئی ۔ ان دونوں کا روائیوں میں بھی مسلمان نہیں تھا ۔بھارتی حکومت کے مطابق اس کے 600اضلاع میں 150کے قریب ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو کہ دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں۔لیکن بھارتی میڈیا صرف اور صرف کشمیریوں اور پاکستانیوں کو دہشت گرد کہتاہے اور کشمیریوں کے حق رائے دہی کو دہشت گردی کے طور پر دنیا کے سامنے لاتا ہے ۔ دنیاکو کشمیرمیں ہونے والے مظالم سے بے خبر رکھنے کے لئے اس قدر پروپیگنڈہ کیا جاتاہے کہ دنیا مکار ہندوبنئے کی مکاری میں آجاتی ہے ۔

مندرجہ بالا واقعات نائن الیون سے پہلے کے ہیں نائن الیون کے بعدایک پلان کے تحت اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے نتھی کردیا گیا ۔مسلمانوں کو ماراجاتا ہے اورجب وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں تو انہیں دہشت گرد کہاجاتا ہے ۔اظہار آزادی رائے کی آڑ میں اسلام کی مقدس ترین شخصیات کے خلاف بکواس کی جاتی ہے ان کے خاکے بنائے جاتے ہیں باقاعدہ طور پر مقابلے ہوتے ہیں اور اگر اسی اظہار آزادی رائے کو لے کر مسلمان ان گستاخوں کا علمی وعملی محاسبہ کریں تو دہشت گردی کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔ایک لمبی لسٹ ہے جس میں لاکھوں ،کروڑوں افراد کے قاتل موجود ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں ہے ۔تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟آج بھی کشمیر،فلسطین ،برما،شام ،عراق وافغانستان میں جس طرح سے مسلمانوں کاخون بہایاجارہاہے کیایہ دہشت گردی نہیں؟بچپن میں ایک محاورہ سنا تھا کہ ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘۔اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی لیکن جب عملی طور پراس کا اظہار دیکھا تو مکمل سمجھ آگئی۔کشمیروفلسطین کے مسئلے پچھلے کئی عشروں سے عالمی طاقتوں کے منہ پرطمانچہ ہیں ان دہشت گردغاصبانہ ریاستوں کی طرف سے جو انہیں عالمی طاقتوں کی چمچہ گیری کرتی ہیں ۔افغانستان وعراق کو خاک وخون میں نہلادیاگیا ۔عراق وشام میں داعش کا ہوا کھڑاکرکے مسلمانوں کو مزید بدنام کیا اور ایک ملک کو اپنے منصوبے میں تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ۔آج پورا عالم اسلام انہیں دہشت گردکاروائیوں کی تکلیف میں مبتلا ہے ۔نائن الیون کے بعد جس طرح سے اسلاموفوبیا میں مبتلا ہوکر یورپ وامریکہ نے آتش وخون کا بازار گرم کیا اور جس طرح سے اسلام کے نام سے تنظیمیں بناکراپنے ممالک کے لوگوں کو اسلام سے دور کیا، آج کی داعش ،بوکوحرام اور ان جیسی کئی دوسری تنظیمیں اسی کا نتیجہ ہے۔

اسلام میں امن کا اتنا واضح تصور موجود ہے کہ دیگر ادیان اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔قرآن مجید میں اﷲ تبار ک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایاجس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس نے کسی کو بغیر کسی وجہ کے جان بوجھ کر قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔نبی رحمت ﷺ کا مشکوٰۃ میں ارشاد ہے کہ ’’جوشخص لوگوں پررحم نہیں کرتا،اﷲ بھی اس پررحم نہیں کرتا‘‘اسلام میں ظلم کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ۔ حدیث نبوی ﷺ ہے ’’جس نے لوگوں کوتکلیف پہنچائی ،اس نے اﷲ کو تکلیف پہنچائی ‘‘۔مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ باہمی اتحادواتفاق سے اپنے مسائل کو حل کریں اور اگر اس کے لئے کوئی اسلامی ملک کوشش کرتاہے تو ہمیں اس کی حمایت کرنی ہوگی ۔پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردوں سے نبردآزماہے اوردنیاپاکستان کی صلاحیتیوں کو مان رہی ہے ۔ ایسے میں پاکستان کو اپنے مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے مسائل پر بھی توجہ کرنی ہوگی ۔مسلمانوں کو ان دہشت گردوں کے عفریت سے نبٹنے کے لئے قرآن وحدیث کامطالعہ کرنا ہوگا۔علماء کرام کو اپنے خطبوں میں ،اساتذہ ،اسکالرز اور دانش وروں کو اسلام کے ان اصولوں کو دنیا کے سامنے لانا ہوگا تاکہ دنیا کو اسلام کی اصل تصویر دکھائی جاسکے ۔میڈیاکو بھی اپنا کردار اسلامی اصولوں کے مطابق کرنا ہونگے ۔
Muhammad Atiq Ur Rhman
About the Author: Muhammad Atiq Ur Rhman Read More Articles by Muhammad Atiq Ur Rhman: 72 Articles with 61788 views Master in Islamic Studies... View More